پاک بھارت جنگ میں 10 مئی کو بھارت کی فرضی برتری کا خود ساختہ بت پاش پاش ہوا اور غرور خاک میں مل گیا۔ اس شکست کے بعد بھارت بخوبی جانتا ہے کہ وہ کھلے میدان میں پاکستان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ طاقت۔ شکست خوردہ بھارت اب نئے محاذ پر متحرک ہے۔ بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کا تقاضا تھا کہ وہ فرضی برتری کے خول سے باہر نکل کر حقیقت کا سامنا کرتا‘ اپنی ناکام جنگی حکمت عملی اور پالیسیوں کا جائزہ لیتا مگر بھارت دو محاذوں پر متحرک ہو گیا ہے۔ ایک طرف سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کی خلاف اپنے مذموم ایجنڈے کو پھیلانے میں مصروف ہے‘ دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا بیانیہ پیش کرنے کے لیے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے 45 پارلیمانی اراکین پر مشتمل سات مختلف وفود تشکیل دیے ہیں۔ ان وفود کو دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ان وفود کی اہم ذمہ داریوں میں پاکستان کے خلاف بھارتی نقطۂ نظر کو عالمی سطح پر پیش کرنا شامل ہے‘ خصوصاً 10 مئی کے واقعات کے تناظر میں پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات کو اُجاگر کرنا۔ یہ وفود بھارت کے آپریشن سندور کے بارے میں عالمی برادری کو بریفنگ دے رہے ہیں تاکہ بھارتی اقدامات کو جائز ثابت کیا جا سکے۔ ان کا مقصد مختلف ممالک کی حکومتوں‘ تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ساتھ ملاقاتیں کر کے بھارتی نقطۂ نظر پر عالمی حمایت حاصل کرنا ہے جس میں پاکستان پر مزید پابندیاں لگوانے کی کوشش بھی شامل ہے‘ بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے پاکستان کا نام دوبارہ گرے لسٹ میں ڈلوانا۔ یہ وفود امریکہ‘ یورپ‘ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت تقریباً 32ممالک کے دورے پر ہیں۔ اس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین بھی شامل ہیں جبکہ 70 ممالک کے اتاشیوں کے سامنے بھی اپنی صفائی پیش کی جائے گی تاکہ جنگی محاذ پر ہونے والے نقصانات کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کیا جا سکے اور اس پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
بھارت پاکستان مخالف سفارت کاری پر بڑا پیسہ خرچ کر رہا ہے لیکن جب بھارت کا سفارتی وفد دنیا کے سامنے جائے گا تو کیا عالمی برادری آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لے گی؟ ہرگز نہیں‘ دنیا سوال کرے گی۔ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی۔ یہ پیشکش جو عالمی سطح پر امن اور حقائق جاننے کی جانب ایک مثبت قدم تھا‘ افسوس کہ بھارت نے یہ قبول نہیں کی جس سے اس کے اپنے مؤقف پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ یہ عدم قبولیت عالمی برادری کی نظروں میں بھارت کے دعوؤں کی صداقت کو مشکوک بنا گئی۔ جنگ کے دوران بھارت نے حقائق کو مسخ کر کے اپنی مرضی کے مطابق پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر عالمی برادری نے اس جھوٹے بیانیے کو سختی سے مسترد کر دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈا کو عالمی میڈیا اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے فوری طور پر بے نقاب کر دیا جس سے بھارتی بیانیے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دوران بھارتی میڈیا کا کردار بھی انتہائی مشکوک اور یکطرفہ رہا۔ وہ قومی جوش و خروش کے نام پر غیرتصدیق شدہ خبریں اور بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی معلومات نشر کرتا رہا‘ جس کے نتیجے میں وہ عالمی برادری کے سامنے مذاق بن کر رہ گیا۔ عالمی میڈیا نے بھارتی صحافت کے اس غیر پیشہ ورانہ رویے پر کھل کر تنقید کی جس نے بھارت کے دعوؤں کو مزید کمزور کیا۔
بھارت نے جنگی صورتحال کے تناظر میں ایک انتہائی غیراخلاقی اور اشتعال انگیز اقدام کرتے ہوئے برسوں پرانے معاہدے کو معطل کر کے پاکستان کا پانی بند کرنے کی کوشش کی۔ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے منافی ہے‘ بھارت کی جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے قبل پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کا مرکزی نقطہ تاریخی طور پر مسئلہ کشمیر رہا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان متعدد تنازعات اور فوجی محاذ آرائی کا سبب بنتا رہا ہے‘ تاہم اب پانی کا مسئلہ بھی دونوں ملکوں میں سنگین تناؤ کا سبب بن چکا ہے جس کے جغرافیائی‘ معاشی اور ماحولیاتی اعتبار سے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ پانی کا مسئلہ کسی بھی ملک کی بقا سے جڑا ہوتا ہے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش سے عالمی سطح پر بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا۔ یہ وہ اہم وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بھارت کو عالمی برادری کے سامنے پہلے بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور مستقبل میں بھی اس کیلئے سفارتی کوششوں کے ذریعے دنیا کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں سفارتی محاذ پر بھارت کو اکثر پاکستان پر سبقت حاصل رہتی تھی‘ اس کی مضبوط لابنگ اور بڑے بجٹ کے ساتھ وسیع سفارتی رسائی کی بدولت اسے عالمی سطح پر اپنی حمایت میں کھڑا کرنا نسبتاً آسان تھا تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان نے بھی سفارتی میدان میں بھرپور سرگرمیاں شروع کر دی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب بھارت کے لیے دنیا کو اپنے بیانیے پر قائل کرنا اور حمایت حاصل کرنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی بیداری اور متحرک حکمت عملی اب ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے پروپیگنڈا اور سفارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے بلاول بھٹو کی قیادت میں اعلیٰ سطح خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو مؤثر طریقے سے پیش کرے گی۔ خود وزیراعظم شہباز شریف بھی ان کوششوں میں پیش پیش ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے کئی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ترکیہ‘ ایران‘ آذربائیجان اور تاجکستان جیسے اہم ممالک شامل ہیں جو پاکستان کی مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا پالیسی کا حصہ ہیں۔ ان دوروں کا مقصد نہ صرف ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے بلکہ انہیں پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز‘ علاقائی استحکام کے لیے ہماری کوششوں اور دہشت گردی کے خلاف قربانیوں سے آگاہ کرنا ہے۔ پاکستان کے اس سفارتی اقدام کو ''فارورڈ ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ کوششیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان اب محض دفاعی حکمت عملی پر اکتفا کرنے کے بجائے فعال طور پر عالمی سطح پر اپنے مؤقف کو پیش کرنے اور بھارت کے منفی پروپیگنڈا کا مؤثر جواب دینے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ متحرک سفارت کاری یقینی طور پر مستقبل میں پاکستان کے عالمی امیج کو بہتر بنانے اور خارجہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کو جس طرح جنگ کے محاذ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح سفارتی محاذ پر بھی اسے ناکامی اٹھانا پڑے گی‘ البتہ ایک محاذ ایسا ہے جہاں ہمیں مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے‘ دشمن اسی محاذ پر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دہشت گردی ہمارے لیے ایک دیرپا چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ بات بھارت بھی جانتا ہے اسی لیے وہ پیٹھ کے پیچھے سے وار کر کے اپنے مذموم عزائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سکیورٹی فورسز نے دو روز قبل خفیہ اطلاعات پر خیبرپختونخوا کے تین شہروں ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک اور ضلع خیبر میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ امید ہے کہ جس طرح قومی قیادت نے دشمن ملک کی ہر سازش کو بہترین حکمت عملی سے ہر سطح پر ناکام بنایا ہے اسی بصیرت کے ساتھ دہشت گردی پر بھی جلد قابو پا لیا جائے گا۔