"RS" (space) message & send to 7575

مودی معاشی خودکشی کی راہ پر

پاکستان اور بھارت کے درمیان 10مئی کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد بظاہر سرحدوں پر خاموشی ہے‘ تاہم سفارتی محاذ پر کشیدگی اب بھی عروج پر ہے۔ حالیہ جنگ میں کامیابی کے باوجود پاکستانی قیادت نے واضح کیا کہ ہم مزید جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔ پاکستان کا یہ مؤقف خطے میں امن کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اس صورتحال کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ملک تقریباً 22اپریل 2025ء سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ گئے ہیں اور سرحدوں پر افواج کی تعداد میں کمی لائی جا رہی ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو کشیدگی میں کمی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ تاہم جنرل ساحر شمشاد نے یہ بھی واضح کیا کہ آئندہ جب بھی جنگ ہو گی وہ صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہے گی۔ حالیہ جنگ بندی کے بعد پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور سفارتی سطح پر تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت سفارتی اور معاشی محاذ پر اشتعال انگیزی کے ذریعے اس جنگ کا دائرہ کار بڑھا رہا ہے۔ یہ رویہ امن کی کوششوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے اور خطے میں پائیدار استحکام کے حصول میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی کے دوران جن ممالک نے پاکستان کا ساتھ دیا بھارت ان کی مخالفت پر اُتر آیا ہے۔ وہ قومیں جو مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں‘ خاص طور پر جب انہیں معلوم ہو کہ اس دوستی کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی‘ وہ پاکستان کی حقیقی دوست ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے‘ جب چین نے پاکستان کے ساتھ غیرمتزلزل تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان مضبوط پاک چین تعلقات کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ردِعمل حیران کن اور بین الاقوامی سفارتی آداب کے منافی ہے۔ اگلے روز ایک عوامی تقریب کے دوران مودی نے نہ صرف چینی باشندوں کی جسمانی ساخت‘ خاص طور پر ان کی چھوٹی آنکھوں کا مذاق اڑایا بلکہ سامعین سے یہ بھی کہا کہ وہ غیرملکی (چینی) مصنوعات کے بجائے بھارتی مصنوعات استعمال کریں۔ یہ بیان بھارت کے نسل پرستانہ تعصب کی عکاسی کرتا ہے اور معاشی قوم پرستی کو فروغ دیتا ہے۔ مودی کا یہ رویہ ان ملکوں کے خلاف بھارت کی ناراضگی کا اظہار ہے جنہوں نے جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ دوسری جانب چین نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو کر یہ ثابت کیا کہ اس کی دوستی محض دکھاوے تک محدود نہیں۔ چینی سکالر اور عام عوام بھی پاکستان کے دفاع میں عالمی میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ وِکٹر گاؤ چین کے نامور دانشور ہیں‘ سفارتی اور معاشی میدان میں ان کی مہارت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پاکستان کے دفاع میں کھل کر سامنے آئے اور بھارتی میڈیا کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا۔
بھارت کے جنرل (ر) بخشی اور چین کے وکٹر گاؤ کے درمیان تین روز قبل ہونے والی بحث کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ جنرل (ر) بخشی نے بھارت کے ایک معروف ٹی وی ٹاک شو میں بنیادی طور پر پاک چین دفاعی تعاون کی مبینہ خامیوں پر بات کی۔ جنرل (ر) بخشی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو فراہم کردہ چینی فضائی دفاعی نظام ایچ کیو نائن اور جے 10لڑاکا طیارے مؤثر ثابت نہیں ہوئے اور یہ کہ پی ایل 15میزائل شمالی ہندوستان میں پائے گئے ہیں۔ جنرل (ر) بخشی کے مطابق یہ صورتحال چین کی فوجی صنعتوں کیلئے ایک ''پبلک ریلیشنز کی تباہی‘‘ تھی۔ جنرل (ر) بخشی نے چین کے پاکستان کے جوہری پروگرام میں کردار اور پاکستان کے زیادہ تر فوجی سازوسامان کے چینی ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور اسے بھارت کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا۔ ان کا یہ مؤقف چین پاکستان دفاعی شراکت داری کے خلاف ایک چیلنج تھا جس کا مقصد ممکنہ طور پر اس تعلق کی افادیت پر سوال اٹھانا تھا۔ چین کے معروف تجزیہ کار وِکٹر گاؤ نے پاک چین دوستی کی مضبوطی اور پائیداری کا بھرپور دفاع کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور پاکستان کے درمیان نہ صرف گہرے تاریخی اور دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ ان کا فوجی تعاون بھی غیر متزلزل ہے۔ گاؤ نے واضح کیا کہ دونوں ملک مل کر فوجی طیارے تیار کرتے ہیں اور پاکستان چین کی فوجی ترقی سے مستفید ہوتا ہے۔ یہ بات اس تعلق کی حکمت عملی اور فعال نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کی مذمت کی لیکن کسی بھی ملک کو مکمل تحقیقات کے بغیر مورد الزام ٹھہرانے کی مخالفت کی۔ پاک بھارت فضائی جنگ کے حوالے سے وِکٹر گاؤ کے اس پُراعتماد بیان کہ ''صرف ایک ملک کو نقصان ہوا اور وہ پاکستان نہیں تھا‘‘ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین اپنے اتحادی کی صلاحیتوں پر کتنا اعتماد کرتا ہے‘ یہ بیجنگ کی اسلام آباد کی غیرمتزلزل حمایت کا بھی عکاس ہے۔
حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جس سے خطے میں جغرافیائی سیاسی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ بھارت کا یہ جارحانہ اقدام دراصل نئے علاقائی بلاکس کی تشکیل کا پیش خیمہ بن رہا ہے جہاں روایتی اتحاد اور تعلقات از سر نو ترتیب پا رہے ہیں۔ بھارت کا جنوبی ایشیا پر حکمرانی کا خواب اب بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے کیونکہ مودی کے یکطرفہ اور جارحانہ اقدامات نے بھارت کی علاقائی برتری کے تاثر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے کیونکہ اس کی پالیسیاں نہ صرف ہمسایہ ممالک کو بلکہ بعض عالمی طاقتوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کی کامیابی کا امکان انتہائی معدوم دکھائی دیتا ہے۔ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل چینی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اقدام بھی چین کو معاشی طور پر دباؤ میں لانے کیلئے اٹھایا گیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر امریکی انتظامیہ چند ماہ سے زیادہ اس پر قائم نہ رہ سکی۔ عالمی سپلائی چینز میں چین کی گہری جڑیں اور اس کی مصنوعات کی لاگت اور وسیع پیمانے پر دستیابی نے امریکہ جیسی معاشی طاقت کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ جب امریکہ جیسی سپر پاور کیلئے چینی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ یا ان پر سخت پابندیاں عائد کرنا ممکن نہ ہو سکا تو بھارت کیلئے یہ ہدف حاصل کرنا کس قدر مشکل ہو گا‘ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے وژن کی بدولت میڈ اِن چائنہ افریقہ کے صحراؤں سے لے کر لاطینی امریکہ تک پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ دنیا کا چینی مصنوعات سے کنارہ کش ہونا آسان نہیں کیونکہ اب میڈ اِن چائنہ کم قیمت اور معیاری بھی ہے۔ بھارتی مارکیٹس چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں‘ سستے الیکٹرانکس سے لے کر صنعتی مشینری تک ہر شعبے میں چینی مصنوعات کا غلبہ ہے۔ بھارت کے پاس فی الحال ایسی کوئی متبادل مقامی صنعت نہیں جو اس بڑے پیمانے پر چینی مصنوعات کی جگہ لے سکے اور نہ ہی عالمی سطح پر کوئی ایسا ملک ہے جو اتنی بڑی مقدار میں اور اتنی کم قیمت پر مطلوبہ اشیا فراہم کر سکے۔ لہٰذا یہ بائیکاٹ کی مہم ایک جذباتی نعرہ تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر یہ بھارت کیلئے ایک معاشی خودکشی سے کم نہیں ہو گی۔ مودی کی پالیسیوں کے زمینی حقائق‘ اندرونی مسائل اور بیرونی تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے کہ وہ بھارت کو ہر چیلنج سے نکال سکتے ہیں۔ اب بھارت کے عوام میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ مودی کے وعدے حقیقت سے کوسوں دور ہیں‘ یوں بھارتی عوام کا ''دیوتا‘‘ اب اپنے ہی فیصلوں اور ناکام حکمت عملیوں کی وجہ سے سوالات کے گھیرے میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں