پاکستان تحریک انصاف 22 اگست کو شہرِ اقتدار میں جلسے کا اعلان کر چکی ہے مگر انتظامیہ نے تاحال جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ پی ٹی آئی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اسلام آباد میں جلسہ کرنا چاہتی ہے‘ انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے بعد پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو انتظامیہ نے چار جولائی کو اجازت نامہ جاری کیا جس کے مطابق پی ٹی آئی چھ جولائی کو ترنول کے مقام پر جلسہ کر سکتی تھی۔تب محرم الحرام کی آمد آمد تھی‘امن و امان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ نے پانچ جولائی کو جلسے کا این او سی معطل کر دیا‘ حالانکہ پی ٹی آئی خود چھ جولائی کو جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔جب انتظامیہ نے این او سی منسوخ کیا تو اسے عدالت سے رجوع کرنے کا جواز مل گیا۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جلسہ کرنا ان کا جمہوری حق ہے مگر انہیں اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ عدالتی احکام نہ ماننے پر پی ٹی آئی نے توہینِ عدالت کی درخواست بھی دائر کر دی۔ 15جولائی کو جب ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت نے ریمارکس دیے کہ جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا آئینی حق ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے فریقین کو بیٹھ کر معاملے کا حل نکالنے کی ہدایت بھی کی۔ 31جولائی کو کیس کی سماعت میں عدالت نے ایک بار پھر فریقین کو مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کل تک دونوں فریق بیٹھ کر جلسے سے متعلق معاملات طے کرکے آگاہ کریں۔ پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ اگست میں جلسہ ہو‘ اس مقصد کیلئے عدالت سے ایک بار پھر رجوع کر کے جلسے کی جگہ تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی کہ ایف 9 پارک یا پریڈ گراؤنڈ میں سے کوئی جگہ دے دی جائے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف 9 پارک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ آخر پارکس کا قصور کیا ہے‘ اسلام آباد میں ایک ہی تو پارک رہ گیا ہے۔ عدالت نے انتظامیہ کی جانب سے ترنول کے مقام پر 22 اگست کو جلسے کی اجازت دینے کی یقین دہانی کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست نمٹا دی مگر تادم تحریر پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہیں مل سکی ۔ اگر اگلے ایک دو روز میں جلسے کی اجازت مل بھی جاتی ہے تو مختصر وقت میں پی ٹی آئی کیلئے جلسے کی تیاریاں اور کارکنوں کو جمع کر کے کامیاب جلسہ کرنا مشکل ہو گا۔ شاید انتظامیہ یہی چاہتی ہے کہ جلسہ تو ہو مگر کامیاب نہ ہو۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ پی ٹی آئی خان صاحب کی گرفتاری کے بعد بڑا جلسہ کیوں نہ کر سکی؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں لوگ خان صاحب کو دیکھنے اور سننے کیلئے آتے تھے‘ جب وہ جیل میں چلے گئے تو کارکنوں کی اکثریت پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کرنے سے گریز کرنے لگی۔ ایسی صورتحال میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت ہی کارکنوں کو حوصلہ دیتی ہے اور رہنما اپنے اپنے علاقوں سے کارکنوں کو جلسوں میں شرکت پر آمادہ کرتے ہیں مگر یہاں بھی پی ٹی آئی کو دھچکا لگا کیونکہ 9 مئی کے بعد پارٹی بکھر گئی اور سرکردہ رہنما پارٹی کو چھوڑ کر نئی پارٹی کا حصہ بن گئے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کو اگرچہ عام انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی لیکن پی ٹی آئی کو اس کا نقصان یہ ہوا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے چہرے‘ جو کارکنوں کو پارٹی کاز کیلئے کال دے سکتے تھے اور کارکن ان کے کہنے پر چلے آتے تھے‘ وہ نہ رہے تو پارٹی کیلئے جلسہ کرنا مشکل ہو گیا۔ پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والی بعض شخصیات جلسوں کو کامیاب بنانے کیلئے پانی کی طرح پیسہ بہاتی تھیں۔ خان صاحب جلسے کے تمام انتظامات سے بے خبر ہوتے تھے اور جلسے میں تقریر سے چند منٹ پہلے ہی حاضر ہوتے تھے۔ جب یہ شخصیات پارٹی سے علیحدہ ہوئیں تو ساری بہاریں بھی ختم ہو گئیں۔ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تو برقرار رہا مگر پُرجوش کارکنوں کا سلسلہ برقرار نہ رہ سکا۔ اب پی ٹی آئی کی جو نئی قیادت ہے‘ زیادہ تر کارکن ان سے واقف نہیں ‘ نہ ہی ان کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ یا شخصی ووٹ بینک ہے‘ سو ایسے لوگ کارکنوں کو گھروں سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ سب سے اہم یہ ہے کہ پی ٹی آئی جلسوں میں اُلجھ کر کیوں رہ گئی ہے؟ خان صاحب کی سیاسی جدوجہد احتجاجوں سے عبارت ہے حتیٰ کہ طویل ترین احتجاج کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہے۔ الیکشن سے پہلے دو صوبوں کی حکومتیں گنوانے کے بعد خیال تھا کہ اب پی ٹی آئی ایوان کے اندر مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرے گی اور خیبرپختونخوا میں پہلے دو ادوار میں جو حاصل نہ ہو سکا موجودہ حکومت اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی خیبرپختونخوا حکومت جس ڈگر پر چل رہی تھی موجودہ صوبائی حکومت بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی حکومت پارٹی کی احتجاجی تحریک میں ہراول دستہ کے طور پر شامل تھی‘ اس وقت کی صوبائی حکومت کی توجہ عوام کے مسائل کو حل کرنے سے زیادہ پارٹی کے احتجاج کو کامیاب بنانے پر مرکوز تھی۔ آج علی امین گنڈا پور کی حکومت بھی پارٹی کے احتجاج میں پیش پیش ہے۔ گورننس پر توجہ دینے سے زیادہ پارٹی کے امور قابلِ ترجیح ہیں۔
پی ٹی آئی قیادت شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پارٹی معاملات اور حکومتی امور الگ الگ ہیں۔ 2018ء میں جب وفاق اور صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تب بھی یہی غلطی کی گئی‘ خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی پارٹی معاملات چلا رہے تھے‘ بعد میں معلوم ہوا کہ آئینی قدغن ہے‘ پارٹی کو چلانے کیلئے علیحدہ سے لوگ ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی نے دوسری غلطی یہ کی کہ پارٹی کے سرکردہ لوگ حکومت کا حصہ بن گئے اور پارٹی کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا۔ سیف اللہ خان نیازی کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا لیکن پارٹی میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوتا گیا‘ یہ سلسلہ اب تک برقرار ہے۔ حکومت اور پارٹی معاملات کو الگ الگ چلانے کے حوالے سے جو غلطیاں خان صاحب کرتے رہے ہیں آج خیبرپختونخوا حکومت اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو حکومتی امور سے زیادہ پارٹی معاملات میں دلچسپی ہے۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ مشکل سے مشکل کام کو بھی سٹریٹ پاور اور احتجاج کے ذریعے کرایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی آج بھی ساری توجہ اسی ایک نکتہ پر مرکوز ہے۔ احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگی تو پی ٹی آئی کی ساری حکمتِ عملی ناکام ہو گئی۔ پی ٹی آئی کی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس وقت بھی ایک صوبے میں ان کی حکومت ہے‘ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی اچھی خاصی نمائندگی موجود ہے پھر یہ دعویٰ بھی کہ ان کی جماعت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے‘ وہ چاہیں تو ایوان کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ حکومت کو اس وقت معاشی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے اگر پی ٹی آئی چاہے تو ایک جامع معاشی پلان تیار کر کے عوام کی توجہ حاصل کر سکتی ہے لیکن یہ اس صورت ممکن ہے جب وہ احتجاج کی سوچ سے بالاتر ہو کر سوچے گی۔ پارٹی کو تنظیمی اعتبار سے مضبوط کیے بغیر قومی سطح پر واپسی بہت مشکل ہو گی۔