"RS" (space) message & send to 7575

الوداعی ملاقاتیں اور شدت پسندی کے خطرات

وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتہ کی صبح ناشتے پر چند سینئر صحافیوں کو مدعو کر رکھا تھا‘ ہم بھی وہاں موجود تھے‘ صحافیوں سے الوداعی ملاقات میں وزیراعظم نے غیر رسمی اور بے تکلفانہ گفتگو میں جہاں 16ماہ کی اتحادی حکومت کو درپیش مشکلات اور اہداف کے حصول میں ناکامی پر اعتراف کیا‘ وہیں آنے والے دور کا خاکہ بھی پیش کیا۔ وزیراعظم نے اس بات کا اظہار کیا کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میاں نواز شریف ہی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ وزیر اعظم کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ نگران وزیراعظم کے تقرر میں اتحادیوں میں اختلافِ رائے موجود تھا مگر اسے خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے۔ چھوٹے صوبے سے نگران وزیراعظم کا انتخاب مثبت فیصلہ ہے۔ دو گھنٹوں سے زائد اس نشست میں شہباز شریف نے بحیثیت مجموعی تمام دوست ممالک کا تذکرہ کیا لیکن سوائے چین کے کسی کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ہر موقع پر پاکستان کی معاشی و سفارتی مدد کی۔انہوں نے چین کے Global Development Initiative کا بالخصوص ذکر کیا اور کہا کہ اس پلیٹ فارم سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
حکومت کی رخصتی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب دہشت گردی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ان حالات میں معاشی بحالی کے پروگرام جاری رکھنا اور انتخابات کا پُرامن انعقاد کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔ شاید انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے آرمی چیف نے قبائلی عمائدین سے ملاقات میں شدت پسندوں کو دوٹوک پیغام دیا۔ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے؟ یہ سوال آرمی چیف نے افغان حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے چند روز قبل پشاور میں قبائلی عمائدین کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کیا تھا۔آرمی چیف نے جہاں قبائلی اضلاع کے عوام کی قربانیوں کو سراہا اور ضم ہونے والے اضلاع میں 81 ارب روپے کی لاگت سے ترقیاتی منصوبوں کی نوید سنائی وہیں بیرونی جتھوں کیلئے سخت پیغام بھی دیا۔ یہ پہلی بار ہے کہ سخت لہجے میں اعلیٰ سطح پر افغان مہاجرین کو پاکستانی قوانین کی پاسداری کی ہدایت کی گئی ۔آرمی چیف کے اس بیان میں شدت پسند عناصر سے نمٹنے کی پالیسی موجود ہے کہ دہشتگردوں کے پاس ریاست کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ تاہم انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر دہشتگردی کے مسئلے پر مذاکرات ہوئے تو وہ کسی جتھے کی بجائے پاکستان اور افغانستان کی عبوری حکومت کے درمیان ہوں گے۔آر می چیف کے بیان سے واضح ہے کہ شدت پسند عناصر کے خلاف ریاست ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتی ۔ یوں لگتا ہے دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہو چکا ہے بس مناسب وقت کا انتظار ہے۔ سیاسی عدم استحکام کسی قدر کم ہو چکا ہے‘ انتخابات کا انعقاد اور نئی حکومت کے قیام کا چیلنج باقی ہے‘ ریاستی ادارے نہیں چاہتے کہ اقتدار کی منتقلی سے پہلے کوئی نیا محاذ کھولا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان سرحد سے دہشتگردی کے خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد اگرچہ طالبان قیادت نے برملا کہا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشتگردی کیلئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ دعوے محض اعلانات کی حد تک محدود رہے۔ افغانستان اب بھی دہشتگرد گروہوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ داعش جیسے مسلح گروہ طالبان کیلئے بھی چیلنج ہیں‘ افغانستان کی سرزمین داعش کے حملوں سے محفوظ نہیں تو وہ ہمیں کیسے تحفظ دیں گے؟ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں تربیت گاہیں کوئی راز کی بات نہیں‘ افغان طالبان کیلئے شمالی اتحاد گروپ الگ سے مسئلہ ہے ‘اس اعتبار سے دیکھا جائے تو افغان طالبان کیلئے یہ آسان نہیں کہ دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کے مطالبات پر پورا اُتر سکیں‘ لیکن دہشتگردی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کا عدم تعاون اور حالیہ رویہ مایوس کن ہے۔ باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکر کنونشن میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں بڑا جانی نقصان ہوا تو افغان طالبان نے فوری اس حملے کی مذمت کی‘ شہدا اور زخمیوں کیلئے دعائیہ کلمات کہے۔ ایک برادر اسلامی ملک کو ایسے ہی دکھ کا اظہار کرنا چاہئے۔ باجوڑ کے ناخوشگوار واقعے کے چند روز بعد افغان وزیر خارجہ ملا محمد یعقوب مجاہد نے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان سے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے باہر لڑائی مذہبی طور پر منظور شدہ جہاد نہیں‘ بلکہ جنگ ہے‘ جسے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے روک دیا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے طالبان کے سپریم لیڈر کے اس حکم نامے کی تحسین کی گئی اور امید ظاہر کی گئی کہ افغان سرزمین میں جو گروہ نادانستہ طور پر دہشت گردی کی کسی قسم کی کارروائیوں میں ملوث تھے اس حکم نامے کے بعد وہ بازآ جائیں گے کیونکہ امیر کے فرمان کی اطاعت سب پر لازم ہوتی ہے۔ سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے حکم نامے میں پاکستان پر حملے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کی خواہش پر افغانستان کے سپریم لیڈر نے یہ فتویٰ جاری کیا اور باقاعدہ افغان دارالافتاسے جاری ہوا‘ جس میں سخت ترین الفاظ استعمال کئے گئے کہ افغانستان سے جانے والے عسکریت پسند اگر پاکستان میں مارے گئے تو وہ شہید نہیں کہلائیں گے۔ پہلے مرحلے میں مختصر فتویٰ جاری کیا گیا جبکہ پچھلے جمعہ کو ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے جمعہ میں تفصیلی خطاب کے دوران فتویٰ جاری کیا اور عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث گروہوں سے سماجی بائیکاٹ کا فرمان جاری کیا گیا۔ افغان حکومت کے قیام میں سماجی بائیکاٹ کا مطالبہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا کیونکہ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب امیر نے کوئی حکم جاری کیا تو اس کی تعمیل ہوئی‘ حالیہ حکم نامے اور فتویٰ کے بعد بھی امید تھی کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی لیکن جونہی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور میں قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ افغان قیادت پاکستان کے احسانات پر شکریہ ادا کرتی کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو ہر مشکل میں افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا مگر اس کے برعکس افغان قیادت نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے فتویٰ پر پانی پھیر دیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ردعمل میں کہا کہ پاکستان کو اپنی سرحدوں کے اندر ایسے مسائل کا حل یا جواب تلاش کرنا چاہیے اور یہ کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں۔ افغان طالبان قیادت کے لہجے اور رویے میں سخت گیری پائی جاتی ہے۔ وہ سفارتی آداب کا خیال رکھنے کی بجائے فوری ردعمل اور جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔آرمی چیف نے ان عسکری جتھوں کو سخت پیغام دیا تھا جو دراصل افغانستان کیلئے بھی خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں‘ اگر افغان طالبان کا ان مسلح جتھوں سے کوئی تعلق نہیں تو انہیں اس قدر سخت ردعمل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہئے کہ پاکستان اور افغانستان کو سکیورٹی و معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ‘افغانستان کے معاشی مسائل ہم سے بھی زیادہ ہیں‘ اس لئے ایک دوسرے سے گلے شکوے کی بجائے باہمی تعاون سے دہشت گردی کے چیلنجز پر قابو پانا ہو گا۔ مشترکہ کوششوں سے ان منصوبوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے جو دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ افغانستان کو تعمیرِ نو کیلئے بڑے پیمانے پر سرمائے کی ضرورت ہے‘ یہ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ افغان حکام کو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین جیسے پڑوسی ممالک سے تعلقات کو مضبوط کرنا ہو گا۔ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا ہو گا کیونکہ سی پیک پورے خطے کے سنہرے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس عظیم منصوبے سے اسی صورت مستفید ہوا جا سکتا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان مثالی تعلقات ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں