"RS" (space) message & send to 7575

مقتدرہ سے مذاکرات کی خواہش

نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف بطور پارٹی تنکوں کی طرح بکھر گئی ۔ پارٹی کے سو سے زائد سرکردہ رہنما نئی پارٹی بنا کر اپنی الگ شناخت کے ساتھ موجود ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ بڑا نقصان ہوتا ہے‘ اس طرح کے حالات قیادت کو سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں‘ غلطیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے‘ معاملات پر سمجھوتہ کر کے حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اب بھی جمہوری قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ۔ وہ مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی آج بھی 2013ء اور 2018ء کی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی موجودہ تبدیل شدہ صورتحال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم 2028ء تک حکومت کریں گے کیونکہ منصوبہ یہ تھا کہ 2018ء کی طرح اگلے الیکشن میں بھی دھاندلی کرکے مرضی کے نتائج حاصل کریں گے۔ دو تہائی اکثریت اور آئین میں ترمیم کرکے صدارتی نظام کے نفاذ کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین اپنے طور پر یہ منصوبہ بنا چکے تھے مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ سیاسی میدان میں ان کے علاوہ بھی پرانے کھلاڑی موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ لٹانے کے بعد بھی چیئرمین پی ٹی آئی جمہوری قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں جمہوری شخصیات کے ساتھ جو زیادتیاں کی تھیں وہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 12اگست 2019ء کو سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ کو ہسپتال سے گرفتار کیا گیا۔ سیاسی خاندان کو تکلیف دینے کے سوا اس گرفتاری کا مقصد کیا تھا؟ محترمہ کلثوم نواز کی بیماری پر ٹھٹھے لگائے گئے اور بیماری کو بہانے سے تعبیر کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی بیماری پر کیا کیا باتیں نہیں کی گئیں۔ باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کیا گیا حالانکہ مریم نواز تو اس وقت سیاسی طور پر متحرک نہیں تھیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کی حمایت میں کھڑی ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین پر کیچڑ اچھالنا پی ٹی آئی ورکرز کا پسندیدہ مشغلہ تھا جس پر وہ اب بھی قائم ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے طاقت کے نشے میں سیاسی مخالفین کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جو تاریخ کا باب ہے۔ اب صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی جمہوری شخصیات کیساتھ کی جانی والی زیادتیوں پر معافی مانگیں‘ لیکن کیا وہ ایسا کریں گے؟ ہرگز نہیں! کیونکہ اگر وہ حریفوں سے معافی مانگتے ہیں تو ان کا پورا بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔ اگر سیاسی مصلحت کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی حریف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملتے بھی ہیں تو ان کا ورکر اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ پی ٹی آئی ورکرز کی جن خطوط پر تربیت کی گئی ہے وہ پی ٹی آئی کیلئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی ورکرز کے ہاتھ بہت سے گریبانوں تک جائیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس آپشنز محدود ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب تک ان کی سیاسی حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔ اب بھی ان کی آخری امید مقتدرہ ہے مگر وہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں کہ فی الوقت پی ٹی آئی کے آگے آنے کے امکانات نہیں ہیں۔ استحکامِ پاکستان پارٹی جیتے یا ہارے‘ اس کا سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہونا ہے۔ پی ڈی ایم کو فائدہ یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ٹوٹ گیا ہے۔ مستقبل میں پی ٹی آئی تھرڈ آپشن کے طور پر موجود رہے گی تاکہ جب پی ڈی ایم کے ساتھ معاملات خراب ہوں تو اسے دوبارہ موقع دیا جا سکے لیکن یہ واضح ہے کہ اگلے دو تین برس تک پی ٹی آئی مقتدر حلقوں کی ترجیح نہیں ہو گی‘ لہٰذا چیئرمین پی ٹی آئی کو انہی جمہوری قوتوں کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے۔
دوسری طرف بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اتحادی حکومت کے لیے آئی ایم ایف پیکیج کی بحالی کے بغیر بجٹ پیش کرنا ایک چیلنج تھا مگر ایک متوازن بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ اب اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کی نظریں انتخابات پر ہیں۔ پی ڈی ایم کا مشترکہ لائحہ عمل تو سامنے نہیں آ سکا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گا یا ہر جماعت اپنے ایجنڈے اور نشان پر الیکشن میں حصہ لے گی تاہم ہر جماعت نے انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی لاہور میں ملاقاتیں‘ مریم نواز کے جلسے اور جہانگیر ترین کی لندن یاترا سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اب کسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے الیکشن سے پہلے میاں نواز شریف کی واپسی ضروری ہے اور اس کے راستے نکل رہے ہیں۔ پاناما پیپرز میں شامل 436افراد کے خلاف تحقیقات کے لیے جماعت اسلامی کی درخواست پر سماعت پر سپریم کورٹ نے سوالات اٹھائے ہیں کہ عدالت نے 2016ء میں باقی پاکستانیوں کا معاملہ الگ کرکے پاناما لیکس پر صرف ایک فیملی کے خلاف کارروائی کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ24سماعتوں کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا کیس الگ کرایا۔ کیا اس وقت آپ کا مقصد ایک ہی خاندان کے خلاف کیس چلانا تھا؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں‘ دیکھنا یہ ہوتا ہے وہ کمپنی بنائی کیسے گئی۔436 بندوں کے خلاف ایسے آرڈر جاری کر دینا انصاف کے خلاف ہوگا۔ عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج نے پاناما پیپرز اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے جو ریمارکس دیے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) اور قانونی ماہرین کی اکثریت نے روزِ اول سے یہی مؤقف اپنایا تھا چونکہ پاناما پیپرز ایک کمزور کیس تھا اور مقصد نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنا تھا‘ اس لیے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں ''کیپٹل ایف زیڈ ای‘‘ کمپنی سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے۔ وہ تنخواہ‘ جو نواز شریف نے کبھی وصول ہی نہیں کی تھی‘ اسے بنیاد بنا کر فیصلہ سنایا گیا کہ وہ صادق و امین نہیں رہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے پانچ رکنی بینچ نے جولائی 2017ء کو نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا۔
آج چھ برس بعد اسی سپریم کورٹ کے معزز جج پاناما لیکس میں ایک فیملی کے خلاف کارروائی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے کب ریلیف ملتا ہے اور اس راستے میں کیا قانونی پیچیدگیاں حائل ہیں‘ ہمیں معلوم نہیں تاہم سپریم کورٹ کے نواز شریف کو دی جانے والی سزا پر سوالات اٹھانے سے وہ اخلاقی طور پر سرخرو ہو چکی ہے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جب نواز شریف عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد عوام کے پاس جائیں گے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو انتخابی مہم کا حصہ بنائیں گے تو مسلم لیگ (ن) کو اس کا کتنا سیاسی فائدہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں