"RS" (space) message & send to 7575

چین کی مستقبل پر نظر

دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ اقوام کا مقدر دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے سے عبارت ہوتا ہے‘ وہ پہلے سے کھینچی ہوئی لکیروں پر چل کر ہی اپنی تقدیر رقم کرتی ہیں مگر اس کے برعکس چند قومیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی بے پناہ محنت‘ استقامت‘ غیرمتزلزل عزم اور قیادت کی بے مثال بصیرت کے زور پر وقت کے دھارے کا رُخ موڑ کر مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے تراشتی ہیں۔ عصرِ حاضر کے منظر نامے پر یہ اعزازچین کو حاصل ہے جس نے چند دہائیوں میں غربت کے گھنے سائے چھانٹ کر خود کو عالمی اقتصادی طاقت کے درخشاں تخت پر براجمان کر لیا۔ چین کی حیرت انگیز ترقی کسی اتفاق یا سحر انگیزی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ان کی اجتماعی لگن‘ شب و روز کی جدوجہد اور ایک واضح اور دور رس قومی ویژن کا ثمر ہے۔ چین کی یہ بے مثال ترقی جس نے ایک ارب سے زائد انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا‘ کی بنیاد میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی وہ منصوبہ بندی ہے جو ہر پانچ سال بعد ملکی ترقی کا ایک نیا خاکہ پیش کرتی ہے۔ چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ ترقی کے سفر کو بامِ عروج تک پہنچا رہے ہیں۔ چین کا یہ ویژن محض اقتصادی ترقی کے اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ اس کی روح ترقی کے معیار کو بلند کرنے‘ تکنیکی خود انحصاری کے حصول اور معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے میں پیوست ہے۔ چینی قیادت کا فلسفہ کرسٹل کلیئر ہے۔ ان کا ایجنڈا عوام کو سب سے پہلے رکھتا ہے‘ اور وہ اس حقیقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ چین کی اصل طاقت اس کے داخلی استحکام اور قومی یکجہتی میں مضمر ہے۔ یہ ویژن حال ہی میں سی پی سی کی بیسویں مرکزی کمیٹی کے چوتھے کُل رکنی اجلاس میں سامنے آیا جہاں قومی معیشت اور سماجی ترقی کے پندرہویں پانچ سالہ منصوبے کے حوالے سے نہایت اہم تجاویز کو حتمی شکل دی گئی۔ یہ تجاویز محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ یہ وہ چینی خواب ہیں جو قوم کی اگلی پانچ سالوں کی منزلوں اور حکمت عملیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم صرف حکومتی پالیسیوں سے نہیں بنتی بلکہ اس میں قوم کے اُن افراد کی شب و روز کی محنت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے جو اس پالیسی کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں۔ چینی قوم کی سب سے بڑی خوبی ان کا انفرادی اور اجتماعی عزم ہے۔ صدیوں پرانے تہذیبی اقدار کے حامل اس خطے کے عوام نے نہ صرف مشکل حالات کا سامنا کرنے کا ہنر سیکھا ہے بلکہ وہ ایک اجتماعی مقصد کے حصول کیلئے غیرمعمولی نظم و ضبط کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ چین کی موجودہ ترقی کا سفر ایک ایسے دیو قامت کارخانے کی مثال ہے جہاں ہر فرد اپنے حصے کا کام نہایت تندہی اور مہارت سے سرانجام دے رہا ہے۔ یہ وہ محنت ہے جس نے چین کو 'دنیا کی فیکٹری‘ کا لقب دلوایا‘ لیکن یہ صرف کارخانوں کی پیداوار تک محدود نہیں رہی دیہی علاقوں میں کسانوں کی زمین سے محبت اور سخت جان کاشتکاری‘ شہروں میں انجینئرز اور سائنسدانوں کا اختراعی جذبہ اور کاروباری طبقے کا عالمی منڈیوں کو فتح کرنے کا عزم یہ سب مل کر چینی ترقی کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا فلسفہ سادہ ہے۔ ''آج کی محنت‘ کل کی خوشحالی کی ضمانت ہے‘‘۔ اس محنت کی گواہی عالمی اقتصادی فورمز اور ہر بڑے عالمی شہر کی مارکیٹیں دے رہی ہیں جہاں ''میڈ اِن چائنا‘‘ صرف ایک ٹیگ لائن نہیں بلکہ معیار اور افادیت کی علامت بن چکا ہے۔ چین کا پندرہواں پانچ سالہ منصوبہ‘ جو 2026ء سے شروع ہو کر 2030ء تک جاری رہے گا‘ چین کی ترقی کے ایجنڈے کو چار اہم ستونوں پر کھڑا کرتا ہے جن کا مقصد ملک کو ایک جدید‘ خوشحال‘ محفوظ اور عالمی سطح پر بااثر ریاست بنانا ہے۔ اس منصوبے کا مرکزی اور سب سے اہم محور ملک میں جدید اور مضبوط صنعتی نظام کی تعمیر ہے تاکہ حقیقی معیشت کی بنیادیں مزید مستحکم ہو سکیں۔ چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب صرف دوسروں کی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرے گا۔ یہ حکمت عملی صرف دفاعی نہیں ہے بلکہ ایک جرأت مندانہ پیش رفت کی غمازی کرتی ہے۔ آئندہ پانچ سالوں میں چین اپنی اختراعی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں بروئے کار لائے گا اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اعلیٰ سطح کی خود انحصاری حاصل کرنے کی رفتار تیز کرے گا۔ اس میں مصنوعی ذہانت‘ کوانٹم کمپیوٹنگ‘ سیمی کنڈکٹرز اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز جیسے جدید شعبوں میں کلیدی پیش رفت شامل ہو گی۔ یہ اقدام ایک طرف چین کو عالمی سپلائی چین میں غیر متزلزل مقام دے گا تو دوسری طرف بیرونی دباؤ اور پابندیوں کے خلاف ایک مؤثر ڈھال فراہم کرے گا۔
ترقی کی چکاچوند میں اکثر ممالک اپنے بنیادی شعبوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں‘ لیکن چین کی قیادت کی یہ بصیرت قابلِ ستائش ہے کہ انہوں نے زراعت اور دیہی علاقوں کو سرفہرست اہمیت دی ہے۔ سی پی سی اجلاس میں پیش کی جانے والی تجاویز میں زراعت‘ دیہات اور کسانوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے کا تہیہ کیا گیا ہے۔ چین کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے زراعت کے شعبے میں ایک مضبوط ملک کی تعمیر کو تیز کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال‘ زمین کے انتظام کی اصلاحات اور دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہے۔ درحقیقت دیہی احیا کا یہ منصوبہ شہر اور دیہات کے درمیان ترقی کے فرق کو کم کرنے اور سماجی استحکام کو فروغ دینے کیلئے نہایت اہم ہے۔ اگلے پانچ سال کیلئے چینی منصوبہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات چین کے ہر شہری تک پہنچیں۔ منصوبے میں عوامی معیشت کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ چینی وزیر تجارت وانگ وین تھاؤ کے بیان کے مطابق آئندہ حکمت عملی میں اب صرف مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی بلند شرح پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ قومی آمدنی کی تقسیم اور ہر فرد کے معیارِ زندگی کو بھی بہتر بنایا جائے گا۔ اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ چین کی مجموعی معیشت کے ساتھ ساتھ چینی عوام کی انفرادی معیشت کو بھی یکساں اہمیت دی جائے گی تاکہ ترقی کی رفتار سے کوئی بھی طبقہ محروم نہ رہ جائے۔ یہ مساوات پر مبنی ترقی کا ایک ایسا ویژن ہے جو سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
چین نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں دنیا سے کٹ کر نہیں رہے گا۔ وہ عالمی نظام کے ساتھ فعال تعلق قائم کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس مقصد کیلئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کو آگے بڑھایا جائے گا۔ یہ منصوبہ صرف انفراسٹرکچر کی تعمیر کا نہیں بلکہ عالمی تجارت‘ باہمی تعاون اور کثیر جہتی کو فروغ دینے کا ایک تسلسل ہے۔ بی آر آئی کے تحت چین ایشیا‘ افریقہ‘ یورپ اور لاطینی امریکہ میں مشترکہ ترقی کے نئے راستے کھولنا چاہتا ہے جس میں اس کی قیادت کا جامع‘ طویل مدتی اور عالمی سوچ کا ویژن جھلکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین کا اگلے پانچ سال پر مبنی ویژن محض ایک اقتصادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کی دیگر ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی اقوام کیلئے سیکھنے کا ایک قیمتی اور عملی سبق ہے۔ چین کی کامیابی کی کہانی سے جو بنیادی پیغامات اخذ کیے جا سکتے ہیں ان میں سب سے اہم طویل مدتی ویژن اور مستقل مزاجی ہے۔ چین نے یہ ثابت کیا ہے کہ کامیابی کیلئے صرف مختصر مدتی اہداف کافی نہیں ہوتے بلکہ ایک طویل مدتی اور مسلسل نافذ ہونے والا قومی منصوبہ لازمی ہے کیونکہ مستقل مزاجی سے طے شدہ اہداف کی طرف بڑھنے سے ہی منزلیں سر ہوتی ہیں۔ دوسرا بڑا سبق خود انحصاری کو ترجیح دینا ہے۔ چین اپنے نئے پانچ سالہ منصوبے کے ساتھ نہ صرف اپنی تقدیر لکھ رہا ہے بلکہ ایک نئی عالمی اقتصادی ترتیب کا خاکہ بھی پیش کر رہا ہے۔ چینی قوم ایک بار پھر یہ ثابت کر رہی ہے کہ محنت‘ بصیرت اور طویل مدتی منصوبہ بندی وہ کنجیاں ہیں جو قسمت کے قفل کھول کر روشن اور خوشحال مستقبل کے در وا کرتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں