ایک سال قبل‘ فروری 2024ء میں عمران خان کی طرف سے عالمی مالیاتی فنڈ کو ایک خط لکھا گیا تو بعض حلقوں نے اسے سیاسی غلطی کہا جبکہ بعض نے اسے نئی حکمت عملی سے تعبیر کیا۔ اس خط کے ایک ماہ بعد یعنی مارچ 2024ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا نو ماہ کا سٹینڈ بائی پروگرام مکمل ہونا تھا اور حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک نئے پروگرام کی اشد ضرورت تھی جس کیلئے ایرپل 2024ء میں حکومت اور آئی ایم ایف کے مذاکرات شروع ہونا تھے۔ اس نازک موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خان صاحب نے خط لکھا تاکہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے مگر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جولائی 2024ء میں حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا جبکہ ستمبر 2024ء میں آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی۔ خان صاحب اس خط سے مطلوبہ مقصد حاصل نہ کر سکے تاہم وہ اپنی اس خط لکھنے والی حکمت عملی پر اب تک کاربند ہیں۔ اب تقریباً ایک سال بعد انہوں نے پہلے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو 349صفحات پر مشتمل ایک طویل خط لکھا۔ سپریم کورٹ سے جب بھی کوئی سائل رجوع کرتا ہے تو اسے آئینی طریقے سے اس کا جواب دیا جاتا ہے اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان کا یہ خط آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے کہ اس خط کو دیکھے اور سماعت کیلئے مقرر کرنے کا فیصلہ کرے۔ سپریم کورٹ سے جلد یا بدیر خان صاحب کو خط کا آئینی طریقے سے جواب مل جائے گا‘ البتہ حالیہ چند دنوں میں خان صاحب کی طرف سے آرمی چیف کو جو تین خطوط لکھے گئے ان کا فوری جواب آ گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا‘ اگر ملا بھی تو اسے پڑھوں گا نہیں بلکہ وزیراعظم کو بھجوا دوں گا۔ خان صاحب کی طرف سے آرمی چیف کو لکھے گئے پہلے خط میں پالیسیوں کا جائزہ لینے کی اپیل کی گئی‘ دوسرے خط میں خان صاحب نے مؤقف اختیار کیا کہ زبردستی منظور کرائی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا جبکہ تیسرے خط میں آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ خان صاحب کی طرف سے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو خطوط اُسی حکمت عملی کا تسلسل ہے جو انہوں نے ایک سال قبل آئی ایم ایف کو خط لکھ کر اپنائی تھی۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ جہاں تک خان صاحب کے خطوط کا تعلق ہے تو ان خطوط سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ خان صاحب ریلیف چاہتے ہیں مگر کوئی ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے جس سے ان کی اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہو یا کارکنوں میں یہ پیغام جاتا ہو کہ خان صاحب نے سمجھوتہ کر لیا ہے کیونکہ اس سے قبل خان صاحب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آخری گیند تک لڑوں گا‘ کسی صورت ہار نہیں مانوں گا‘ نہ ہی کسی صورت جھکوں گا۔ ظاہر ہے کہ خان صاحب جن شرائط پر ریلیف چاہتے ہیں ان شرائط پر انہیں ریلیف نہیں مل سکتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پی ٹی آئی بڑے احتجاج کی پوزیشن میں نہیں ہے‘ حکومت اور مقتدرہ خان صاحب کی شرائط کیونکر تسلیم کریں گے۔ خان صاحب اب تک بظاہر اپنے سبھی اہم کارڈ استعمال کر چکے ہیں جن میں اکثر کارگر ثابت نہیں ہو ئے لیکن ایک کارڈ اب بھی باقی ہے جو خان صاحب کی مشکل آسان کر سکتا ہے اور وہ ہے خود احتسابی کا کارڈ۔ جیل میں جانے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ خان صاحب اپنا محاسبہ کریں گے مگر انہوں نے پارٹی معاملات سے لے کر سوشل میڈیا ٹیموں کو ہدایات دینے تک ہر کام کیا مگر خود احتسابی کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا۔
بروقت اور درست فیصلہ نہ کر نا منزل سے دوری کا سبب بنتا ہے‘ خصوصاً جب بات کسی قائد یا رہنما کی ہو تو بروقت اور صحیح فیصلے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ایک قائد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں یا اپنے ملک کیلئے صحیح وقت پر درست فیصلے کرے۔ اگر قائد بروقت فیصلہ نہیں کرتا یا غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی منزل سے دور ہو جاتا ہے بلکہ اس سے منسلک افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب کوئی رہنما اپنی غلطیوں کی وجہ سے مشکل میں پھنس جاتا ہے اور اس کے مخالفین اقتدار میں آ جاتے ہیں تو اس کیلئے ایک نازک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے بہترین حکمت عملی پر مبنی لائحہ عمل اپنانا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سب سے پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور ان کی ذمہ داری قبول کرنا بہت ضروری ہے۔ عوام اور کارکنوں کے سامنے کھلے دل سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا اعتماد بحال کرنے کا پہلا قدم ہے۔ اپنی غلطیوں کا انکار کرنے یا انہیں جائز ٹھہرانے کی کوشش مزید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جب ایک رہنما اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے تو عوام میں اس کی شفافیت اور سچائی کی قدر بڑھتی ہے۔
خود احتسابی یعنی اپنی غلطیوں پر غور کرنا‘ ان کے اسباب کا جائزہ لینا اور مستقبل میں ان سے بچنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس عمل میں اپنے قریبی ساتھیوں‘ ماہرین حتیٰ کہ مخالفین کی آرا سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک رہنما خود احتسابی سے اپنی کمزوریوں کو شناخت کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مستقبل کیلئے ایک نئے ویژن اور منصوبے پر کام شروع کرتا ہے۔ عوام کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ رہنما نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اب وہ ملک کو ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جانے کیلئے تیار ہے۔ اسی لیے کسی بھی بحران سے نکلنے کیلئے خود احتسابی کو سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ جب ہم خود احتسابی کرتے ہیں تو ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو پہچانتے ہیں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود احتسابی ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے کہاں غلطیاں کیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ خود احتسابی ہمیں ایک مثبت رویہ اپنانے میں مدد دیتی ہے۔ جب ہم اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو ہم الزام تراشی اور دوسروں پر غصہ کرنے کے بجائے مسائل کا حل تلاش کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خود احتسابی بلاشبہ ایک کٹھن عمل ہے۔
انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دیکھنے سے کتراتا ہے کیونکہ ہم اپنی ذات کو ایک مثالی روپ میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو خود احتسابی کو ایک مشکل عمل بناتی ہے۔ خود احتسابی کے عمل میں ہمیں خود سے بہت سے مشکل سوالات پوچھنا پڑتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کے مقاصد پر‘ اپنی اقدار پر اور اپنے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینا آسان نہیں ہوتا اور بعض اوقات ہمیں ایسے جوابات ملتے ہیں جو ہماری سوچ اور نظریات کو چیلنج کرتے ہیں۔ تقریباً دو برس سے جیل میں قید خان صاحب نے سیاسی ساکھ بحال کرنے کیلئے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا‘ وہ اب بھی منزل سے دور ہیں۔ ایک مرتبہ خوداحتسابی بھی کرکے دیکھ لیں‘ شاید یہ کارگر ثابت ہو۔