ایک زمانہ گزر گیا۔ وہ سب لوگ جن کے ساتھ ہم عیدیں منایا کرتے تھے‘ اب ہم میں نہیں ہیں۔ اپنی آخری منزل تک پہنچ چکے۔ بہت یادیں چھوڑ گئے۔ ان کی کہانیاں‘ واقعات‘ قربتوں کے لمس اور محبتیں اثاثے کے طور پر لئے پھرتے ہیں۔ عیدین کے موقع پر ذہن ان دنوں‘ مہینوں اور برسوں کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ زندگی کے اس حصے کے تمام نقوش اور رنگ کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی بہار کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ خاکسار پر احساسِ محرومی کے جذبات بھی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ سوچتا ہوں‘ تعلیم اور فکرِ معاش والدین سے اتنی دیر اور اتنا دور کیوں گھسیٹ کے کئی اور دنیائوں میں لے گئے۔ امریکہ تعلیم کے سلسلے میں اس دور میں گیا‘ جب ہمارے دیہات میں فون کی سہولت نہ تھی۔ والد صاحب کے خط کا ہمیشہ انتظار رہتا‘ لیکن میں تو کسی اور زندگی میں مصروف تھا۔ وقت بچا کر خط انہیں ضرور ڈالتا‘ مگر وہ بے قراری سے میرے خط کا انتظار کرتے تھے۔ کاش میں ان خطوط کو محفوظ رکھ سکتا۔ وہ خود نہیں لکھ سکتے تھے‘ کسی اور سے لکھوایا کرتے تھے۔ چالیس سال قبل جب تعلیم مکمل کرکے واپس آیا تو وہ خطوط انہوں نے سلیقے سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے‘ جو اب بھی میرے پاس موجود ہیں۔
یہ فقط میری کہانی نہیں‘ ہم سب کی کہانی ہے‘ جو وطنِ عزیز کے دور دراز کے علاقوں سے نکل کر بڑے شہروں کے کالجوں میں داخل ہوئے‘ اور پھر ہم میں سے کچھ نے لاہور کی جامعات کا رخ کیا۔ اس وقت تو پنجاب یونیورسٹی ہی تھی‘ اور کچھ مشہور کالج‘ جن میں دیگر اضلاع کے طلبہ داخلہ لیتے۔ ہماری وہ نسل ہے‘ جس کا رشتہ تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصے میں اپنے دیہات سے ٹوٹا نہیں۔ میں خود اور اپنے تمام دیہی دوستوں کو خوش نصیب خیال کرتا ہوں کہ وطن کی مٹی پہ باریابی کا موقع ملتا رہتا ہے۔ عیدین کے ایام میں پاکستان کے شہر تقریباً خالی ہو جاتے ہیں۔ معاف کیجئے گا ذرا مبالغہ آمیزی سے کام لے رہا ہوں‘ نئے شہری اپنے اپنے دیہات کو چلے جاتے ہیں‘ اصل شہری رہ جاتے ہیں۔ بہت اچھی روایت کہ کچھ دن عزیز و اقارب اور پُرانے دوستوں‘ سکول‘ کالج کے زمانے کے کلاس فیلوز سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔ سب تازہ دم ہو کے اپنے اپنے کاموں‘ تجارت اور نوکری پر واپس آ جاتے ہیں۔ یہ آنا جانا اور پُرانی رفاقتیں زندگی میں رنگ بھرتی ہیں۔ یہ اصول فطرت میں بھی کارفرما ہے۔ پرندے‘ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور دوسرے جانور بھی‘ جائے پیدائش کو‘ کہیں بھی ہو‘ لوٹ کر آتے ہیں۔ انسان بھی اپنی جائے پیدائش کو کبھی نہیں بھولتا۔
زمانہ بدل جائے تو انسان بھی بدل جاتا ہے‘ جو لوگ آج ہمارے معاشرے میں نئے شہروں میں رچ بس چکے ہیں‘ یا‘ وہ جنہیں دیہات کی فطری زندگی سے کبھی لگائو پیدا نہ ہوا‘ وہ اپنے ہی چھوٹے دائرے میں جہاں ہیں‘ وہاں خوش ہیں۔ ایک اور وجہ بھی ہے کہ اگر محور ہی نہ رہے‘ وہ لوگ باقی نہ رہیں‘ جن کی محبت اور سائے میں ہم نے بچپن گزارا‘ تو پھر ہم ہی محور اور ہمارا چھوٹا سا کنبہ ایک نیا یونٹ بن جاتا ہے۔ ترقی اور جدیدیت کی نئی معیشت سے پُرانا سماجی ڈھانچہ ہر ترقی پذیر ملک میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مغرب میں تو وہ وقت کی دبیز تہوں میں دفن ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ دہائیوں تک شاید ہماری نسل کا دیہی ماحول دم لے سکے۔ ہمارے دیہات بھی تو وہ نہیں رہے‘ تیزی سے شہری زندگی کا رنگ و روپ دھار رہے ہیں۔ یہ کہنے میں حرج نہیں کہ جو کچھ شہروں میں ہوتا ہے‘ دیہات میں بھی بعید از قیاس نہیں۔ سب اچھا اور سب برا کہ ذرائع ابلاغ‘ صنعت و تجارت اور سڑکوں شاہراہوں نے فرق اور فاصلے مٹا دیئے ہیں۔ اب عیدین کا ماحول‘ کھانے پینے کی اشیا‘ فیشن اور پہناوے‘ سب قومی رنگ اختیار کر چکے ہیں۔ کہیں کہیں وہی پُرانی روایات اور طرزِ زندگی ضرور نظر آتا ہے۔
جب تک والدین زندہ تھے‘ اور یہ خاکسار پاکستان میں ہوتا تو کم از کم ہم سویّوں والی عید یعنی عیدالفطر دیہات میں گزارتے۔ بچے چھوٹے تھے‘ پھر بھی راولپنڈی سے ملتان جانے والی تھل ایکسپریس پر شام کے وقت سوار ہوتے‘ صبح کوٹ ادو سٹیشن پر اترتے اور ملتان کی دوسری طرف سے آنے والی جیکب آباد پسنجر ٹرین کا چند گھنٹے انتظار کرتے۔ یہ ٹرین ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رکتی تھی۔ تقریباً بیس گھنٹے کے سفر کے بعد اپنے گائوں کے سٹیشن پر اترتے‘ اور اگلا ایک کلومیٹر یا اس سے کچھ زیادہ کھیتوں کے درمیان پگ ڈنڈیوں کا پُل صراط گزرتے ہوئے گھر پہنچ جاتے۔ والدین کو دیکھ کر سب تھکاوٹ دور ہو جاتی۔ جب اکٹھے ہوتے ہیں‘ بچوں کے کھالوں کو عبور کرتے وقت گرنے یا پگ ڈنڈیوں سے پھسل کر کھیت میں جا پڑنے کے کئی واقعات ہنسی مذاق میں دھرائے جاتے ہیں۔
ہمارا ریلوے کا نظام میاں نواز شریف کے زمانے میں زوال پذیر ہوا‘ اور ہوتا ہوتا آج کی حالت میں سسکیاں لے رہا ہے۔ تھل ایکسپریس تو چلتی رہی‘ لیکن جب سے ملتان جیکب آباد پسنجر بند ہوئی‘ ہمارا اس سمت ریلوے کا سفر بھی ختم ہو گیا‘ بلکہ عملاً بچوں کو اپنے آبائی دیہات ہر سال لے جانا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے‘ جب اسلام آباد آنے کے لئے کئی شہروں میں بسیں بدلنا پڑتیں‘ اپنی کوئی کار نہ تھی۔
ہمارے گھر میں والدہ محترمہ سویّاں خود بناتی تھیں۔ محلے کی سب عورتیں آٹا گوندھ کر لاتیں اور سب اکٹھے مل کر ہاتھوں سے گھمانے والی مشین سے سویّاں بناتیں۔ وہ مشین میں گندھا ہوا آٹا ڈالتیں اور مشین کا لیور گھماتیں تو سویّوں کے نرم گچھے نکلنا شروع ہو جاتے۔ وہ ان گچھوں کو بڑے سلیقے سے ہاتھوں میں لیتیں اور ایک صاف چادر پر‘ جو قریب ہی دھوپ میں چارپائی پر بچھی ہوتی‘ خشک ہونے کے لئے ڈالتی جاتیں۔ جب سویّاں سوکھ جاتیں تو ان کو کھجور کے پتوں سے بُنے ٹوکروں میں رکھ دیا جاتا۔ عید کی صبح ہم ان سویّوں کے انتظار میں رہتے۔ یہ سفید سوکھی ہوئی سویّاں ابلتے ہوئے پانی میں ڈالی جاتیں اور سب بزرگ خواتین کو علم ہوتا کہ کتنے ابالوں میں یہ پک جائیں گی۔ والدہ محترمہ تازہ کھانے پر زور دیتیں۔ پانی چھاننے سے نکل جاتا تو بھاپ اگلتی سویّاں تھال میں انڈیل لی جاتیں۔ ان پر تازہ مکھن ڈال کر ہاتھوں سے مکس کیا جاتا اور پھر اوپر شکر ڈال کر ان کو میٹھا کیا جاتا۔ اس وقت دورِ حاضر کی سفید چینی کہیں کہیں ملتی تھی‘ لیکن ہم اس کے کبھی عادی نہ تھے۔ عید کے روز صبح کے وقت سویّوں کے علاوہ کچھ اور نہ کھاتے تھے۔ ہمارے دیہات میں ہر جگہ‘ ہر گھر اور ہر علاقے میں سفید خود تیار کردہ سویّوں کا رواج تھا۔ نئے اجلے کپڑے سب کے لئے بنتے تھے‘ غریب ہو یا امیر‘ کم از کم کرتا ضرور نیا ہوتا۔ عطر لگانے کا بھی رواج تھا۔ ایک پنبہ کان میں رکھ کر عید کی نماز پڑھنے کے لئے ایک مختص کھلے میدان کو نکل جاتے۔ آتے جاتے‘ راستے میں سب پُرانے دوستوں اور عزیزوں سے گلے ملتے۔ پورا دن محفلوں‘ خوش گپیوں میں گزرتا۔ ایک دوسرے کے ہاں جا کر مزید سفید ابلی ہوئی سویّوں کا مزہ لیتے۔
کاش وہ دن لوٹ آتے۔ جانے والے واپس آ جاتے۔ وہی عیدیں ہوتیں اور وہی رونقیں۔ بہت عرصہ گزر گیا ہے‘ میں اپنے گائوں میں عید کے لئے نہیں جا سکا۔ تڑپ اس موقع پر ضرور رہتی ہے‘ لیکن کیا کریں‘ وقت نے پائوں میں کئی زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ اس دفعہ تو پکا ارادہ تھا کہ زنجیر توڑ کر ضرور جنم بھومی کی زیارت کروں گا‘ مگر وبا نے پابند کر رکھا ہے۔ ابلی سفید سویّاں اب بھی عید کی صبح میز پر ہوتی ہیں‘ مکھن بھی اور تھوڑی سی شکر بھی۔ ایک گزرے ہوئے زمانے کی یادیں۔ ہم سب وقت کے قیدی ہیں۔ گردشِ ایام کو کوئی قابو میں رکھ سکا ہے‘ نہ شب و روز کے آنے جانے اور موسموں کی تبدیلی کو۔ اور ان تبدیلیوں میں سبق یہ ہے کہ زمانے کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہونا فطری بات ہے۔