وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی اگرچہ پارٹی مجبوریاں ہیں‘ مشکل حالات میں وہ پارٹی کی واحد امید ہیں جو اہم کلیدی عہدے پر فائز ہیں‘ تاہم توازن کو قائم رکھنا ہی دانشمندی کہلائے گا۔ بلاوجہ کی محاذ آرائی فائدے کے بجائے پارٹی کے لیے مشکلات پیداکرے گی‘ سو وزیر اعلیٰ کو اپنے منصب کی پاسداری کرتے ہوئے لچک اور نرمی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے عدم تعاون کے برعکس گورنر فیصل کریم خان کا طرزِ عمل مثبت ہے۔ وہ سیاسی کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے مل کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔وہ آصف زرداری کے سیاسی وژن کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ فیصل کریم خان کنڈی پیپلزپارٹی کے دیرینہ رہنما ہیں‘ جو خود کو پارٹی کا ادنیٰ کارکن کہلانا پسند کرتے ہیں۔ جب وہ لندن میں تھے تو شہید بے نظیر بھٹو سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر کے مابین دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے وہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے صوبے کے مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ صوبے کے بجٹ کی منظوری میں وہ کسی قسم کی رکاوٹ حائل نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدرِ مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کر کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں مدعو کیا۔ گورنر نے کہا کہ اگرچہ ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں لیکن وہ حتی الامکان کوشش کریں گے کہ سیاسی کشیدگی کو کم کیا جائے اور سیاسی مجبوریاں صوبے کے معاملات میں حائل نہ ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سخت رویے کا جواب نرمی سے دیں گے اور سیاسی مخالفت کے باوجود گورنر ہائوس میں وزیر اعلیٰ کا استقبال کیا جائے گا۔ گورنر کے پی نے وزیر اعلیٰ کو پیشکش کی ہے کہ صوبائی معاملات کو خوش اسلوبی سے مشترکہ طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے‘ کیا وزیراعلیٰ بھی ایسی ہی فراخدلی کا مظاہرہ کر پائیں گے؟
اقتدار کی کرسی کو ''کانٹوں کی سیج‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی کہاوت نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے‘ جو اقتدار کی پیچیدگیوں اور اس کے ساتھ وابستہ مشکلات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ظاہری شان و شوکت کے پردے کے پیچھے‘ مسندِ اقتدار ایک ایسا میدان ہے جہاں ہر قدم پر رہنما کو نئے چیلنجوں اور نئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آسائشیں کم اور ذمہ داریوں کا پہاڑ زیادہ ہوتا ہے۔ قیادت ایک ایسی ذمہ داری ہے جو کسی بھی فرد کے ذہنی حوصلے کو مسلسل آزمائش میں رکھتی ہے کیونکہ لیڈر کو نہ صرف مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں بلکہ اپنے فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قیادت کی اعصابی مضبوطی ہی اسے کامیابی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اعصابی مضبوطی کا مطلب یہ نہیں کہ رہنما مشکل حالات میں نہ گھبرانے کا تاثر دے۔ تحمل‘ حکمتِ عملی اور دور اندیشی بھی اعصابی مضبوطی میں شامل ہے‘ جو حالات کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اعصابی طور پر مضبوط رہنما وہ ہوتا ہے جو حالات کا بغور جائزہ لے‘ مختلف پہلوئوں پر غور کرے اور پھر ایک ایسا فیصلہ کرے جو حکمت و بصیرت کی تصویر ہو۔ اعصابی مضبوطی ناکامیوں سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ لیڈر تنقید کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتا‘ کیونکہ رہنمائی کا سفر ہمیشہ گل افشانی سے نہیں گزرتا‘ اس میں تنقید اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک مضبوط رہنما اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو منفی انداز سے لینے کے بجائے اپنی اصلاح اور بہتری کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر تنقید میں کوئی نہ کوئی سچائی ضرور ہوتی ہے اور اس سچائی کو سمجھ کر ہی وہ ایک بہتر رہنما بن سکتا ہے۔
قوموں کی تاریخ میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے‘ یہ مسلسل تغیر پذیر رہتے ہیں اور نئے نئے چیلنجز سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہی رہنما کامیاب کہلاتا ہے جو نرمی اور لچک کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر سکے۔ ایک ایسا رہنما ہی ان چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے جس کے پاس محض ایک ہی حکمت عملی نہ ہو بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے نظریات اور حکمت عملی میں وہ تبدیلی بھی لا سکے۔ ایک لچکدار رہنما جانتا ہے کہ دنیا ایک متحرک جگہ ہے اور جو آج صحیح ہے ممکن ہے کل کو وہ غلط قرار پائے۔ وہ اپنے مؤقف پر بے جا ضد نہیں کرتا بلکہ نئے حقائق کی روشنی میں اپنے فیصلوں پر نظرِثانی کی گنجائش رکھتا ہے۔ یہ لچک اسے نئے امکانات کو دیکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ قومی مفاد ایک لچکدار رہنما کا سرچشمہ ہے۔ وہ ہر فیصلے اور ہر تبدیلی کواس بات سے پرکھتا ہے کہ کیایہ ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ وہ عوام کی آواز سنتا اور ان کے مسائل کو سمجھتا ہے اور ان کے فائدے کے لیے اپنی حکمت عملی میں لچک کا مظاہرہ کرنے سے جھجکتا نہیں۔ یہ لچک ہی اسے ایک عوامی رہنما بناتی ہے جو عوام کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کی قیادت لچکدار رہنمائوں کے پاس ہوتی ہے۔ ایسے رہنما ہی خود کو حالات کے مطابق ڈھال کر نئے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ سخت گیر رویہ مسائل کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے اسے مزید الجھا دیتا ہے۔ یہ فریقین کے درمیان فاصلے بڑھا دیتا اور بات چیت کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں مسائل کا حل ممکن نہیں رہتا بلکہ وہ ایک آتش فشاں کی طرح سلگتے رہتے ہیں اور کسی بھی وقت پھٹنے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔ تاریخ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سخت گیر رویے نے کبھی بھی کسی مسئلے کا دائمی حل نہیں نکالا۔ ہر دور میں فریقین نے بات چیت اور لچک کے ذریعے ہی مسائل کو سلجھایا ہے۔ سرد جنگ کے اختتام کو لے لیں‘ یہ دو بڑی طاقتوں کے سخت گیر رویے کا نتیجہ تھا لیکن جب بات چیت کا راستہ اختیار کیا گیا تو دنیا کو اس خوفناک کشیدگی سے نجات ملی۔ اس کے برعکس سخت گیر رویے میں کسی بھی قسم کی لچک کی گنجائش نہیں ہوتی‘ اس میں صرف اپنی بات منوانے پر زور دیا جاتا ہے اور دوسرے فریق کی دلیل یا تجاویز کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ ظاہری طور پر طاقت کا مظاہرہ تو ضرور کرتا ہے لیکن حقیقت میں مسائل کو مزید الجھا دیتا ہے۔ سخت رویہ اختیار کرنے والے بالعموم اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھاتے ۔ اس رویے سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے‘ عوام میں بھی واہ واہ ہو جاتی ہے‘ لیکن طویل عرصے میں یہ رویہ مسائل کو الجھا دیتا ہے کیونکہ جب دونوں طرف سے سخت رویہ اپنایا جاتا ہے تو بات چیت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور مسئلہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ یہ رویہ سیاسی میدان میں رسہ کشی کا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں کوئی بھی فریق جیت نہیں سکتا اور دونوں ہی کمزور پڑ جاتے ہیں۔
سیاسی بصیرت کا تقاضا ہے کہ مسائل کو سلجھانے کے لیے لچک اور مصالحت کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں مل کر کام کریں گے تو صوبے کے دیرینہ مطالبات اور تحفظات کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ بالخصوص وفاق سے بقایا جات اور فنڈز کے حصول میں گورنر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گورنر کے ساتھ مخاصمتی رویہ اپنانے کے بجائے وزیراعلیٰ کو صوبے کے عوام کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئے۔ جب فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ وہ گورنر کی حیثیت سے صوبے کا مقدمہ وفاق میں لڑیں گے تو ان سے خوف محسوس کرنے کے بجائے انہیں اپنا اور عوام کا خیرخواہ سمجھنا چاہئے۔