"RS" (space) message & send to 7575

بھارت چین کی دہلیز پر

بھارت کے جارحانہ رویے اور مئی 2025ء میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد یہ سوال پھر سے اُبھر رہا ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے خلاف دوبارہ کوئی فوجی مہم جوئی کر سکتا ہے؟ بظاہر اس کا جواب ہاں ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو کم کرنے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی بڑی جنگ کیلئے صرف ارادہ کافی نہیں ہوتا‘ اس کیلئے بے پناہ ہمت اور فوجی برتری کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جہاں بھارت کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ مئی کی جنگ نے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ جدید میدانِ جنگ میں ٹیکنالوجی کی برتری فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک بھارت جنگ دراصل ٹیکنالوجی کی جنگ تھی‘ جس میں پاکستان نے جدید صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس شکست کے بعد مودی نے اپنی افواج کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور تکنیکی خلا کو پُر کرنے کیلئے خاموش جنگی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مئی کی جنگ میں بھارت کو سب سے زیادہ نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب اس کے پانچ لڑاکا طیارے تباہ ہوئے‘ جس کے بعد بھارت میں جدید لڑاکا طیاروں کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ اس سے پہلے فروری 2025ء میں بھارت نے امریکہ سے اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان اور ایف 35 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ ایف 35 ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ طیارہ ہے جو اپنی سپر سانک رفتار اور دور فاصلے سے اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت کی وجہ سے سرفہرست ہے۔ جدید ترین سینسرز‘ ہتھیاروں کی وسیع رینج اور سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا امتزاج اسے آج کے دور کا سب سے خطرناک اور جدید ترین لڑاکا طیارہ بناتا ہے۔ بھارت ایف35 حاصل کر کے پاکستان پر فیصلہ کن برتری حاصل کرنا چاہتا ہے‘ مگر امریکی ساختہ ایف35 لڑاکا طیارے کافی مہنگے ہیں جن کی دیکھ بھال اور آپریشنل لاگت بھی بہت زیادہ ہے‘ جو بھارت کے دفاعی بجٹ پر بھاری بوجھ ڈال سکتی ہے؛ چنانچہ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ بھارت میں اس بات پر شدید بحث ہوئی کہ آیا ان مہنگے طیاروں کو خریدا جائے یا ملکی سطح پر اپنے ایڈوانسڈ میڈیم کامبیٹ ایئر کرافٹ پروگرام پر توجہ دی جائے۔ جنگی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی منصوبہ بندی بھارت کے مقابلے میں بہت ایڈوانس ہے۔ پاکستان نے بہت پہلے سے چین کے ساتھ جے35 لڑاکا طیارے کے حصول کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ یہ بھی ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ طیارہ ہے اور اسے امریکہ کے ایف35 کا ایک بہترین متبادل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ طیارہ نہ صرف امریکی طیارے سے بہت کم قیمت ہے بلکہ یہ ملٹی رول طیارہ بھی ہے یعنی یہ فضائی برتری حاصل کرنے اور زمینی اہداف کو نشانہ بنانے کے مشنز کامیابی سے انجام دے سکتا ہے۔ اس کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ بحری جہازوں سے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستانی پائلٹ چین میں جے35 طیاروں کی تربیت بھی حاصل کر چکے ہیں اور توقع ہے کہ 2026ء کے اوائل میں یہ طیارے پاکستان کو مل جائیں گے۔ بھارت اب بھی ایف35 کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے جس کی راہ میں امریکی تحفظات اور اقتصادی مسائل رکاوٹ بن رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیکنالوجی کی یہ دوڑ صرف لڑاکا طیاروں تک محدود نہیں۔ بھارت کے پاس امریکی ساختہ اپاچی گارڈین ہیلی کاپٹرز موجود ہیں جنہیں دنیا کے جدید ترین اور مہلک ترین جنگی ہیلی کاپٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹرز ٹینک شکن میزائلوں‘ راکٹوں اور طاقتور مشین گن سے لیس ہیں اور ہر طرح کے موسم میں دن رات کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اس اقدام کا جواب دیتے ہوئے چین سے زیڈ 10 ایم ای ہیلی کاپٹرز حاصل کیے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر جدید ترین سینسرز‘ الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز اور مختلف قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہیں جو پاکستان کی فضائی اور زمینی دفاعی صلاحیت میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو پاکستان نہ صرف جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے بلکہ جنگی صلاحیتوں میں بھارت سے کہیں آگے کھڑا ہے۔
حالات نے بھارت کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ بھارت کو بھی اپنی کمزوری کا ادراک ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے بعد اس کی نظریں اب چین پر ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی بڑی وجہ تجارتی پابندیاں اور ٹیرف میں اضافہ ہے‘ جس سے بھارت شدید پریشانی کا شکار ہے۔ بھارت پر امریکی ٹیرف دیگر شراکت داروں کی نسبت سب سے زیادہ ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات سے دونوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا امریکی دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ پاکستانی مصنوعات پر امریکی ٹیرف جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے‘ جو پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستحکم تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھارت کی ان مشکلات کے پس منظر میں بھارتی وزیراعظم مودی کی 31اگست کو چین میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ ماضی میں مودی ایس سی او کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ تاہم اس سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا اگست کے تیسرے ہفتے اسلام آباد کا دورہ انتہائی اہم ہے۔ اس میں پاک چین سالانہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات‘ سی پیک منصوبے کی پیش رفت‘ دفاعی تعاون‘ اقتصادی معاملات اور خطے کی سلامتی پر تفصیلی مشاورت ہو گی۔ چینی وزیر خارجہ کا پاکستان کے دورے کے بعد افغانستان جانے کا امکان ہے۔ اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی عالمی پابندیوں کی وجہ سے چار اگست کو پاکستان کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔ اس صورتحال میں افغانستان نے بھی اپنی امیدیں چین سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ روس اور ایران بھی علاقائی معاملات میں چین کی رائے اور مرضی کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں چین کی میزبانی میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرف جہاں پاکستان کو کوئی خاص پریشانی نہیں وہیں دوسری طرف بھارت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ ایس سی او سربراہی اجلاس کے فوری بعد چینی فوج کی سالانہ پریڈ میں پاکستانی قیادت کی شرکت سے پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ امریکہ نے بھارت سے منہ موڑ لیا ہے جس کی وجہ سے بھارت کو اپنا آخری سہارا چین ہی دکھائی دے رہا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ چین بھارت پر کتنا بھروسا کرتا ہے‘ بالخصوص ایسے وقت میں جب بھارت کی انتہا پسندانہ سوچ نے اس کے قابلِ بھروسہ دوستوں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کامیاب سفارت کاری کی بدولت بیک وقت امریکہ اور چین جیسی دو بڑی عالمی طاقتوں کا بااعتماد دوست ہے۔ یہ صورتحال خطے میں طاقت کے توازن کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اگر بھارت نے مستقبل میں کوئی جارحانہ اقدام اٹھایا تو اسے نہ صرف پاکستان کی مضبوط دفاعی صلاحیت کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی تنہائی بھی بڑھ جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں