پنجاب اور اس علاقے کی تاریخ میں نو نومبر کا دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ستر سال بعد کرتار پور راہداری بھارت میں کروڑوں سکھوں کو گرو بابا نانک کی زیارت گاہ اور گردوارے کے لیے ویزے کے بغیر رسائی دے گی۔ یہ اُن کا دیرینہ خواب تھا جو اب حقیقت کا روپ دھار چکا۔ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے درست کہا تھا کہ ہم نے راستہ نہیں، سکھ بھائیوں کے لیے دل کھول دیے ہیں۔ جب دل کھول دیے جائیں تو صرف محبت ہی جگہ بناتی ہے۔ منفی جذبات دل کی بستی کے باسی نہیں ہوتے، بلکہ اندھے تعصبات اور نفرت کے اندھیروں میں جگہ بناتے اور پروان چڑھتے ہیں۔
سکھوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اُنہیں یہ سہولت فراہم کی جائے۔ بابا گرو نانک کی آخری قیام گاہ اور یہ قدیمی گردوارہ سکھ مذہب کے چند مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ دنیا کے کئی اسفار اور تبلیغی دوروں کے بعد بابا جی اپنے ٹھکانے پر بار بار لوٹ کر آ جاتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری سال اُنہوں نے کرتار پور میں گزارے۔ یہاں ہندوستان کے ہر کونے سے لوگ اُن کے درس اور تعلیمات سے فیض یاب ہونے کے لیے آتے تھے۔ اُن کے کچھ مرید اور معتقد اُن کی خدمت اور اُن کے قرب کی سعادت حاصل کرنے وہیں بس گئے۔
پاکستان کی سرزمین، خصوصاً پنجاب کی دھرتی اور اس کے معاشرے کا اعزاز ہے کہ بابا گرو نانک نے اسی سرزمین پر ایک نئے مذہب، سکھ ازم کی بنیاد رکھی۔ اس مذہب کے بنیادی اصولوں میں مذہبی رواداری، انسانیت کا احترام اور خدمت، الوہیت پر یقین، محنت اور ایمانداری سے زرقِ حلال کمانا اور اپنی کمائی سے لنگر خانے قائم کر کے ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا شامل ہیں۔
سولہویں صدی کی پہلی دہائی میں ہندوستان میں لودھی خاندان کی حکومت کمزور پڑ رہی تھی۔ ظہیرالدین بابر نے فرغانہ میں شکست کھانے کے بعد کابل، اور پھر ہندوستان کا رخ کیا، اور پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھیوں کو شکست دے کر پندرہ سو چھبیس میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ انہی برسوں کے دوران بابا گرو نانک پنجاب میں ایک روحانی پیشوا کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔ اُن کے خاندان کا تعلق ہندو مت سے تھا، مگر بابا جی مختلف مذاہب کے روحانی اوتار سے سرفراز ہوئے۔ اُن کا مقصد لوگوں میں تفرقہ، تضادات، جنگ، فساد، نفرت اور بغض ختم کر کے امن، محبت، ایثار اور یکجہتی کو فروغ دینا تھا۔
یہ وہ زریں اصول تھے جن کا پرچار دنیا کا ہر مذہب کرتا ہے۔ ہر ثقافت، تہذیب اور تمدن امن اور انسانیت کو اپنا عقیدہ اور زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے لیکن عملی دنیا بہت مختلف ہے؛ انسان تضادات کا شکار ہے؛ حرص، لالچ، جارحیت اور خود غرضی کی تہوں میں لپٹا ہوا آدمی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لیتا تو جنگیں، خون خرابہ، نفرتیں اور دوریاں قومی اور عالمی سیاست پر حاوی نہ ہوتیں۔ انسان اکثر اپنی کمزوریوں کے تنگ دائرے سے نکل کر روشنی کے سفر کی سعادت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ بشری کمزوری کا ایک عجیب پہلو البتہ یہ ہے کہ ٹھوکریں کھانے کے بعد لوگوںکی اکثریت مذہب میں اپنے لئے سکون اور اصلاح کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بات کسی ایک مذہب تک محدود نہیں۔
جنوبی ایشیا کے خطے میں کئی صدیوں سے مذہب اور سیاست کا قریبی رشتہ رہا ہے۔ دھرنوں، تحریکوں، عبادت گاہوں کے پھیلائو، مذہبی رہنمائوں کی دولت اور طاقت‘ اور سماجی اثر و نفوذ سے اس رشتے کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ تمام جدید معاشرے عجیب و غریب کشمکش کا شکار ہیں۔ ایک طرف مذہب اور انسانیت پرستی اور بھائی چارے کی باتیں، تو دوسری طرف مذہبی گروہوں کے مابین نفرت، قتل و غارت اور جارحیت کا مسلسل پرچار، اور اس کا عملی ارتکاب۔ ناانصافی، خصوصاً ماضی کی تاریخ کے حوالے سے کچھ اصلی، اور زیادہ تر من گھڑت واقعات کا بیانیہ، اور اپنے حق میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی تگ و دو، دوسرے کیخلاف کئی ناانصافیوں کو جنم دیتی ہے۔ نو نومبر کے ہی دن سولہویں صدی میں تعمیر شدہ بابری مسجد کے ستائیس سال قبل انہدام، اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اجازت ایسے ہی تضادات کی ایک تازہ مثال ہے۔
راہداری کے افتتاح کے مناظر انتہائی جذباتی تھے۔ ہر چہرہ خوشی اور جوش سے نہال تھا۔ بھارت سے آئے سکھ یاتریوں کے چہرے پر خوشی حقیقی تھی۔ عمران خان نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اب امن کا وقت آگیا ہے۔ اُنہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ''امن انصاف سے قائم ہوتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے امن تباہ ہوتا ہے‘‘۔ یہ اب کی بات نہیں؛ صدیوں سے مذہب اور امن کا تعلق زیرِ بحث ہے۔ دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقے امن کی راہیں کھولنے کی تدابیر کرتے رہے ہیں۔
موجودہ دنیا میں جہاں مغرب اور کچھ مسلم معاشروں کا واضح ٹکرائو سامنے آیا ہے، نو گیارہ کے بعد کے عالمی حالات میں یہ موضوع اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ایک طرف فلسفہ یہ کہتا ہے کہ تمام مذاہب رواداری اور ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں؛ جبکہ دوسری جانب مذہب اور اس سے ابھرنے والی شناخت ثقافتی اور تہذیبی ٹکرائو کا باعث بنتی ہے۔ اس بحث کا شاید ہی کبھی حرفِ آخر لکھا جا سکے لیکن یہ موضوع ہمیشہ دعوتِ فکر دیتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست کی فریب کاری ہو یا عملی زندگی کی مادیت پرستی، ان پر مذہب کی بجائے انسانی فطرت کے دیگر عوامل کا اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
کرتار پور راہداری ایک مذہبی گروہ کو سہولت فراہم کرنے کا سیاسی عمل ہے؛ چنانچہ یہ مذہبی نہیں، بلکہ سیاسی فیصلہ ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ جنوبی ایشیا کے کئی دانشور اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارتی پنجاب کی حکومتیں لوگوں، سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع دیں تو دونوں ممالک کے درمیان امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک امن کا راستہ ایسے حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد پنجاب اور کشمیر کی وادی سے ہی نکلے گا۔ کرتار پور ایک غیر معمولی اور ناقابلِ یقین پیش رفت ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی اس کی افادیت کا اندازہ ہو سکے گا۔ یہ اعتماد سازی کی جانب اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ فریقین کو ایک دوسرے کی نیت پر شک ختم کرنا ہو گا۔ اگر یہ یقین ہو جائے کہ ہر کوئی امن کے لیے سنجیدہ اور مخلص ہے تو جذبات سینے سے نکل کر زمین پر راہداریاں تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ منجمد برف پگھلنا شرو ع ہو جاتی ہے۔ سیاسی ارادے، جرأت اور دور اندیشی کی راہ صرف اُس صورت میں نکلتی ہے‘ جب امن کی خواہش حقیقی ہو۔
اس وقت پاک بھارت تعلقات میں جو الجھائو، بے یقینی اور مخاصمت کی فضا قائم ہے، امن کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد کی نسلوں نے پائیدار امن قائم کرنے اور کشمیر کا تنازع حل کرنے کے بہت سے مواقع گنوا دیے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران دوریاں بڑھی ہیں۔ ہندوستان کا نظریاتی نقشہ اور اس کی سماجی ساخت‘ دونوں تبدیل ہو چکے ہے۔ ہندو انتہا پسندی اپنے زوروں پر ہے اور پاکستان سے نفرت بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس صورتحال میں بھارت کی انتہا پسندی کا مقابلہ انتہا پسندی سے نہیں بلکہ رواداری سے کرے۔ کرتار پور راہداری اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔
عمران خان صاحب کے پاکستان نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ اس سے پہلے، میاں نواز شریف کی دعوت پر آنجہانی واجپائی اکیس سال قبل لاہور آئے تھے اور انہوں نے لاہور اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔ وہ واقعہ اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ جب بھی نفرت اور جنگی جنون کے بادل چھٹیں گے، بھارت اور پاکستان اُس اعلامیے کو اپنے سامنے رکھیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے اُس تاریخی عمل کو سبوتاژ کرنے کے بعد ہندوستان کے ساتھ امن کا سفر شروع کرنا چاہا۔ یہی تاریخ کی ستم ظریفی اور تضاد ہے۔
یقینا مذہب کی باتیں بہت بھلی محسوس ہوتی ہیں؛ مگر مذہب کو سیاست سے الگ ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے ساتھ جوڑ بناتے ہوئے بہت سی گرہیں لگ جاتی ہیں۔ امن کا راستہ سیاست کھولے گی۔ آج سماج سازی، قوموں اور ریاستوں کو قریب لانے اور دنیا کو امن دینے کی کنجی سیاست کے ہاتھ میں ہے۔