مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سنیئر نائب صدر مریم نواز انتخابات سے پہلے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے احتساب کا مطالبہ کر رہی ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور اتحادی حکومت میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی خان صاحب کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اسے مائنس ون کا نام دے رہی ہے۔ خان صاحب کی عدالتوں میں عدم پیشی کے پیچھے بھی یہی منطق بیان کی جا رہی ہے کہ اتحادی حکومت عمران خان کو گرفتار کر کے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی رکاوٹ نہ رہے‘ اسی خیال کے پیش نظر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر خان صاحب گرفتار ہوئے تو وہ پارٹی قیادت سنبھال لیں گے۔تاہم سوال یہ ہے کہ اتحادی حکومت خان صاحب کی گرفتاری کا مطالبہ کس سے کر رہی ہے؟ کیا اتحادی حکومت کو اسی طرز کے فیصلے کا انتظار ہے جیسے نواز شریف کے خلاف دے کر انہیں اقتدار سے باہر کیا گیا؟ اتحادی جماعتیں از خود خان صاحب کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتیں کیونکہ اس سے ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہو گی اس لئے عدلیہ سے توقع لگائے بیٹھی ہیں مگر کیا عدلیہ ایسا فیصلہ دے گی ؟ اتحادی جماعتیں عدالتوں سے جس قسم کا ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ ریلیف تو شاید نہ مل سکے‘ البتہ اتحادی جماعتیں خان صاحب کے احتساب کا بیانیہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں‘ خان صاحب کی عدالتوں میں مسلسل عدم پیشی کے بعد لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ عدلیہ سے جتنی رعایت خان صاحب کو ملی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔
پنجاب میں انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے‘ 30اپریل کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات کا انعقاد ہونا ہے‘ مگر الیکشن سے پہلے جو ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ اس بار دکھائی نہیں دے رہا ۔ حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے تاحال انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہوا ‘ مریم نواز انتخابی مہم کی بجائے ورکرز کنونشن اور تنظیم سازی کر رہی ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہوا حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے بھی انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا ۔ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بروقت فنڈز اور سکیورٹی کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پورے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 65 ارب روپے درکار ہوں گے‘ دو صوبوں میں انتخابات کیلئے 20ارب چاہئے‘ وزارت خزانہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو صرف پانچ ارب روپے جاری کئے گئے ہیں‘ کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر 10ارب روپے جاری کئے جائیں۔ اسی طرح پنجاب میں تقریباً تین لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں سے 56 ہزار اہلکار خیبرپختونخوا میں تعینات ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ہونے تھے تاہم خیبرپختونخوا میں تاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو سکا ۔ گورنر غلام علی چودہ مارچ کو الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کریں گے‘ الیکشن کمیشن اور گورنر خیبرپختونخوا کے درمیان اس سے پہلے بھی دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جو بے نتیجہ رہیں۔ خیبرپختونخوا میں قبائلی اضلاع کے عمائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری سے پہلے الیکشن نہ کرائے جائیں۔ چونکہ میں خود قبائلی ہوں اس لئے قبائلی عمائدین کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 2017ء کی مردم شماری پر قبائلی اضلاع کو تحفظات ہیں کہ ان کی آبادی نصف ظاہر کی گئی ہے‘ جس کی بنا پر انہیں کم فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری میں قبائلی اضلاع کی آبادی 50 لاکھ ظاہر کی گئی تھی۔قبائلی عمائدین کا دعویٰ ہے کہ ضم شدہ اضلاع کی آبادی ایک کروڑ سے متجاوز ہے۔ ایسے میں اگر نئی مردم شماری کے بغیر الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو قبائلی عوام کی محرومیاں اور ان کے تحفظات اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے۔ قبائلی عمائدین کے تحفظات اس لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ قومی اسمبلی کے انتخابات پہلی بار براہ راست ہونے جا رہے ہیں۔ عمائدین نے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں سمجھتی ہیں کہ فوری الیکشن کی صورت میں انہیں سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر الیکشن مؤخر ہوتے ہیں تو وہ معیشت کوسنبھالا دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسری طرف خان صاحب نوے روز میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے بھی یہی قرار دیتے ہیں‘ اس لئے اہم یہ ہے کہ کیا حکومت انتظامی چیلنجز کو جواز بنا کر الیکشن کو مؤخر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
یہ حقائق اب طشت ازبام ہیں کہ خان صاحب کو ایک منصوبے کے تحت لایا گیا‘ اب تو لانے والوں کے نام بھی سامنے آ چکے ہیں تاہم اس عرصے کے دوران خان صاحب نے بڑی مہارت سے اپنا حلقہ بنالیا ہے‘ ناقدین اسے فین کلب کا نام دیتے رہیں یا کوئی اور نام دیں‘ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے انہیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی بنا پر خان صاحب کو یقین ہے کہ الیکشن فوری ہوں یا تین ماہ کے بعد وہ کامیابی حاصل کریں گے۔ خان صاحب کے پرستار بھی پیچھے ہٹنے کو تیا رنہیں۔ خان صاحب جو تصویر کارکنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں انہیں وہی تصویر دکھائی دیتی ہے‘ خان صاحب اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں معاشی بحران چھوڑ کر گئے ہیں‘ معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے بظاہر ان کے پاس پروگرام نہیں تھا اس کے باوجود ان کے چاہنے والے خان صاحب کی باتوں پر اندھا اعتماد کر تے ہیں۔ خان صاحب کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں اس کے کچھ مظاہر اس وقت دیکھنے کو ملے جب میڈیا پر یہ خبریں چلنا شروع ہوئیں کہ پولیس خان صاحب کو گرفتار کرنا چاہتی ہے بس یہ سننا تھا کہ خان صاحب کے چاہنے والے مرد و خواتین دیوانہ وار دوڑ پڑے اور راتوں کو جاگ کر انہوں نے اپنے تئیں خان صاحب کی حفاظت کی‘ حالانکہ جو نظیر خان صاحب پیدا کر رہے ہیں یہ قانون شکنی کے زمرے میں آتی ہے اور آئندہ جب بھی کسی سیاسی لیڈر کو عدالت طلب کرے گی تو کارکنان رکاوٹ ڈالیں گے۔ خان صاحب کی حفاظت کیلئے آنے والے پی ٹی آئی کے دو کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں‘ پی ٹی آئی نے اس کا ملبہ پنجاب پولیس پر ڈال کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی‘ تاہم سامنے آنے والے شواہد سے معلوم ہو رہا ہے کہ حقائق کو خلافِ واقعہ پیش کیا گیا۔ آئی جی پنجاب اور نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے وقوعہ کے اصل شواہد پیش کر دیئے ہیں۔تین دن کی تحقیقات میں درجنوں کیمروں سے مدد حاصل کر کے اصل ذمہ داروں کو سامنا لایا گیا ہے۔ہوا یہ تھا کہ پی ٹی آئی رہنما راجہ شکیل کی گاڑی کی ٹکر سے علی بلال جان بحق ہوا‘ مگر بڑی مہارت سے یہ ملبہ پولیس پر ڈال دیا گیا اور علی بلال کے والد کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی‘ مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ خان صاحب بلا سوچے سمجھے الزام لگاتے ہیں۔ خان صاحب کی عقیدت میں کارکنان جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے جبکہ دوسری طرف خان صاحب کا رویہ ہے جو جنازے میں شرکت کا تکلف اٹھانے کیلئے تیار نہیں ۔انہوں نے نئی روایت ڈالی ہے کہ مرحومین کے لواحقین کو اپنے پاس بلواتے ہیں‘غمزدہ لواحقین کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہیں۔ یہ مرحوم کے لواحقین کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ خان صاحب اپنے رویے کو تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر دوبارہ ان کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کیا وہ قومی اداروں کیساتھ چل پائیں گے؟