چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی زیر التوا مقدمات میں کمی لانے اور انصاف کی فراہمی کیلئے فکر مند ہیں۔ نظام انصاف میں اصلاحات کے بغیر فوری انصاف کی فراہمی آسان نہیں ہے‘ اس لیے نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی نے عدالتی اصلاحات پر مبنی ایک اصلاحاتی پیکیج تیار کیا ہے۔ چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن سے بھی عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا طلب کیا جائے۔ وہ چونکہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے سربراہ ہیں اس لیے انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر مدعو کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنی ٹیم کے ہمراہ بدھ کے روز چیف جسٹس صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے وزیراعظم کو آئندہ اجلاس کے ایجنڈے سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے اصلاحاتی پیکیج کو سراہا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت جلد ہی اس کیلئے تجاویز فراہم کرے گی۔ چیف جسٹس صاحب نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ وہ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی رائے بھی لیں گے اور چاہتے ہیں کہ ان کے اصلاحاتی پروگرام کو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی حمایت حاصل ہو تاکہ اصلاحات مستقل‘ پائیدار اور زیادہ مؤثر ہوں۔ اس مقصد کیلئے چیف جسٹس صاحب نے اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں مدعو کیا مگر پی ٹی آئی کا سات رکنی وفد جمعہ کے روز چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ان کی رہائش گاہ ملاقات کیلئے پہنچا۔ یہ ملاقات اسی اصلاحاتی پیکیج کا تسلسل ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پی ٹی آئی کے وفد کا خیر مقدم کیا اور انہیں نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے مجوزہ اجلاس کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے پی ٹی آئی وفد کو وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کا احوال بتایا اور اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے وزیراعظم کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی خواہش ہے کہ عدالتی اصلاحات کو ایک مشترکہ قومی ایجنڈا بنایا جانا چاہیے اور اسے حکومت اور اپوزیشن سبھی کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی وفد نے تسلیم کیا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی یہ ملاقات اصلاحاتی ایجنڈے تک محدود نہیں رہی‘بلکہ اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور شکایات کے انبار لگا دیے۔ سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق قائدِ حزب اختلاف عمر ایوب خان نے ملاقات کے دوران بانی پی ٹی آئی‘ دیگر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو درپیش مسائل بیان کیے۔ عمر ایوب نے شکوہ کیا کہ اپوزیشن قیادت کے مقدمات کو جان بوجھ کر مختلف مقامات پر ایک ہی وقت میں مقرر کیا جاتا ہے تاکہ ان کی عدالتوں میں پیشی ممکن نہ ہو سکے۔وفد کے دیگر شرکا نے بھی اسی نوعیت کی آرا کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے نظام انصاف کو شفاف اور تیز تر بنانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک موقع فراہم کیا ہے‘ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس ضمن میں عدالت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں تاکہ نظام انصاف میں پائی جانے والی کمزوریاں دور ہوں اور عدالتی اصلاحات کا دیرینہ مسئلہ حل ہو۔ عدالتی اصلاحات اسی صورت مشترکہ کہلائیں گی جب حکومت اور اپوزیشن اس عمل کا حصہ بنیں گی۔ پی ٹی آئی چونکہ مختلف مواقع پر نظام انصاف سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے‘ اس لیے اس کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ اصلاحات کے عمل میں اپنی تجاویز پیش کرے۔ اصلاحاتی عمل کو سیاست کی نذر کر دینا کسی اعتبار سے درست اقدام نہ ہو گا کیونکہ سیاست افہام و تفہیم‘ مذاکرات اور سمجھوتے کا میدان ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی تنازعات کو بات چیت اور مفاہمت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب سیاستدان اپنے سیاسی مسائل کو حل کرنے کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کیا یہ ان کی ناکامی کا ثبوت نہیں؟ اگر سیاستدان اپنے مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں تو یہ ان کی کمزوری اور ناکامی کا اشارہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت‘ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اختلافات کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر پی ٹی آئی امید لگائے بیٹھی ہے کہ عدالت کی مداخلت سے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے تو جان لینا چاہیے کہ عدالت کا ایک آئینی دائرہ کار ہوتا ہے‘ وہ اس کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔ زبانی شکایات کے بجائے اس سے قانونی ضابطوں کے مطابق باضابطہ رجوع کرنا ہو گا۔مگر پی ٹی آئی نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ کیا پی ٹی آئی یہ چاہتی ہے کہ عدالت ان کیلئے ثالث کا کردار ادا کرے؟ اگر ایسا ہے تو کھل کر اس خواہش کا اظہار کیا جانا چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ عدالت از خود نوٹس لے تو جان لینا چاہیے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد از خود نوٹس کا راستہ محدود ہو چکا ہے۔ پہلے چیف جسٹس ازخود نوٹس لے سکتے تھے اب تین سنیئر ججز کی کمیٹی از خود نوٹس لے سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایوان وہ جگہ ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے‘ اسی وجہ سے پارلیمان کو سپریم مانا جاتا ہے مگر کیا کیا جائے جب سیاستدان ہی ایوان کو اہمیت نہ دیں۔ سیاستدانوں کا معمولی درجے کے معاملات میں عدالتوں کا رُخ کرنا کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ جب سیاستدان اپنے مسائل کو عدالتوں میں لے جاتے ہیں تو عوام کا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ عوام محسوس کرتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے اپنے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں تو عوام کے مسائل کیسے حل کریں گے؟ دوسری بات یہ کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں جانے سے دیگر مقدمات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ سیاسی مقدمات کو اہم سمجھ کر دیگر مقدمات کی سماعت روک دی جاتی ہے یوں سیاسی مقدمات سے عدالتی نظام پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ عدالتیں پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں‘ سیاسی مقدمات کے اضافے سے ان کی کارکردگی مزید متاثر ہوتی ہے۔ ہاں جب ناگزیر ہو جائے اور کوئی دوسرا راستہ نہ نکل رہا ہو تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آئین کی تشریح پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو عدلیہ کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ایسے موقع پر عدالتیں قانون کی پاسداری کو یقینی بناتی ہیں اور آئین کی حفاظت کرتی ہیں کیونکہ عدالتوں کا بنیادی کام قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ وہ قانون کی تشریح کرتی ہیں‘ تنازعات کا حل پیش کرتی ہیں اور انصاف کو یقینی بناتی ہیں لیکن اگر عدالتیں ثالث کا کردار ادا کرنے لگیں تو کیا یہ ان کی اصل شناخت کیلئے خطرہ نہیں؟ کیا یہ ان کے بنیادی کام سے انحراف نہیں ہو گا؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عدالتوں کا کام صرف قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہی نہیں معاشرے میں امن اور انصاف کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ بعض اوقات فریقین کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کیلئے صرف قانونی فیصلے کافی نہیں ہوتے۔ ایسی صورتحال میں ثالثی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر عدالتیں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہیں تو اس سے ایک دروازہ کھل جائے گا اور لوگ قانونی طریقہ کار کے بجائے ثالثی کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے جس سے عدلیہ کی اصل شناخت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لوگ اپنے تئیں یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عدالتیں صرف قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں بلکہ ثالثی بھی کرتی ہیں۔ اس سے عدالتوں کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے بقول چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کو سسٹم میں رہنے اور بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا‘ اس لیے پی ٹی آئی کو صرف عدلیہ سے امیدیں لگانے کے بجائے اپنی سیاسی جنگ سیاسی انداز سے اور قانونی طریقے سے لڑنی چاہیے۔