خیبرپختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا جس پر تمام حلقوں کی جانب سے تحسین کی گئی‘ تاہم خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ کا حجم پنجاب کی نسبت بڑا ہے۔ پنجاب کی نگران کابینہ آٹھ وزرا پر مبنی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 12 وزرا اور تین مشیروں کے ساتھ 15رکنی کابینہ تشکیل دی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کابینہ میں ارب پتی ارکان منتخب کئے گئے ہیں‘ جس سے تاثر قائم ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اخراجات اٹھانے والی شخصیات کو نگران کابینہ میں شامل کر کے حقِ خدمت ادا کیا گیا ہے۔ سید مسعود شاہ کو خیبرپختونخوا کابینہ میں شامل کیا گیا ہے‘ چارسدہ سے تعلق رکھنے والے سید مسعود شاہ سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختوخوا اور نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کے سمدھی ہیں۔ اسی طرح منظور آفریدی کا سیاسی تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے‘ وہ مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی شمار کئے جاتے ہیں۔ 2018ء کے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر بھی ان کا نام سرفہرست تھا مگر بوجوہ وہ اس وقت نگران وزیراعلیٰ بننے سے محروم رہے۔ انہیں گورنر بنانے کی سعی بھی کی گئی مگر غلام علی کا پلڑا بھاری ہونے کی وجہ سے وہ گورنر نہ بن سکے ۔ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے منظور آفریدی کا نام آخری وقت میں نگران کابینہ میں شامل کیا گیا۔ سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے منظور آفریدی سابق سینیٹر ایوب آفریدی اور سینیٹر مرزا خان آفریدی کے چچا زاد بھائی ہیں۔ خیبرپختونخوا کابینہ میں شامل فضل الٰہی اگرچہ صنعتکار ہیں مگر وہ گورنر غلام علی کے قریبی ساتھی ہیں اور غلام علی کے تاجر گروپ کا حصہ ہیں۔ خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ میں فضل الٰہی کے علاوہ بھی کئی نام ایسے ہیں جنہیں گورنر غلام علی سے قربت کی وجہ سے نگران کابینہ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ عدنان جلیل اور حاجی غفران کو دوستی کی بنا پر ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔ تاج محمد آفریدی بھی ان میں شامل ہیں جو قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ سینیٹ کے رکن رہ چکے ہیں اور ان کے بھائی شاہ جی گل رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ یہ چند نام ہم نے بطور مثال پیش کئے ہیں ان کے علاوہ خیبرپختونخوا کابینہ میں شامل ارکان مختلف سیاسی جماعتوں یا کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے نگران سیٹ اَپ کی سربراہی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر اس لئے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ نگران کابینہ ارکان کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہوتا ہے‘ نگران سیٹ اَپ کی تشکیل ایسے افراد پر ہونی چاہئے جن پر انگلیاں نہ اٹھائی جا سکیں۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو خیبرپختونخوا کے نگران سیٹ اَپ میں حصہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
دونوں صوبوں میں نگران کابینہ کی تشکیل ہو چکی‘ نگران حکومتوں کا بنیادی مقصد شفاف انتخابات کا انعقاد ہے‘ مگر انتخابات کی تیاری کہیں دکھائی نہیں دے رہی حالانکہ الیکشن کمیشن نے خط کے ذریعے پنجاب میں 9 سے 13 اپریل جبکہ خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کو انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے‘ تاہم دونوں صوبوں کے گورنرز نے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب نہیں دیا ۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے جو مجوزہ تاریخیں دی ہیں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انہی تاریخوں میں نوے روز پورے ہو رہے ہیں اور نوے روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ خیبرپختونخوا کے گورنر غلام علی نے کہا ہے کہ ان کے پاس قبائلی عمائدین آئے ہیں جنہوں نے انتخابات کے التو کا مطالبہ کیا ہے‘ قبائلی اضلاع میں بدامنی کی حالیہ لہر اور پاک افغان سرحدی پٹی کے مسائل کو جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس میں پی ڈی ایم قیادت کی اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمان‘ وزیراعظم شہباز شریف سمیت لیگی قیادت شریک ہوئی‘ عام انتخابات کا انعقاد اس ملاقات کا اہم ایجنڈا تھا‘ شنید ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل کو مؤخر کر کے انتخابات کو کچھ عرصہ تک ملتوی کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل یکم فروری کو شروع ہونا تھا مگر اب یکم مارچ کو شروع ہو گا‘ جو ایک ماہ تک جاری رہے گا‘ رمضان المبارک شروع ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل مردم شماری کو مزید مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ڈیجیٹل مردم شماری کا منصوبہ تحریک انصاف نے اکتوبر 2021ء میں اس سوچ کے ساتھ پیش کیا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اس لئے پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی مردم شماری کے معاملے پر احتجاج نہیں کر ے گی‘ اگر احتجاج کیا تو کہہ دیں گے کہ یہ تحریک انصاف کا شروع کردہ منصوبہ ہے۔ یوں پی ڈی ایم ڈیجیٹل مردم شماری کو جواز بنا کر عام انتخابات کو ملتوی کرتی رہے گی۔یہ سمجھا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی مردم شماری مکمل ہونے سے پہلے انتخابات کرانے کا فیصلہ نہ دے سکیں گی کیونکہ حلقہ بندیوں کا تعلق مردم شماری سے ہے۔ چند روز قبل اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ حلقہ بندیوں کا خیال کئے بغیر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ‘ جب بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیوں کا اس قدر خیال رکھا جا رہا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات میں حلقہ بندیوں کو کس قدر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق مولانا فضل الرحمان خیبرپختونخوا کی حد تک اپریل میں عام انتخابات کے حق میں نہیں‘ وہ اپنی نجی محفلوں میں قائدین کے ساتھ اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں الیکشن چاہیں تب بھی انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کا اتحاد ٹوٹتا ہے تو بھلے ٹوٹ جائے مگر وہ کسی صورت جلد انتخابات نہیں کرائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں پی ڈی ایم کے کچھ رہنما انتخابات رکوانے کا مطالبہ کرتے نظر آئیں۔ ایسے حالات میں مریم نواز کی وطن واپسی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز آتے ہی انتخابی مہم شروع کریں گی‘ میاں نواز شریف بھی انتخابی مہم شروع کرنے کا پیغام دے چکے ہیں‘ جلد ان کی واپسی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پی ڈی ایم قیادت دو گروپوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروپ وفاق میں اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے جبکہ صوبوں میں الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق الیکشن کا حامی ہے۔ اس گروپ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ چند روز پہلے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ جس طرح وقت سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں اسی طرح انتخابات میں تاخیر بھی نہیں ہو سکتی۔ مولانا فضل الرحمان اہم اتحادی جماعتوں کے خلاف کھڑے دکھائی دیتے ہیں‘ اس لئے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کا اتحاد برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے بڑی مہارت سے خیبرپختونخوا میں اپنی مرضی کا نگران سیٹ اَپ قائم کر لیا ہے‘ جب تک یہ سیٹ اَپ برقرار رہے گا وہ مستفید ہوتے رہیں گے۔
دوسری جانب مریم نواز کی واپسی مسلم لیگ (ن) کے ورکر کو متحرک کرے گی تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ ورکرز کے سامنے کیا پیش کریں گی؟ 2013ء کی انتخابی مہم اور 2023ء کی انتخابی مہم میں بہت فرق ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو تقریباً ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے کہ جب وہ عوام کے سامنے جائیں گے تو عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ان کے پاس نعرہ کیا ہو گا؟ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں ساڑھے نو برس تک اقتدار میں رہی ہے‘ پی ٹی آئی کی قیادت جب عوام کے پاس جائے گی تو یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ حالات کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے‘ اسی طرح پی ڈی ایم کی قیادت معاشی تباہی کی تمام تر ذمہ داری پی ٹی آئی پر نہیں ڈال سکتی کیونکہ انہیں حکومت سنبھالے ہوئے دس ماہ ہو چکے ہیں۔ اس لئے ہر سیاسی جماعت نئے نعرے کی تلاش میں ہے اور ہر جماعت کو دشواری کا سامنا ہے۔