ملک کی سیاسی صورتحال اگرچہ الیکشن کے لیے سازگار نہیں لیکن الیکشن میں زیادہ تاخیر بھی نہیں کی جا سکتی‘اس لیے اکتوبر میں انتخابات کے قوی امکانات ہیں۔ پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن میں جانے سے اُن ووٹرز کی حق تلفی ہوگی جو اس جماعت کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن سے پہلے مذاکرات بہت ضروری ہیں۔ مذاکرات کیسے اور کس کے ساتھ ہوں‘ اس گتھی کو سلجھانا اہلِ سیاست کی ذمہ داری ہے۔ نو مئی کے واقعات کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر رکھنے کی سوچ کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اتحادی جماعتوں کے اس عمل سے ایک غلط روایت قائم ہو گی۔ اتحادی جماعتوں کو چاہیے کہ نو مئی کے واقعات سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کے بجائے معاملات کو عدلیہ پر چھوڑ دیا جائے۔
موجودہ حالات میں مذاکرات کی اہمیت و ضرورت چند وجوہ کی بنا پر مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان حراست میں ہیں مگر صفِ اول کے رہنما پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرکے نئی پارٹی بنا چکے ہیں۔ مراد راس کی قیادت میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کا ''ڈیموکریٹس‘‘ کے نام سے ایک گروپ سامنے آ چکا ہے۔ جہانگیر ترین کا گروپ الگ ہے۔ سو کے قریب الیکٹ ایبلز کو الیکشن میں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی بھی جماعت سے الیکشن میں حصہ لینے کی جب اجازت دی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی چھوڑنے سے ان کے سارے قصور معاف ہو رہے ہیں تو پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں جامع مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے؟
مذاکرات کی بیل اس وجہ سے بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی کیونکہ مذاکرات کے پہلے دور میں فریقین کی اعلیٰ قیادت شامل نہ تھی‘ اعتماد سازی کا فقدان تھا‘ ایسی صورتحال میں ضروری ہوتا ہے کہ کوئی شخصیت پُل کا کردار ادا کرے لیکن مذاکرات کے پہلے دور میں اس کا تکلف نہیں کیا گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی مذاکرات کے لیے موزوں شخصیت تھے مگر مذاکرات میں انہیں شامل نہیں کیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ گزشتہ دنوں چوہدری پرویز الٰہی سے ہماری فون پر بات ہوئی تو انہوں نے پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ مذاکرات اور مفاہمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو اسمبلیاں نہ توڑنے کا مشورہ دیا تھا مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے دیرینہ ساتھیوں کی نسبت ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں‘ اگر سات سو ایف آئی آر بھی درج ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔بقول ان کے انہیں موقع ملا تو وہ پارٹی چیئرمین اور مقتدرہ کو ملانے میں پُل کا کردار ادا کریں گے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے بغیر الیکشن میں گئے تو نتائج نہیں ملیں گے۔
اہلِ سیاست مذاکرات سے اس لیے گریزاں ہیں کیونکہ اس وقت ایک ہی پارٹی ہے مذاکرات کے لیے اور وہ ہے حکومت۔ دوسری پارٹی کے پاس اس وقت آفر کرنے کے لیے کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اکتوبر میں الیکشن کے لیے راضی ہے۔ مگر اس کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہی کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے تو اپنے ساتھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مخالفیں اسے rescue کریں پھر یہ کہ چیئرمین پی ٹی آئی پہ اعتبار کون کر سکتا ہے؟ مذاکرات میں کچھ اور معاملات طے ہوں اور عوام کو کچھ اور بتائے جائیں‘ اُس پہ کون اعتبار کر سکتا ہے جس کے اپنے سب ساتھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ وقت مذاکرات کا نہیں کیونکہ اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس آفر کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں‘ سوائے اس کے کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں الیکشن کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ حکومتی اتحاد بعد از بجٹ کسی وقت بھی الیکشن کے لیے رختِ سفر باندھ لے گا۔ ایک نگران حکومت‘ جو اتحادیوں کے نمائندگان پہ مشتمل ہو گی‘ تشکیل پائے گی۔ امکان یہی ہے لیکن الیکشن وقت پہ ہوں گے یا نہیں‘ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔ حکومت بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر رخصتی کا ارادہ رکھتی ہے‘ پی ٹی آئی کو الیکشن میں اجازت ملی بھی تو کھل کر حصہ نہیں لے سکے گی‘ اس کے اہم ورکرز جیل میں ہوں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی جیل نہ بھی گئے اور نااہل نہ بھی ہوئے تب بھی ممکن نہیں کہ وہ جلسے جلوس کر سکیں گے کیونکہ اب جلسوں کا انتظام کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو مناسب تعداد میں ٹکٹ ہولڈرز نہ مل سکیں۔ کہا جارہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی 2010ء والی پوزیشن پہ واپس چلے جائیں گے۔ جتنے بندے پی ٹی آئی میں لائے گئے تھے وہ تو واپس جائیں گے ہی باقی روپوش ہوں گے یا جیل میں ہوں گے یا تاریخیں بھگت رہے ہوں گے۔ اب بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پوری طرح سمجھ نہیں آئی کہ نومئی کے بعد تاریخ بدل گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ بینک ہے تاہم پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو مسلم لیگ (ن) قبول کرنے کے لیے فی الحال تیار نہیں۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی سابق رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے لیے رابطہ کیا مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ آصف زرداری بھی شمولیتی لہر کے گزرنے کے منتظر ہیں اس کے بعد سیاسی حکمت عملی دیں گے۔ اتحادی جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے قوی امکانات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) شاید بجٹ پیش کرنے سے پہلے اپنی سیاسی حکمت عملی واضح نہیں کرنا چاہتی ہے۔ شہبازشریف اور میاں نواز شریف کی سٹریٹیجی کیا ہے؟ اگر الیکشن سے پہلے نواز شریف کی واپسی ہوتی ہے تو انتخابی مہم کا نقشہ بدل جائے گا۔ مریم نواز نے اگرچہ ورکرز کنونشن اور کامیاب جلسوں کا انعقاد کیا ہے‘ تاہم مسلم لیگ (ن) میں ووٹ بینک نواز شریف کا ہے۔ پی ٹی آئی کے ناکام تجربے کے بعد کاروباری طبقہ اور تاجر برادری نواز شریف کے معاشی ویژن کے معترف ہو چکے ہیں۔ 2017ء سے پہلے ملکی معیشت اور 2018ء سے 2023ء تک کی معیشت کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ 2017ء میں ملک جس رفتار سے ترقی کر رہا تھا اگر اسی رفتار سے یہ سفر جاری رہتا تو ہم آج خود کفیل ہوتے مگر تبدیلی کے نام پر ترقی کے اس سفر کو روک دیا گیا۔ جس طرح ہم چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر رکھنے کے حامی نہیں ہیں اسی طرح نواز شریف کو بھی الیکشن سے باہر رکھنے کی سوچ کی مخالفت کرنا ہو گی۔ آج پی ٹی آئی مقدمات پر جو واویلا مچا رہی ہے‘ وہ مسلم لیگ (ن) کے درد کو بھی سمجھے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پابندِسلاسل کرکے خود ایسا کر چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جتنی آج قابلِ مذمت ہے اتنی ہی پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قابلِ مذمت ہونی چاہیے۔ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ وہ مارچ 2022ء سے پہلے والی پوزیشن پر آجائیں مگر دوسری سیاسی قیادت کو ایسی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے یہی دہرا معیار ہے جب تک وہ دہرے معیار سے باہر نکل کر نہیں سوچیں گے کوئی تبدیلی آئے گی نہ ہی مذاکرات سود مند ثابت ہوں گے۔