چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اب جبکہ انتخابات قریب ہیں تو خان صاحب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈدیا جائے۔ خان صاحب پچھلے ایک سال سے حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں‘ اب ان کا مطالبہ نظام انصاف ہے‘ انہیں شاید یہ لگنے لگا ہے کہ مقتدرہ سیاسی مداخلت کی پالیسی ترک کر چکی ہے اور یہ نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے بعد خان صاحب نے اپنی سٹرٹیجی تبدیل کی ہے۔ تحریک انصاف مقبولیت کا بیانیہ لے کر الیکشن میں جانا چاہتی ہے کیونکہ اس کے علاوہ خان صاحب کے پاس کوئی کارڈ نہیں جسے وہ پیش کر کے الیکشن میں جا سکیں۔ دو صوبے تو درکنار اب خان صاحب کو پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ الیکشن ملتوی کرانے والی بھی وہی قوتیں ہوتی ہیں جو الیکشن جتوانے کیلئے اثر انداز ہوتی ہیں‘ یہ بات خان صاحب سے زیادہ بہتر کون سمجھ سکتا ہے جو 2011ء میں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے اور 2018ء میں ایوانِ اقتدار میں۔ خان صاحب کو آر اوز‘ آر ٹی ایس‘ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہے کیونکہ انہی راستوں سے ہوتے ہوئے خان صاحب اقتدار کی منزل تک پہنچے تھے۔ کچھ عرصہ تک خان صاحب نے امید لگائے رکھی کہ انہیں دوبارہ برسراقتدار لانے کیلئے کوشش کی جائے گی مگر جب کوئی مثبت سگنل نہ ملا تو وہ سمجھنے لگے کہ جیسے انہیں اقتدار ملا تھا‘ ویسے ہی وہ تمام تر مقبولیت کے باجود اقتدار سے دورکر دیے گئے‘ اس لیے سیکنڈ آپشن کے طور پر انہوں نے نظامِ انصاف سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نوے روز کے اندر الیکشن کا انعقاد آئینی تقاضا ہے‘ مگر حکومتی پارٹیوں کے علاوہ کچھ اور حلقے بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں الیکشن کا انعقاد ملک کو پیچھے لے جائے گا۔ ہمیں مالی بحران سے نکلنے کیلئے فوری طور پر عالمی مالیاتی ادارے سے پروگرام کی بحالی چاہیے‘ اس کے بعد ہی دوسرے ممالک سے امداد مل سکتی ہے‘ میرا ماننا ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں تو آئی ایم ایف سے پیکیج کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ اس دوران مالی بحران کے شدت اختیار کرنے کے خدشات موجود ہیں کیونکہ الیکشن کے انعقاد سے لے کر اگلی حکومت کے قیام تک کافی وقت درکار ہو گا‘ تب تک کتنا نقصان ہو چکا ہو گا‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے معاشی حالات تقاضا کرتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے معاشی مسائل کا قلیل المدتی حل نکالا جائے تاکہ جب الیکشن کا انعقاد ہو یا اگلی حکومت قائم ہو تو وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک کو چلا سکے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 37حلقوں پر 16اور 19مارچ کو ہونے والے ضمنی الیکشن کو ملتوی کر دیا ہے کیونکہ تین صوبوں کی ہائی کورٹس نے ضمنی انتخابات کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابات سے روک دیا تھا۔ قومی اسمبلی کے حلقوں پر ضمنی انتخابات ملتوی ہونے کے پیچھے پی ٹی آئی کی درخواستیں ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی نے سپیکر کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اگر تحریک انصاف واقعی الیکشن کیلئے سنجیدہ ہوتی تو عدالت سے اسمبلی میں واپس آنے کیلئے رجوع نہ کرتی۔ مان لیتے ہیں کہ اتحادی جماعتیں الیکشن میں نہیں جانا چاہتیں مگر پی ٹی آئی میں بھی الیکشن میں جانے کی تیاری نظر نہیں آ رہی۔ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے عملے کی تربیت کیلئے بھی اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے‘ اضافی عملے کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں مگر اس بار ابھی تک ایسی سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ان عوامل کی بنیاد پر کہا جا سکتاہے کہ بظاہر انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔
دوسری طرف خان صاحب نے الیکشن سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بات کرنے پر راضی نہیں اور جن کے ساتھ خان صاحب بات کرنا چاہتے ہیں وہ خان صاحب کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔خبروں کے مطابق خان صاحب نے امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سینئر رکن بریڈ شرمین سے رابطہ کیا ہے‘ جس میں امریکی کانگریس رکن کی جانب سے ارشد شریف اور لاہور میں قتل ہونے والے پی ٹی آئی کے کارکن ظل شاہ کی اموات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیاہے۔ خان صاحب کا امریکی کانگریس رکن سے رابطہ کرنے کے بعد کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں‘ حالانکہ اس سے قبل وہ امریکی مداخلت کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں‘ خان صاحب کے قول و فعل میں اس قدر تضاد ہے کہ خود انہیں بھی معلوم نہیں کہ ان کا کون سا بیانیہ درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب اب امریکی ایما پر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں؟
خان صاحب کے خلاف فارن فنڈنگ کیس شروع ہوا تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ پارٹی فنڈنگ کی تحقیقات کیلئے تیار ہیں مگر دوسری سیاسی جماعتوں کے کیسز بھی ایک ساتھ سنے جائیں۔کئی حلقوں نے خان صاحب کے اس مطالبے کو درست قرار دیا؛ تاہم جب توشہ خانہ سکینڈل سامنے آیا اور الیکشن کمیشن میں الزامات ثابت ہو گئے تو خان صاحب نے بڑی مہارت سے یہ مطالبہ کیا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کیا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کن شخصیات نے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کیے ہیں‘ خان صاحب توقع نہیں کر رہے تھے کہ حکومت توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرے گی مگر حکومت نے گزشتہ بیس برسوں کا ریکارڈ جاری کر دیا ہے۔ بظاہر خان صاحب کے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں بچا‘ کیا خان صاحب اب توشہ خانہ کے حقائق قوم کے سامنے پیش کریں گے؟
آج منگل کو الیکشن کمیشن کے تین اجلاس اہمیت کے حامل ہیں‘ پہلا اجلاس پنجاب کی نگران حکومت کے ساتھ جبکہ دوسرا اجلاس گورنر خیبرپختونخوا کے ساتھ طے ہے۔ تیسرا اجلاس وزارتِ دفاع اور ڈی جی ملٹری آپریشنز کے ساتھ متوقع ہے‘ اگر وزارتِ دفاع اور ڈی جی ملٹری آپریشنز کی طرف سے سکیورٹی فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے یا کوئی ایسا جواز پیش کیا جاتا ہے جس کا تعلق سکیورٹی حالات کی سنگینی سے ہو تو الیکشن کا انعقاد مشکل میں پڑ جائے گا۔ حکومتی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) یہ مؤقف اپنا رہی ہے کہ نامساعد معاشی حالات میں حکومت سنبھال کر انہوں نے سیاسی قیمت چکائی‘ اس لیے وہ گارنٹی چاہتی ہے کہ جس طرح کا تعاون تحریک انصاف کو میسر تھا‘ ویسا ہی تعاون انہیں بھی میسر ہوگا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو گارنٹی دے گئی ہے۔ خان صاحب کی صورتحال یہ ہے کہ جس طرح حکومت ملنے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ٹیم اچھی نہیں ملی‘ویسے ہی آنے والے دنوں خان صاحب شاید یہ کہتے سنائی دیں کہ انتخابی میدان ان کی مرضی کا نہیں تھا۔