کمزور اور لولی لنگڑی ہی سہی‘ وطن عزیز میں جمہوری روایت گہری ہے۔ یہ ہماری آزادی کی جدوجہد سے لے کر آج تک تقریباً ایک صدی پہ محیط سیاسی اور سماجی تحریکوں کا ثمر ہے۔ آج کا دور نہ بادشاہت کا دور ہے‘ نہ یہ فوجی حکمرانی ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ موروثی سیاسی شاہیوں سے میل کھاتا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں میں دنیا کا سیاسی اور سماجی نقشہ بدل چکا ہے۔ پُرانے خیالات‘ فلسفے اور جانشینی کی علامات مٹ چکی ہیں۔ دنیا آج تک اس پُر فریب نظریے کا پرچار کرتی رہی ہے کہ حکومت اور اقتدار کے لائق سب نہیں‘ بس کچھ چیدہ چیدہ افراد اپنے رنگ و نسل اور اعلیٰ حسب و نسب کی بنا پہ قوموں کی قیادت کر سکتے ہیں‘ ان کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں اور صرف وہی قوموں کو سنوارنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ وہی اس بھاری ذمہ داری کے مستحق ہیں۔ اور یہ کہ عام آدمی اور بالا طبقات کے ساتھ ساتھ بلند سماجی حیثیت رکھنے والے‘ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جمہوریت کے فلسفے اور اسی کے اخلاقی زور سے پیدا ہونے والی تحریکوں نے مغرب میں کئی صدیاں پہلے سماجی درجہ بندی‘ بندہ و آقا کی تقسیم اور اقتدار کے فطری حقوق کے سب بت پاش پاش کر ڈالے تھے۔ اس کے برعکس جمہوریت نے انسانی برابری‘ مساوات‘ یکساں حقوق‘ آزادی (شخصی اور اجتماعی) اور ایک نمائندہ حکومت کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کو راسخ کرنے اور اس کی عملی تعبیر میں صدیاں بیت گئیں‘ مگر دھیرے دھیرے اور کبھی انقلابی صورت میں نام نہاد اعلیٰ سماجی اور سیاسی طبقات کو خاک چاٹنا پڑی۔ مغرب میں بھی جہاں پختہ جمہوری روایات اور مؤثر ادارے قائم ہیں‘ جمہوریت میں بہتری لانے اور اس میں حقیقی روح پھونکنے کی مشق جاری ہے۔ یہ ایسا سفر ہے‘ جس کی کوئی منزل تو نہیں‘ لیکن اس کا ایک راستہ ہے‘ جس پہ چلنے سے قوموں میں اعتدال‘ امن‘ برابری اور حقوق کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔
پاکستان ہو یا کوئی اور ترقی پذیر ملک‘ جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کے اصول اڑھائی ہزار سال پہلے یونان کی شہری ریاستوں میں سیاست سے لے کر آج تک بلا کسی تضاد کے یکساں نوعیت کے ہیں کہ ہر انسان اپنے طور پر مقتدر ہے اور وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اس کے نمائندے کون ہوں‘ جو اس کی مرضی و منشا اور اس کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے نظام مملکت چلائیں۔ آج کسی بھی ملک یا معاشرے میں نمائندہ حکومت کے خلاف پُرانی دلیلیں یا نئی فریب کاریاں زیادہ وزن نہیں رکھتیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب لوگ اور سب سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے افراد جمہوری نظریے یا جمہوری حکومتوں کی کارکردگی سے خوش ہوں‘ بلکہ اکثر ممالک میں خصوصاً ہمارے جیسے ممالک میں جہاں اداروں کے درمیان اقتدار کا توازن اور اعلیٰ طبقات کا غلبہ بڑی رکاوٹیں ہیں‘ یہ جمہوریت سے خوش نہیں ہیں۔ اکثر تو یہ فتویٰ جاری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اور کچھ اس سے آگے بڑھ کر مذہب‘ تاریخ اور ثقافت کے سطحی حوالوں سے جمہوریت کو مغرب کا سیاسی نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب ہو یا مشرق‘ آمریت ہو یا بادشاہت‘ موروثی جانشینی کی سیاست کرنے والے ہر ملک میں اصل رنگ اور روح کی جمہوریت کو اپنے ملک کے لیے ناموزوں قرار دیتے رہے ہیں۔ انہیں میں سے بہت سوں نے تو مغرب کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی اور انہیں معاشروں میں طویل قیام بھی رکھا ہے‘ لیکن انہوں نے وہاں کی اخلاقی اقدار اور علمی سرچشموں سے کچھ فیض پایا ہے یا نہیں‘ یہ ایک الگ بات ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کا سفر طویل ضرور ہے‘ مگر اس کے وہ ثمرات‘ جن کا خواب ہم جیسے تخیلاتی دیکھتے رہے‘ ابھی عام آدمی کے حصے میں نہیں آئے۔ وہ ثمرات یہ نہیں کہ ہمیں لکھنے اور بولنے کی آزادی ہے یا ہم اپنی مرضی کے مطابق کوئی پیشہ یا کاروبار کر سکتے ہیں۔ یہ تو بنیادی باتیں ہیں۔ اصل روح جمہوریت کی یہ ہے کہ عام آدمی اور عام سطح سے اٹھ کر متحرک افراد کیسے مقتدر اداروں میں عوام کی طاقت سے حصہ دار بن سکتے ہیں۔ اس باب میں بہت کم تبدیلی پاکستان میں دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف میں کچھ تعداد ایسے لوگوں کی ضرور موجود ہے‘ جو تبدیلی اور متبادل قیادت کی صورت میں سامنے آئی ہے‘ مگر اس جماعت میں بھی پلڑا ان کا بھاری ہے جو موروثی جانشینی کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جمہوریت کا نام اور نظام ہر ملک میں سماجی اور معاشی طور پر غالب طبقات نے اپنے مقام اور اقتدار کو جواز بخشنے اور اسے جائز ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں یہ غالب طبقہ جاگیرداروں‘ بڑے زمینداروں‘ قبائلی سرداروں اور نئی سرمایہ دار کلاس‘ جو مختلف جدید شعبوں میں سے ابھری ہے‘ پر مشتمل ہے۔ مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر سب سیاسی گھرانوں کا تعلق آزادی کی تحریک کی سیاست سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے اکثر کے سیاسی سفر کا آغاز یونینسٹ پارٹی‘ خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ اور کانگریس سے ہوا تھا۔ جب سب نے دیکھا کہ پاکستان کا آزاد ریاست بن جانا ناگزیر ہو گیا ہے تو سب نے پلٹا کھایا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اور پھر وقت اور حالات کے مطابق ان میں سے اکثر سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف بنی ہیں۔ کرشماتی قیادت‘ عوامی تائید اور کچھ نظریاتی رجحان نے انہیں منفرد بنایا اور متبادل قیادت فراہم کی۔ لیکن ان دونوں جماعتوں میں جو لوگ زیادہ تر اسمبلیوں کے اراکین کے طور پر چنے گئے اور اقتدار میں شریک ہوئے‘ وہ پُرانی سیاسی جماعتوں سے ہی اٹھ کر آئے تھے۔ انہیں ان نئی سیاسی جماعتوں میں اقتدار کی چمک نظر آئی۔ اور پیپلز پارٹی کا سورج غروب ہونا شروع ہوا تو یہ سیاسی مسافر مختلف نوعیت کی کشتیوں کے سوار ہو گئے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ان دونوں جماعتوں نے دو مختلف ادوار میں عوام‘ خصوصاً نوجوانوں کو متحرک کیا‘ انہیں امید اور ''نئے‘‘ پاکستان کی تعمیر کی نوید سنائی‘ اور یوں اقتدار حاصل کیا۔ سوائے اولین چند سالوں کے‘ دونوں نے نظریاتی اراکین کو کناروں کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ ان کی جگہ روایتی سیاسی گھرانوں نے لینا شروع کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اشتراکیوں اور ترقی پسندوں سے نہ صرف چھٹکارا حاصل کیا بلکہ کچھ کو ہزیمت‘ تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں کا شکار بھی کیا۔ وہی وڈیرے‘ سردار‘ زمیندار اور حلقوں میں سماجی طور پر با اثر گھرانے پیپلز پارٹی کی زینت بنے۔ تحریک انصاف میں ابھی تک ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ نظریہ نہیں‘ زبان و کلام کی حد تک نمایاں نظر آتا ہے۔ ظاہراً ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ حتمی فیصلہ عمران خان صاحب ہی کرتے ہیں۔ کامیابی‘ ناکامی‘ پسپائی یا راستوں کے درمیان الٹے پائوں کے ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ یہ تو اوائل کے ماہ و سال کی بات ہے‘ جو آگے کے خدشات ہیں‘ ان کا عکس گزشتہ چند ہفتوں میں ہمارے سامنے آ چکا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی ق لیگ اب چودھری بھائیوں کے نام ہو چکی ہے۔ جنرل صاحب ہی کی بحال کردہ مہاجر تحریک کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے اور تحریک انصاف کے اندر روایتی سیاسی دھڑوں نے کل پرزے نکال لئے ہیں۔ انہوں نے خان صاحب کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ پارلیمانی نظام کی ایک تلخ حقیقت کئی نفیس اندازوں میں اور کبھی اشاروں کنایوں میں دہرائی جا رہی ہے... ''ہمارے بغیر‘‘ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ تبدیلی اور خان صاحب کی سیاست کے لیے روایتی حکمرانوں کے منظم دھڑے‘ تحریک کے اندر اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایک بہت بڑا امتحان ہیں۔ مشتاق احمد صاحب کی کتاب‘ جو انیس سو ستر کی دہائی میں چھپی‘ کا عنوان یاد آ گیا: سیاست بغیر سماجی تبدیلی کے... اسی لیے تو جمہوریت بے رنگ و روح ہے کہ اگر دہلی کی عام آدمی پارٹی اور کئی دیگر بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کے اندر سے قیادت نہ ابھری تو غالب طبقات کے مفادات کے تابع جمہوریت کے فیض‘ جس کی بھی حکومت ہو‘ وہی رہیں گے جو آپ کے سامنے ہیں۔