تحریک انصاف نے عام انتخابات کا ایک سال پورا ہونے پر 8 فروری کو احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس اعلان سے ابتدائی طور پر یہ تاثر گیا کہ شہرِ اقتدار ان کی منزل ہو گی جہاں جلسے میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ تاہم وزیر داخلہ نے احتجاج کی پلاننگ سے قبل ہی متنبہ کر دیا کہ پی ٹی آئی 8 فروری کو احتجاج نہ کرے‘ اگر انہوں نے ہماری درخواست کو قبول نہ کیا تو پھر ویسا ہی ہو گا جیسا 26 نومبر کو ہوا تھا۔ وزیر داخلہ کا بیان کارگر رہا اور جنید اکبر کی سربراہی میں پشاور پی ٹی آئی کے صوبائی سیکرٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں طے کیا گیا کہ صوابی میں جلسہ ہو گا جبکہ پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔ جنید اکبر نے پارٹی رہنماؤں کو صوابی جلسے کی تیاریاں کرنے کی ہدایات کیں۔ پی ٹی آئی مینارِ پاکستان لاہور میں بھی جلسے کا ارادہ رکھتی ہے اور جلسے کی اجازت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے جلسہ کی اجازت کیلئے ڈپٹی کمشنر کو بھی درخواست دے رکھی ہے۔ مینارِ پاکستان میں جلسہ کے لیے پی ٹی آئی کی تیاریوں سے لگتا ہے کہ لاہور میں جلسے کا ارادہ نہیں ہے محض خانہ پری کے لیے حکومت سے اجازت طلب کی جا رہی ہے جو مسترد ہو گی کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ میچز شروع ہو رہے ہیں‘ ایسے موقع پر بڑے جلسے کی اجازت ملنا مشکل ہو گا۔ البتہ صوابی میں جلسہ کرنے میں پی ٹی آئی سنجیدہ ہے مگر صوابی جلسے کیلئے بھی وقت بہت کم ہے۔ وقت کی قلت کے باوجود اگر پی ٹی آئی صوابی میں بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تب بھی پورے ملک میں بھرپور جلسوں سے شروع ہونے والا پی ٹی آئی کا احتجاج محدود ہو کر صرف خیبرپختونخوا تک رہ گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے انتخابات کا ایک سال پورا ہونے پر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عام انتخابات 2024ء میں مینڈیٹ چرایا گیا۔ ایسا ہی الزام مولانا فضل الرحمن بھی عائد کرتے ہیں بلکہ مولانا نے بڑی شدت کے ساتھ دو بڑی جماعتوں سے شکوہ کیا تھا۔ ہم نے مولانا فضل الرحمن کو پہلی بار دلبرداشتہ دیکھا کیونکہ وہ پارلیمانی سیاست چھوڑنے کا عندیہ دے رہے تھے‘ یہی موقع تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا مؤقف اختیار کیا۔ کون نہیں جانتا کہ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی دو انتہاؤں کا استعارہ ہیں۔ ماضی میں دونوں جانب سے ایک دوسرے کے لیے کیا کچھ نہ کہا گیا۔ مولانا الیکشن میں دھاندلی کے مؤقف پر قائم ہیں مگر پی ٹی آئی کی تمام تر جدوجہد مقدمات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کا مسئلہ مینڈیٹ ہے تو اس کے لیے قانونی راستہ اختیار کیوں نہیں کیا گیا؟ پی ٹی آئی الیکشن میں دھاندلی کا شور تو مچاتی ہے مگر کتنے حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواست کی گئی؟ پی ٹی آئی کو الیکشن کے حوالے سے جو تحفظات تھے اس کے لیے الیکشن کمیشن اور پارلیمان ہی سب سے بہتر فورم تھے۔ پی ٹی آئی کو متعلقہ فورمز پر شواہد کے ساتھ آواز بلند کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ کہہ دینا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی‘ کتنے لوگ اس پر یقین کریں گے؟ پھر جب کئی جماعتیں یہی مؤقف اپنا لیں کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے تو کس کا مؤقف درست تسلیم کیا جائے؟
اب جبکہ الیکشن کو ایک سال پورا ہو رہا ہے اور اس موقع پر پی ٹی آئی احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کارکن باہر نکلنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ کارکنان دلبرداشتہ ہیں‘ گرفتاری کا خوف ہے کیونکہ سنگجانی جلسہ اور 26 نومبر کے احتجاج میں انہیں بے یارومددگار چھوڑ کر قیادت فرار ہو گئی تھی۔ سینکڑوں کارکن گرفتار ہوئے۔ انہیں یہ کہہ کر لایا گیا تھا کہ خان صاحب کو رہا کروا کر ہی واپس آئیں گے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت بخوبی جانتی ہے کہ خان صاحب کے نام پر ہی کارکنوں کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ خان صاحب کو احتجاج کے ذریعے رہا کرانا آسان نہیں‘ اس کے باوجود کارکنوں نے اسے سچ سمجھا اور سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے ڈٹ گئے۔ جن کارکنوں نے اپنی آنکھوں سے قیادت کو بھاگتے ہوئے دیکھا کیا اب وہ اس قیادت کی باتوں پر یقین کر یں گے؟ اس لیے میری دانست میں پی ٹی آئی وفاقی سطح پر بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہاں خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت ہونے کی وجہ سے بڑا جلسہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ 'جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘ کے مترادف ہو گا۔ وفاقی حکومت کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔
مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھنے کی ایک صورت نکلی تھی مگر پی ٹی آئی نے عجلت میں اسے ختم کر دیا۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا بلاشبہ اہم کامیابی تھی‘ باقی ہر فریق نے اپنی مہارت اور صلاحیت کے بل پر خود کو منوانا ہوتا ہے جیسا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت مولانا فضل الرحمن نے اپنی اہمیت منوائی‘ پی ٹی آئی کو اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی سینیٹ‘ قومی اسمبلی‘ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھرپور نمائندگی ہے‘ پی ٹی آئی ایوان کے اندر اپنا جمہوری کردار ادا کرنے کے برعکس مسلسل احتجاج کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے‘ پی ٹی آئی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی جماعت جمہوری فریضے کو پس پشت ڈال کرآگے نہیں بڑھ سکتی۔ پی ٹی آئی نومئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن پر مُصر تھی جبکہ حکومت پارلیمانی کمیشن پر آمادہ تھی تو پارلیمانی کمیشن تشکیل دے کر اس سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ ہماری رائے میں تو پارلیمانی کمیشن کی اہمیت جوڈیشل کمیشن سے بھی زیادہ تھی کیونکہ پارلیمانی کمیشن میں پی ٹی آئی کی نمائندگی موجود ہوتی اور کئی ایسے امور بھی زیر بحث آتے جو جوڈیشل کمیشن میں نہیں آ سکتے تھے۔ پارلیمانی کمیشن جمہوری نظام میں ایسی کلیدی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف مختلف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر بات چیت اور مفاہمت کے ذریعے مسائل حل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ جمہوریت کے استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ پارلیمانی کمیشن درحقیقت ایک ایسا پُل ہے جو مختلف نظریات اور آرا کو جوڑتا ہے۔ ریاست کی سب سے بڑی دستاویز آئین ہے مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ 1973ء کاآئین بنانے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے جنہوں نے طویل بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ آئین تشکیل دیا۔ اس کمیٹی کی کامیابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں تو مشکل سے مشکل مسائل کا بھی حل نکالا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی خود بھی پارلیمانی کمیشن کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت سے نئے چیف الیکشن کمشنر اور سندھ و بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے لیے فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دو سال پر مشتمل احتجاجی سیاست سے پی ٹی آئی کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی مزاحتمی تحریک ماند پڑ گئی۔ جیل سے باہر پی ٹی آئی کی قیادت نے خان صاحب کے کہنے پر متعدد جلسے کیے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ کسی نے سوچا نہ تھا کہ پی ٹی آئی کیلئے کارکنوں کو باہر نکالنا چیلنج بن جائے گا مگر اب یہ حقیقت ہے سو سٹریٹجی تبدیل کر کے آگے بڑھنا ہی دانشمندی ہے۔ اگر جنید اکبر بھی اپنے پیشرو کی طرح احتجاجوں پر زور دیں گے تو محض ناموں کی تبدیلی سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔