ہم سب ایک غیر متوقع‘ مہلک اور تیزی سے پھیلتی ہوئی آفت کی زد میں آ چکے ہیں۔ غالباً کوئی ملک‘ کوئی قوم اور دنیا کا کوئی خطہ اس سے ابھی تک مکمل طور پر محفوظ نہیں رہا۔ کچھ نے بر وقت اقدامات کئے‘ حوصلے نہیں ہارے‘ قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں اور کورونا وبا کو پھیلنے نہیں دیا۔ ہمارا دوست ملک چین اس کی زندہ مثال ہے۔ اس نے نہ اپنی قوم سے نہ ہی دنیا سے کچھ خفیہ رکھا۔ سب کے سامنے کھلا اعتراف کیا کہ کورونا وائرس اس کے ایک صوبے میں پھیل چکا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ مہلک مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ تدبر کا تقاضا یہی تھا کہ ملک کے دیگر حصوں کو اس وبا سے بچایا جائے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شہر کو بند اور لوگوں کو گھروں میں محدود کیا جائے۔ ساری دنیا نے شور مچایا کہ ''شخصی آزادیاں‘‘ خطرے میں پڑ گئی ہیں‘ اور طرح طرح کی کہانیاں سنائی اور پھیلائی گئیں کہ چینیوں کے کھانے کی میز کا مینو ہی ایسا ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں۔ بعض نے تو اس وبا کو چین کی بیماری سے تعبیر کر دیا۔ یہاں تک کہ شروع میں جب کورونا وائرس کے خطرات برسات کے بادلوں کی طرح ساری دنیا کے افق پہ منڈلا رہے تھے تو امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ تمسخرانہ انداز میں اسے موسمی نزلہ زکام قرار دے رہے تھے۔ بہرحال چین نے نہ صرف خود تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کیں بلکہ ساری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اگر اس وائرس سے پھیلنے والے موذی مرض اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں سے بچنا ہے تو سب جاگیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کئی ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ نے بر وقت اقدامات کیے اور ابھی تک خاصے محفوظ ہیں۔ ایران اور اٹلی نے بہت تاخیر کر دی اور اس کا نتیجہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔ ایران کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ عالمی پابندیوں کی زد میں ہے‘ کئی برسوں سے۔ اسے دنیا کے اقتصادی دھارے سے کاٹ دیا گیا ہے اور پھر تیل کی معیشت پہ زیادہ تر انحصار نے اس کی قومی استعداد اور وسائل کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس اٹلی ترقی یافتہ ملک ہے لیکن وہاں کے زعما غفلت میں رہے اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وبا ملک کے اکثر حصوں میں‘ خصوصاً کئی دوسرے مغربی ممالک میں پھیل گئی۔
آج پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ ہوا اور پانی نہیں‘ نہ ہی آندھیاں اور طوفان اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ آدمیوں سے آدمیوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں‘ یعنی ایک سے دوسرے کو لگ رہے ہیں‘ بیمار کر رہے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب ہزاروں کی تعداد میں ہوائی جہازوں کی پروازوں اور لاکھوں کی تعداد میں روزانہ انسان دنیا کے کونے کونے میں سفر کر رہے ہوں‘ وبا کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پھیلنے سے روکنا ممکن نہ تھا۔ دنیا وہ اقدامات کرنے کے لیے ہرگز ذہنی طور پر تیار نہ تھی‘ جو اب دو اڑھائی ماہ بعد کیے جا رہے ہیں۔ اب سفر کرنے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں‘ اور اب ویسے بھی لوگ اس قدر خوف میں مبتلا ہیں کہ بغیر ضرورت گھروں سے بھی نہیں نکل رہے ہیں‘ دوسرے کسی ملک میں جانا تو دور کی بات ہے۔
میرے نزدیک ایسے اقدامات‘ ذاتی طور پر اور قومی سطح پر درست اور دانش مندانہ ہیں۔ وقت اچانک تبدیل ہو گیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پوری دنیا ہمارے سامنے کچھ ہی ہفتوں میں بدل گئی ہے۔ آج کی دنیا چند ہفتے پہلے والی نہیں رہی۔ آج کسی بھی ملک میں کوئی جامعہ کھلی نہیں‘ کم از کم یورپ اور شمالی امریکہ میں تو ایسا ہی ہے۔ وطن عزیز میں سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کو چند روز کے لیے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے؛ تاہم یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ امریکہ میں تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ امریکہ کی جامعات در پیش آزمائش پہ پورا اتری ہیں۔ فوراً ہی انہوں نے کلاس روم کی جگہ کمپیوٹڑ کو دے دی۔ کچھ پروگرام پہلے سے ہی استعمال میں تھے‘ کہ گھر یا دفتر میں بیٹھ کر طالب علموں کو ان کی گھروں میں ہی درس دیا جا سکتا تھا اور ایسا اب بھی ہو رہا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں درس گاہوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اس وقت موجود مؤثر ٹیکنالوجی ذرائع کا استعمال کریں تاکہ طالب علموں کا وقت ضائع نہ ہو اور تعلیم کا عمل جاری رہے۔ یہ اتنا بھی آسان نہیں‘ لیکن یہ اساتذہ اور انتظامیہ کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے اور ذمہ داری ہے کہ درس و تدریس کے سب تقاضے بھی پورے ہوں اور معیار بھی قائم رہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی بڑی اور مشہور جامعات پہلے ہی سے آن لائن کورسز کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارے ملک میں سب طالب علموں کے پاس ذاتی کمپیوٹر نہیں ہیں اور یہ صورتحال آن لائن ایجوکیشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس کا متبادل فون کی صورت میں موجود ہے‘ جس پر لیکچر دیکھے بھی جا سکتے ہیں اور سنے بھی جا سکتے ہیں بلکہ موبائل فون کو کمپیوٹر کے ساتھ کنیکٹ کرکے پرنٹ وغیرہ بھی لیے جا سکتے ہیں۔
دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ کتنا جلدی کورونا وائرس کا علاج تلاش یا دریافت کرتی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک ماہ کے اندر کھربوں ڈالرز اس مرض کی تحقیق اور علاج معالجے کے لیے تفویض کیے گئے ہیں۔ کچھ ادویات کا آزمائشی طور پر استعمال شروع ہو چکا ہے۔ کہا اور سنا یہی جا رہا ہے کہ کم از کم ایک سال تک کا عرصہ درکار ہو گا۔ کوئی بات یقین سے تو نہیں کہی جا سکتی مگر جس طرح ماضی میں انسان نے وبائی امراض کا علاج تلاش کیا‘ اسی طرح اب کورونا کے مسئلے کا بھی کوئی حل لازمی نکل آئے گا۔
کورونا کا حل نکلنے سے پہلے کے حالات سب ممالک کے لیے بہت بڑی آزمائش ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں اور ہو چکے ہیں۔ ہوائی کمپنیوں اور ان سے وابستہ لاکھوں ملازمین کا کیا بنے گا؟ یہ تو صرف ایک صنعت یا ایک کاروبار کا معاملہ ہے۔ اسی طرح کے ہزاروں ادارے اور شعبے اور بھی ہیں۔ مغربی ممالک نے جو اقدامات اس بارے میں کئے ہیں‘ وہ قابل تحسین ہیں کہ صنعتوں کو سرکاری سرمایہ ملے گا تاکہ وہ کام جاری رکھ سکیں اور بے روزگار افراد کو بے روزگاری میں حکومت کی طرف سے معقول معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ کوئی شخص بے گھر نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی کو علاج معالجہ کی سہولت سے محروم کیا جائے گا۔ پہلے ہی سے ایسے قوانین موجود ہیں۔ وہی اقدامات وہاں ریاستیں کر رہی ہیں‘ جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران اور اس سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کے لیے کیے گئے تھے۔
ہمیں اگر 'کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘ تو بہت کچھ کرنا ہو گا۔ ریاست اور حکومت کو تیار ہونا ہو گا‘ عام آدمی اور معاشرے کو تیار کرنا ہو گا۔ ابھی عوامی سطح پہ وہ شعور اور ادراک وبا کے بارے میں پیدا نہیں ہوا۔ میڈیا اور حکومت تو اپنے طور پر اس بارے میں بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن ہر طرف جہالت کی ایسی گہری تاریکی ہے کہ کسی قسم کی روشنی زیادہ سفر نہیں کر پاتی۔ ایسے وقت میں ہمت تو نہیں ہاری جا سکتی‘ جہدِ پیہم‘ حوصلے اور معتبر قیادت وقت کی ضرورت ہیں۔ ذاتی اور سماجی سطح پہ ایثار‘ ہمدردی اور فلاح عامہ کا جذبہ‘ اور اس سے بڑھ کر انسانیت‘ نیک نیتی اور خدمت کی روایت اپنانا ہو گی۔ اس وقت تمام قومیں‘ ساری دنیا‘ امیر غریب‘ بندہ و آقا‘ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا۔