افراد اور معاشرے اخلاقیات کا درس دینے، وعظ و نصیحت اور تقاریر سے نہیں قانون اور ضابطوں سے سدھرتے، بنتے اور بلندیوں کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ فرد اپنی ذات میں من پسند، خود غرض اور خود سر ہے۔ معاشرہ قبائلی ہو یا جدید، اس کا داخلی امن، سلامتی اور فلاح و ترقی کے راستے حکمرانی سے ہموار ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ بہت بگاڑ آ چکا، قانون اور ضابطوں کی ہر جگہ پامالی دکھائی دیتی ہے۔ بگڑے ہوئے معاشروں میں فرد خود سری کو آزادی خیال کرتا ہے۔ وہ صرف اپنی ذاتی خواہش کا پابند ہے، اُسی کے اشارے اورتحریک میں سب کچھ کرگزرتا ہے۔ بے لگام، مادرپدر آزادی ہمارے سماجی رویوں میں سرایت کرچکی؛ قانون کا خوف جاچکا اور پھر اس کا اطلاق صرف کمزور پر ہی ہوتا ہے۔
رویوں میں بگاڑ بہت گہرا اور وسیع ہے۔ مشاہدہ کریں، کہیں بھی، کبھی بھی لوگوں کو کسی پارک، گلی کوچے، بازار یا ایسی جگہ جہاں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوں، آپ کو خود غرضی، جارحیت اور من مانی کا عکس صاف نظر آئے گا۔ یہ درست ہے کہ انسان کبھی فرشتہ نہیں بن سکتا‘ نہ اُس سے اس کی توقع کرنی چاہیے۔ مغرب کے نسبتاً پُرامن اور ترقی پسند معاشروں میں بھی فرد انسانی خواہشوں کے غلبے سے آزاد نہیں، مگر اُنھوں نے اپنی تاریخ اور سماجی علوم کے حوالے سے کچھ اصول وضع کرلیے ہیںجن سے انسان کو حقیقی آزادی میسر ہے۔ اگر ہم خود اپنی تاریخ اور تہذیب کو حوالہ بنانے میں عارمحسوس کرتے ہیں، جو نہیں ہونا چاہیے، تو دوسروں کی مثال دیکھنا معیوب بات نہیں۔ ترقی، تہذیب اور امن وخوشحالی عالمگیر اصول ہیں۔ اُن میں اگرکوئی جمع تفریق ہے تو اس کا تعلق مقامی سماج کی ساخت سے ہے۔ ہر معاشرے میں اگر وہی اصول نافذ ہوں تو نتائج زیادہ مختلف نہیں نکلتے۔ سنگاپور اور چین نے خیرہ کن ترقی کی ہے۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہوا،اور صدیوں کا فاصلہ کیسے دہائیوں میں طے کرلیا گیا؟ فقط قانون اور ضابطوں کے زور پر۔ ایک ہی نسل کے افراد کے رویے بدل گئے۔
اس کے برعکس پاکستان کا قانون کمزور ہے۔ اس لیے کہ ریاست کمزور ہے، حکمران بدعنوان ہیں، اور نوکرشاہی کو کسی کا ڈر نہیں۔ یہ بگاڑ صرف حکمران طبقات میں ہی نہیں کہ وہ خیانت کار ہیں، اور کھلم کھلا مال بناتے ہیں، بلکہ اکثر تاجربھی ٹیکس چور، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور ہیں۔ وہ بھی حکمران طبقات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر وہ قانون اور ضابطوں کے پابند نہیں تو عوام سے ہم کس طرح بہتر رویوں کی توقع کرسکتے ہیں؟ وہ تو غالب طاقتوں کے رویوں سے مغلوب رہے، اور پیروی کرتے رہے۔ جیسے عوام ویسے حکمران، ایک بے معنی مقولہ ہے۔ اس کا سماجی حقائق اور تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ مارکسی فلسفے نے اس کا الٹ دیکھا، اور بالکل درست سمجھا۔ معاشرے میں غالب رویے تو غالب طبقات کے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کاکردار عوام کا کردار بہتر کرسکتا ہے۔ وہ قانون کے پابند نہیں بلکہ قانون اُن کی خواہشات کے تابع، نظام انصاف اُن کے مفادات کا نگہبان، پولیس اور دیگر سرکاری ادارے اُن کی جائزوناجائز جاگیروں کے محافظ ہیں۔ دراصل حکمران طبقات صرف سیاسی میدان میں نہیں تجارت، صنعت، پراپرٹی اور کئی دیگر شعبوں میں بھی ہیں۔
پاکستانی اشرافیہ اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی پستی کا جائزہ لینے کی بجائے کمزور اورغریب لوگوں کی اخلاقیات، کام چوری،کاہلی، سستی اور ادھورے کام کرنے کا رونا روتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عام آدمی کی عادت بھی بگڑ چکی۔ موقع ملے تو وہ کسی کے مال پر ہاتھ صاف کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ لیکن سمجھنا ہوگا کہ وہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ قانون کی حکمرانی کاتواتر سے زوال ہے۔ بالا طبقات قانون کی گرفت سے باہر ہیں، قوانین ان کے سامنے بے بس ہیں۔ کرپشن پر دنیا کی کوئی بھی رپورٹ اُٹھا کر دیکھ لیں، پاکستان کا شمار پہلے دس ممالک میںہوگا۔ پاناما پیپرزکے انکشاف نے دنیا میں ہلچل مچا دی۔ یہاں بھی شور اُٹھا۔ تقریباً پانچ سو سے زیادہ پاکستانیوں کے نام بھی آئے، مگر کیا ہوا؟ کتنے کیسز میں بااثر افراد سزا پاچکے ہیں؟بہت کم۔ اگر اشرافیہ ایمانداری سے محروم ہوچکی ہے تو عام آدمی سے مثالی کردار کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سونے کو زنگ لگ جائے تو لوہے سے کیا شکایت؟
عام طور پردانشور اور مبصرین اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ اصلاحات کا عمل، قانون کا نفاذ اور شہریوں کی تربیت نچلی سطح سے شروع ہو۔ اچھے کام کا آغاز کہیں سے بھی ہو، اگر نیت اور سمت درست ہے تو اُس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ تاہم دیرپانتائج کیلئے ضروری ہے کہ اُن کا اطلاق بلاتفریق معاشرے کے تمام طبقات پر ہو۔ قانون سب پر یکساں لاگو ہوگا۔ جمہوری معاشروں میں اور جہاں بھی سماجی انصاف مہیا ہو، حقوق اور فرائض کے لحاظ سے سب لوگ برابر ہوتے ہیں۔ مغرب کی بنیادی پہچان ترقی‘ سماجی استحکام اور قانون کی حکمرانی ہے۔ وہاں کسی کو قانون کی نظر میں امتیازی اہمیت نہیں ملتی۔ اپنے تاریخی سفر میں مغرب کی ریاست جاگیردارانہ دورکے مکانی اور خاندانی نقائص سے پاک ہوگئی۔ وہاں سماجی فرق ختم ہوچکا۔ ریاست، ادارے اور قانون کو بالادستی حاصل ہے۔ حکمرانی جمہورکی خواہش سے قائم ہوتی ہے۔ گویا سب سے زیادہ اہمیت ریاست کے شہری کی ہے۔ تمام بندوبست اُس کی سہولت اورخدمت کیلئے ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام لوگ آمدنی کے لحاظ سے برابر نہیں ہوسکتے۔ وسائل کی یکساں تقسیم ناممکن۔ لیکن سرمایہ دار بھی قانون کی گرفت سے باہر نہیں۔ عام شہری کیلئے سب سے امید افزا بات یہی ہے۔ قانون کے سامنے وہ سب برابر ہیں۔
پاکستان کی ریاست، حکمران اور عوام جن بحرانوں، پریشانیوں اور اضطراب کا شکار ہیں، وہ قانون کی حکمرانی ہی ختم کرسکتی ہے۔ نجات کے اس راستے کا انتخاب ابھی تک نہ ہم کرسکے ہیں، اور نہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ تجارت پیشہ افراد، جن کا بازار اور معیشت پر غلبہ ہے، ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومتیں منت سماجت کریں کہ کچھ دو لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ وہ دکانیں دن کے بارہ بجے یا اس کے بعد کھولتے ہیں، اور رات گئے تک کاروبار کرتے ہیں؛ چنانچہ خریدار بھی شام کے بعد بازار کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ بھارت تک میں قانون کے مطابق دکانیں شام سات یا آٹھ بجے بند ہوجاتی ہیں۔ صرف ریستوران یا ادویات کی دکانیں کھلی رہ سکتی ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے بجلی کی کمی کے پیشِ نظر قانون بنایا تھا کہ بازار آٹھ بجے بند کردیے جائیں، تو اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا؛ چنانچہ قانون واپس فائلوں میں دبک گیا۔ ریاستی ادارے پسپا ہوگئے۔ انارکی اور کیا ہوتی ہے؟
ہر مارکیٹ اور ہر کاروباری مرکز میں روزانہ کروڑوں کاکاروبار ہوتا ہے۔ کیا کسی کو معلوم ہے وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ نہ ہونے کے برابر۔ یہ صرف مثال ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں۔ بازار سامان سے بھر ے ہوئے ہیں، سیٹھ دولت میں کھیل رہے ہیں، مگر ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ نچلی سطح پر رشوت دینے کیلئے ہمہ وقت تیار، مگر ریاست کو واجب ٹیکس دینے سے گریزاں۔ چوری اور حساب کتاب میں ہیراپھیری۔ یہ ہے پاکستان کے دولت مند طبقات‘ سیاسی خاندانوں اور اُن کی آشیرباد رکھنے والے کاروباری طبقے کا کردار۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب لوگ نظام کو ٹھیک کرنے کا مطالبہ اور خواہش رکھتے ہیں، لیکن خود کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وعظ اور تقریر میں سب یکتا، لیکن عمل صفر۔ یہ رویہ بیمار قوم اور معاشرے کی علامت ہے۔ جس معاشرے میں تقریریں عمل سے تجاوز کر جائیں، وہ صحت مند نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کا علاج وہی ہے، جو مغرب نے کر دکھایا۔ قانون کی حکمرانی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں نے وہ سبق ازبر کرلیا ہے، اور اسے بلا تکان دہراتے رہتے ہیں، لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
حکمران طبقات نے جان بوجھ کر ادارے تباہ کیے تاکہ اُن کی لوٹ مار کابازار گرم رہے۔ تبدیلی کے ایک سال بعد بھی یہ بازار گرم ہے۔ زیادہ تروقت تدبیروں میں ہی گزر گیا۔ مزید گزرا تو رہاسہا اعتماد ختم ہوجائے گا۔ قانون، انصاف، بلاتفریق احتساب اور بدعنوانی کا خاتمہ کہیں خالی نعرے ہی نہ رہ جائیں۔