ملک میں ایک نئے سیاسی قائد کا ابھرنا، نوجوان طبقے کی جانب سے اس کی حمایت، اور کرپشن، بدعنوانی اور چالیس سالہ خاندانی سیاست کے خلاف بیانیہ ایک بڑے سیاسی انقلاب سے کم نہیں۔ ووٹ کے ذریعے نئی سیاسی حقیقتیں کھلتی ہیں‘ پرانی اپنا طبعی سفر مکمل کرنے کے بعد ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ جمہوری عمل کا کرشمہ یہی ہے کہ انہونی ہو جاتی ہے اور ایک گملا تک نہیں ٹوٹتا۔ دس سال قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکی سیاست میں جائیداد کے کاروبار سے امیر ہونے والے غیر سیاسی کردار، دونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مخالفت کے باوجود دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ ہمارے پڑوس میں تو اس سے بھی کہیں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نظریات اور سیاست سے تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس حقیقت سے نہیں کہ اُن کی زندگی کا ذاتی اور سیاسی سفر بہت کٹھن رہا۔ ریاضت، جدوجہد اور ہندو قوم پرستی کا مسلسل پرچار اُنہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی مسندِ اقتدار تک لے آیا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں۔ اُن کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اُنھوں نے دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا وہ مظالم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں‘ مگر اُنہوں نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح روایتی سیاسی جماعتوں اور ہندوستان کے سیاسی ماحول کی مناسبت سے سیاست پر حاوی خاندانوں کو نشانہ بنایا۔
ہمارے اپنے محترم کپتان، اور اب وزیرِ اعظم کا بیانیہ بھی روایتی سیاسی جماعتوں، سدا بہار سیاسی خاندانوں اور اُن کے استحصالی اور غیر منصفانہ طرزِ حکومت پر مرکوز رہا۔ ٹرمپ اور مودی کی قومیت پرستی کے برعکس اُن کا بیانیہ بدعنوانی تھا۔ اب جبکہ وہ ایک سال سے اقتدار میں ہیں، یہ بیانیہ آج بھی جاری ہے۔ اپنے ہر جلسے، تقریب یا کسی موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی پسماندگی کی وجہ کرپشن کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام، خصوصاً نوجوان، جو ملک کی آبادی کا نصف سے بھی زیادہ ہیں، کپتان کے بیانیے پر یقین رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک بھی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے جو اوپر سے نیچے تک راسخ ہو چکی ہے۔ اخلاقیات، قانون کی پاسداری، سماجی فلاح سب بیکار کی باتیں ہیں۔ آج بھی سیاسی تبدیلی کے بعد، سندھ اور پنجاب میں بدعنوانی کا راج ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی آئی تو اس کا ہدف حکومتی نظام، چالیس سالہ سیاسی دورکے سیاسی خاندان اور اُن کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہرکارے ہی تھے۔ اب بھی ہیں، اور غالباً آئندہ کئی برسوں تک رہیں گے۔
جہاں کہیں بھی جدید یا قرون وسطیٰ کی تاریخ میں ریاستوں یا سلطنتوں میں اقتدار ایک فرد، جماعت اور حکومت سے دوسرے کو منتقل ہوا، پرانے نظام سے وابستہ مفاد پرست گروہوں نے تبدیلی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ کیونکہ یہ اُن کی بقا کا مسئلہ تھا۔ آج بھی ہمیں یہی کچھ پاکستانی سیاست میں آزادی مارچ، جلسے جلوسوں، کئی اخباری مضامین، برقی ذرائع ابلاغ پر انتشار، بدگمانی اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی منظم مہم کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ انقلاب اور جمہوری عمل سے سیاسی تبدیلی میں مفاد پرست گروہوں کی مزاحمت سے نمٹنے کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ روس، چین اور کیوبا کے انقلابات کے بعدریاست کی مکمل قوت استعمال کرکے ماضی میں اقتدارسے وابستہ مفاد پرست گروہوں کا خاتمہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی، قتل وغارت کا بازار گرم ہواتو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے، ہزاروں قید میں جان کی بازی ہار گئے۔ آج فہم و فراست، اور انسانی اقدار پر یقین رکھنے والا کوئی شخص خونیں انقلاب کی تائید نہیں کرتا۔ ماضی کے انقلابی آج انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ انقلاب سے مسلح جدوجہد کے فلسفے کو قصۂ پارینہ خیال کرتے ہیں۔ روایتی انقلابی تبدیلی پاکستان میں ممکن نہیں۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود جمہوری ادارے اور روایات اگر توانا نہیں تو اتنے کمزور بھی نہیں کہ بزور طاقت کسی بھی نوعیت کے منشورکو نافذ کردیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت وہی کچھ کرنا چاہتی تھی جو تحریک ِانصاف کی حکومت کی کوشش ہے۔ ٹیکس نظام کی اصلاح، پولیس اور دیگر سرکاری محکموںسے رشوت کا خاتمہ، بہتر تعلیمی ادارے اور فعال حکومت۔ سب یہی چاہتے تھے، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتا؟ اگلے انتخابات کی فکر، مخالف سیاسی دھڑوں اور اصلاحات سے متاثر مفاد پرست گروہوں کی مزاحمت ہمیشہ آڑھے آتی رہی۔ سب کو اقتدار میں رہنے، اور اس سے جڑی مراعات، مقام، سیاسی رعب اور دبدبے کی خواہش نے جکڑ رکھا تھا۔ سب خواہشوں کے غلام، عوام کا خون چوسنے کے عادی۔ وہ مفاد پرست گروہوں کے خلاف ایسے اقدامات کیونکر کرتے؟ اس کے ردعمل میں ہڑتالیں ہوتیں، جلوس نکلتے، عدالتوں میں مقدمات ہوتے، پھر میڈیا پر روزانہ جوابدہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلم لیگ اور تحریکِ انصاف حریف ضرور ہیں، لیکن اُن کی اصلاحات، منشور، نظریاتی میلان اور سماج میں حمایتی حلقوں میں زمین آسمان کا فرق نہ پہلے تھا‘ نہ اب ہے‘ لیکن دونوں جماعتوں میں تین امور مختلف ہیں۔ پہلا فرق‘ قیادت کی سماجی ساخت، سیاسی اندازِ فکر اور سیاسی ماحول، جس میں میاں نواز شریف اور عمران خان قومی افق پر ابھرے، کا ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کی تحریک، ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی بیانیے اور ملکی سطح پر عوام کو متحرک کرنے سے مشابہ ہے۔ یہ بھی کہ دونوں نئی سیاسی جماعتوں کے بانی ہیں۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ نوجوان آبادی نے واضح طور پر تحریکِ انصاف کی حمایت میں نہ صرف ووٹ ڈالے بلکہ خلوصِ نیت اور جذبے سے کام کیا۔ عمران خان کے خلوص، ایمانداری پر اُن کا اعتماد ابھی تک غیر متزلزل ہے۔ تیسرا‘ عمران خان نے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا۔ وہ وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو اُن کے نزدیک پاکستان اور قوم کے حق میں ہے۔
کبھی نواز شریف بھی ایک مقبول رہنما تھے۔ اب بھی ہیں۔ وہ ملک کیلئے بہت کچھ کرسکتے تھے، مگر محدودسوچ، دھڑے بندی کی سیاست اور 'مٹی پائو‘ کی حکمتِ عملی نے اُن کے اقتدار اور سیاسی طاقت میں اتنا الجھائو پیدا کردیا کہ وہ سوائے موٹروے اور علامتی ترقی کے کچھ نہ سوچ سکے۔ اُن کے مخالفین کا خیال ہے کہ اُن میں ایسی صلاحیت نہ تھی کہ پاکستان کو مشرقی ایشیا بنانے کے نعرے کو عملی شکل دے پاتے۔ چالیس سالہ اقتدار، لیکن جو کچھ سامنے ہے، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کی سیاست محض اقتدار میں رہنے اور بہت کچھ کمانے کے گرد گھومتی تھی۔ وہ بنیادی تبدیلی لانے میں ناکام رہے، نہ ہی اس کی اُنہوں نے کوشش کی۔ ویسے کئی لحاظ سے میاں نواز شریف ایک کامیاب سیاست دان تھے۔ پنجاب کے سیاسی خاندانوں کا اتحاد، اور اس کی قیادت کوئی معمولی کامیابی نہ تھی۔
اس وقت تحریکِ انصاف کے خلاف کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ چالیس سال سے مقتدر سیاسی جماعتوں اور اُن کے اتحادیوں نے پہلے دن سے دھاندلی کا نعرہ لگا کر حکومت کا اخلاقی جواز کمزور کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیانیہ جاری ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے مسیحا اُنہیں بہتر ہوتا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس سے نجی شفاخانوں کا متوازی کاروبار متاثر ہوسکتا ہے۔ تاجر ٹیکس دینا تو کجا ٹیکس نظام کے خلاف بازار بند کررہے ہیں۔ لالچی ٹرک مالکان ایکسل سے زیادہ مال برداری سے ہماری اربوں روپے لاگت سے بنی شاہراہوں کو دہائیوں سے تباہ کررہے ہیں۔ وہ بھی کسی قاعدے قانون میں نہیں آنا چاہتے۔ وکلا کو تو کوئی دور سے چھیڑنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ عدالتی اور قانونی اصلاحات ہوگئیں تو اُن کا روزگار متاثر ہوگا۔
اس وقت وزیرِاعظم کے سامنے دو راستے ہیں: ایک یہ کہ اپنے منشور پر رہتے ہوئے اصلاحات لے آئیں اور ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے جو بھی ضروری اقدامات ہیں، ہر مخالفت کے باوجود کرتے جائیں۔ ان کے نتائج فوری نہیں نکلیں گے۔ چند سال لگ سکتے ہیں۔ دوسرا، نواز شریف کی دھڑے بندی کی سیاست، سیاسی دائو پیچ اور اگلے انتخابات پر نظر رکھتے ہوئے چکاچوند، لیکن بیکار منصوبے بنائیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ بھی نواز شریف بن کررہ جائیں گے۔ اعتماداور جذبہ جو اُن کی قیادت پر ہے، زمیں بوس ہوجائے گا۔ ہرکارے وہی باتیں کرتے رہیں گے جو اُن کی دودہائیوں سے روش ہے۔ اگر عمران خان یہ راہ اپناتے ہیں تو سیاست اور تبدیلی پر نوجوان نسل کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔