ظلم‘ جبر اور طاقت کا وحشیانہ استعمال اس خطے میں کشمیر کے علاوہ شاید ہی کسی ایسے محدود علاقے میں ہوا ہو۔ ایک سال سے وادی کے لوگ گھروں میں بند ہیں۔ ان کا دنیا سے رابطہ کبھی کبھار ہی قائم ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تجارت اور معیشت‘ دونوں تباہ ہو چکے ہیں جبکہ معاشرت پر بھی نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس علاقے کی مسلمان اکثریت بھارتی استبداد کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی نہیں تھی۔ کبھی ہو بھی نہیں سکتی۔ نسل در نسل انہوں نے آزادی کے خواب دیکھے‘ اور صرف خواب ہی نہیں دیکھے‘ اس کے لئے عملی جدوجہد کی لازوال مثال بھی قائم کی ہے۔ مزاحمت ہی مزاحمت نظر آتی ہے کہ اس کے سوا سب راستے اجتماعی خود کشی کی طرف جاتے ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ کے خاندان اور کشمیریوں میں ان کی ایک وقت پہ مقبولیت اور مقام کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ وہ اور دیگر کشمیری رہنما مہاراجہ کشمیر کے خلاف جدوجہد کا آغاز بھارت اور پاکستان کے آزاد ہونے سے ایک دہائی سے بھی پہلے سے کر چکے تھے۔ اقلیت‘ اور اقلیت میں سے بھی صرف ایک ڈوگرہ خاندان ریاست پر قابض تھا۔ کیسے ڈوگروں نے انگریزوں سے کشمیر حاصل کیا‘ سازشوں اور دھوکہ دہی کی وہ ایک الگ داستان ہے۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کو چکمہ دے کر بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس وقت شیخ عبداللہ مہاراجہ کی قید میں تھے۔ بھارتی وزیر اعظم نہرو کی شیخ عبداللہ سے گہری دوستی تھی۔ یہ بھی متنازع امر ہے کہ بھارتی فوجیں پہلے ریاست میں داخل ہوئیں یا الحاقی دستاویز پر مہاراجہ نے پہلے دستخط کئے تھے۔ نہرو کی پہلی شرط یہ تھی کہ نہ صرف شیخ عبداللہ کو رہا کیا جائے بلکہ فوری طور پر ریاست کا وزیر اعظم بھی بنا دیا جائے۔ اور پھر یہی ہوا۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت کی کہ یہاں سے دخل اندازی کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی لشکر کشمیریوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ اور بھارتی فوج کے خلاف لڑے‘ بھارتی وزیر اعظم اسی سے خوف زدہ ہو کر سلامتی کونسل پہنچ گیا تھا۔ اور جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تجویز رکھی کہ جموں و کشمیر ریاست میں استصوابِ رائے کرایا جائے‘ یعنی کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے تو پنڈت جواہر لال نہرو فوراً مان گئے‘ اور اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک ٹیلی گرام بھی بھیجا تھا کہ جونہی حالات بہتر ہوں گے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے کرایا جائے گا۔ حالات آج تک ٹھیک نہیں ہو سکے۔ رائے شماری کی تجویز پنڈت نہرو نے اس لئے مان لی تھی کہ انہیں یقین تھا کہ شیخ عبداللہ اپنی مقبولیت کے سہارے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرا دیں گے۔ جموں اور کشمیر کے اندر زمینی حقائق تبدیل ہو چکے تھے اور بھارت نے جب دیکھا کہ نتائج اس کے حق میں نہیں آئیں گے تو رائے شماری سے صاف انکار کر دیا‘ بلکہ پینترا بدلا کہ ریاست میں انتخابات کو ہی رائے شماری لکھا اور پڑھا جائے گا۔
شیخ عبداللہ کو اپنی غلطیوں کا اس وقت احساس ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ بھارتی آئین کی جب تیاری ہو رہی تھی تو کشمیر کی حیثیت کے بارے میں بھی سوال اٹھے تھے اور شیخ صاحب کو یقین تھا کہ وہ بھارت کے اندر ایک خود مختار ریاست کا وجود منوا سکیں گے۔ اس مخصوص شق‘ جو اب مودی سرکار نے متروک قرار دے دی ہے‘ کے بارے میں جو سمجھوتہ ہوا تھا‘ اگلے دن آئین ساز اسمبلی نے لفظوں کے ہیر پھیر سے اس کی حیثیت کو کم کر دیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا‘ کہ آئینی ترمیم کے ذریعے نہیں بلکہ صدارتی حکم سے کشمیر کی ریاستی حیثیت کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایک وقت آیا‘ جب شیخ عبداللہ نے کوشش کی کہ وہ جموں و کشمیر ریاست کو جواہر لال نہرو سے بات چیت کر کے‘ کچھ اندرونی دبائو پیدا کر کے اور پھر بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل کر کے خود مختار حیثیت دلا دیں۔ انہوں نے پندٹ جی سے اس بارے میں دوستانہ انداز میں بات چھیڑی تو انہوں نے کہا کہ میرے دوست‘ کوئی ایسی کاوش کرنے کی کوشش کی تو ہم ''آپ کے گلے میں سونے کی زنجیر پہنا دیں گے‘‘۔ اس کا ذکر شیخ صاحب نے اپنی سوانح عمری ''آتشِ چنار‘‘ میں کیا ہے۔ شیخ صاحب کی طرف سے اصرار زیادہ ہوا اور ضد بڑھی تو انہیں اپنے کسی گھر میں کئی برسوں تک بند کر دیا گیا۔ تمام سہولتیں مہیا تھیں‘ سونے کی زنجیر کے ساتھ‘ مگر آزادی اور اقتدار سے برسوں وہ محروم رہے۔ جب دوبارہ اپنی پُرانی نوکری اور تنخواہ پر راضی ہوئے‘ اور یہ غالباً سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہوا‘ تو سب کھوئی ہوئی چیزیں انہیں واپس مل گئیں‘ مگر کشمیر اور کشمیری ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
بعد کے ادوار میں ان کا خاندان اور ان کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس الحاق رکھ کر بچی کھچی خود مختاری کو محفوظ کرنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ دریں اثنا متعدد بھارتی حکومتیں قوانین اور پالیسیاں ایسی بناتی رہیں کہ کشمیرکا انفرادی تشخص اور آئینی حیثیت تحلیل ہو جائے۔ مقبوضہ علاقوں کے کشمیری عوام ان پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے اور متبادل سیاسی قیادت کی طرف بھی مائل ہوئے۔ پھر یہ ہوا کہ بھارتی حکومتوں کی وساطت سے کشمیر کے نام نہاد انتخابات میں دھاندلیاں ہونے لگیں تاکہ من پسند سیاسی طاقتیں برسر اقتدار آئیں۔ یہی عوامل تھے کہ نوجوان کشمیریوں نے مقتدر کشمیری خاندان اور بھارتی حکومت کے خلاف جدوجہد کو نیا رخ دے کر ایک نئے مقام پر پہنچا دیا۔ بھارت نے فوج کشی‘ مار دھاڑ‘ پکڑ دھکڑ جیسے تمام سامراجی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے‘ لیکن وہ کشمیری عوام کی سوچ کو نہ بدل سکا۔ کشمیریوں کا جذبۂ حریت آج بھی زندہ اور قائم دائم ہے۔ جس دوران یہ مزاحمت جاری تھی‘ میرا کسی کانفرنس کے سلسلے میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ کشمیر کی کسی جامعہ کے ایک استاد بھی کانفرنس میں شریک تھے۔ ان سے تنہائی میں ملاقات کی درخواست کی اور وہ آمادہ ہو گئے۔ کشمیر کی اس وقت کی اندرونی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔ سب باتیں کرنے کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘ کچھ بھی کر لے حالات قابو میں نہیں رکھ سکے گا۔ تب سے انہی حالات میں کشمیریوں کی تیسری نوجوان نسل اپنے حقوق کی جنگ میں میدانِ عمل میں ہے۔ مرد عورتیں اور بچے بوڑھے سب اٹھ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب ایک خاندان کی حیثیت سے جلوس نکالتے اور سڑکوں پر چلتے ہوئے آزادی کے لئے نعرے بلند کرتے ہیں اور بھارتی فوج ان نہتے مظاہرین پر گولیاں برساتی ہے۔
احتجاج تو مزاحمت کی صرف ایک صورت ہے۔ کشمیریوں کی مزاحمت کے اب کئی رنگ اور کئی جہتیں ہیں۔ یہ مزاحمت شاعری‘ ادب‘ لوک کہانیوں‘ سماجی بیانیے‘ گیتوں اور موسیقی تک میں نظر آتی ہے۔ ہاتھوں سے مزاحمت ہو تو نظر بھی آتی ہے اور کچل بھی دی جاتی ہے‘ لیکن جب یہ دلوں میں اتر جائے اور شاعر‘ ادیب اور معلم کی زبان بن جائے تو اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ بھارت کے پاس فقط ایک بڑی ریاست کی بڑی فوج اور ہر ظلم کر گزرنے کے گھنائونے منصوبے اور قبضہ گیری ہے۔ اس سے دل اور دماغ نہیں جیتے جا سکتے اور ہر ظلم کے بعد آزادی کی تڑپ کا بڑھنا فطری بات ہے۔
تاریخ کا فیصلہ اتنا جلد نہیں ہوتا۔ کشمیر کا تنازعہ ا بھی زندہ ہے‘ کشمیریوں کی جدوجہد کمزور نہیں ہوئی‘ زیادہ طاقتور ہو کر ابھری ہے۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ جس ملک میں جائیں‘ جہاں رہیں‘ ان کی شناخت‘ قومیت اور جذبۂ آزادی زمان و مکان تبدیل نہیں کر سکے۔ کشمیر اور کشمیریوں کو کیوں بھولیں، وہ آج بھی ہیں اور کل بھی ہوں گے۔