آئینی طور پر سب اکائیاں برابر ہیں‘ ایوانِ بالا میں چھوٹے بڑے میں کوئی امتیاز نہیں۔ وفاق میں دستور یہی ہوتا ہے۔ آبادی کی بنیاد پر نمائندگی ایوانِ زیریں‘ ہماری قومی اسمبلی‘ میں آبادی کے لحاظ سے ہوتی ہے اور سب سے زیادہ طاقت بھی ہر نظام میں عوام کی نمائندہ اسمبلی‘ کانگریس یا ایوانِ نمائندگان کو تفویض کی گئی ہے۔ پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کے نصف سے زیادہ ہے۔ پورے جنوبی ایشیا کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس صوبے کی شہری آبادی کا تناسب نا صرف زیادہ ہے بلکہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ صنعتی‘ معاشی اور سماجی ترقی کا موازنہ دیگر صوبوں سے کریں تو بھی پنجاب کا تناسب زیادہ ہے۔ آزادی سے پہلے ہی یہ خطہ دیگر علاقوں سے آگے نکل چکا تھا۔ ابھی تک اس کی ترقی اور خوشحالی کا معیار بہتر نظر آ رہا ہے۔ یہاں مقصد پنجاب کی موجودہ یا تاریخی لحاظ سے نکھری صلاحیتوں یا ورثے کا ذکر نہیں‘ نہ ہی اس کی رنگین اور توانا ثقافت کا دیگر صوبوں کی تاریخ‘ ثقافت اور ورثے سے موازنہ درکار ہے۔ سبھی صوبے اپنے طور پر دلچسپ‘ اعلیٰ اور گہرے سنہری نقوش رکھتے ہیں۔ اصل طاقت پنجاب کا تختِ لاہور ہے۔ مملکتِ پاکستان کا تاج اسی کے سر سجتا ہے‘ جس کی رسائی میں تختِ لاہور ہو۔ شریف خاندان نے پنجاب کے سہارے پاکستان پر بلا شرکتِ غیرے دہائیوں تک حکومت کی۔ صرف پنجاب کی نہیں‘ سارے ملک کی دولت ایسے سمیٹی کہ موجودہ اور آنے والے سپوتوں کیلئے سونے کے پہاڑ بنا ڈالے۔ ان کا حریف‘ سندھ کا نامور خاندان ہاتھ ملتا رہ گیا‘ کہ شہرِ اقتدار تو نصیبوں میں تھا‘ مگر پنجاب قبضے میں نہ آ سکا۔ کبھی ہاتھ مارا بھی تو تھوڑی دیر کیلئے‘ یا طفیلی اتحادیوں کے کندھے استعمال کئے۔ ذوالفقار علی بھٹوکی بات اور تھی‘ وہ تو سارے پاکستان کے جمہوری مگر مزاجاً اور عملی طور پر بادشاہ تھے۔
ضیاالحق صاحب نے پنجاب شریفوں کے حوالے کیا جن کا کسی سیاسی گھرانے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نہ ہی وہ کبھی سیاست میں رہے تھے‘ سوائے ایک پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے کے‘ اور نہ ہی ان کا اس خطے کے زمیندار حکمران طبقے سے کوئی تعلق تھا۔ اب سنا ہے‘ وسیع و عریض زمینوں کے بھی مالک ہیں۔ اقتدار ہاتھ لگ جائے تو بندہ جلدی سیانا ہو جاتا ہے‘ بلکہ دانائوں کا دانا بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ میاں نواز شریف کا کمال یہ ہے کہ وہ پنجابی سیاست کی پہلوانی کے سب دائو پیچ کچھ مہربانوں کی مدد سے اور زیادہ تر لین دین کے ذاتی تجربے کی روشنی میں سیکھ گئے تھے۔ پنجاب ہو یا کوئی اور صوبہ یا علاقہ‘ گُر یہ ہے کہ ہر ضلع کے زمیندار‘ موروثی سیاسی گھرانوں کا اتحادی حلقہ پیدا کیا جائے۔ ان زمیندار گھرانوں میں گدی نشین‘ پیر‘ قبائلی سردار اور ذات برادریوں کے وڈیرے شامل ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ذاتی صلاحیت‘ قابلیت اور حقیقی عوامی زور پر ابھرنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ قبل ازیں بھٹو اشتراکی نعروں سے فارغ ہوئے تو ان گھرانوں کو ساتھ ملانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے رہے۔ شک ہو تو 1977 کے انتخابی امیدواروں کے ناموں پر غور فرما لیں۔ زمیندار سیاستدانوں سے زیادہ سیانے کم ہی دیکھے ہیں۔ سماجی تعلقات قائم کرنے اور جس میں فائدے کی بات ہو‘ اسے دائمیت دینے کا ہنر صرف انہیں آتا ہے۔ ہمیشہ نرم گفتگو‘ ملنے میں گرمجوشی‘ ڈیرے داری اور بغل گیری میں مرحوم صدر ضیاالحق اپنی مسکراہٹ ملا کر بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جانکاری کا دعویٰ تو نہیں کرتا‘ مگر میرا خیال یہ ہے کہ ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں تعیناتی کے زمانے میں یہ فن ہمارے محترم زمیندار حکمرانوں سے کسب کیا تھا۔
یہ لوگ جب گٹھ جوڑ‘ گروہ بندی اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں تو ہوا کا رخ دیکھ کر۔ یہ بھی آزما کر دیکھ لیں اور اپنے حلقے کے اکابرین کی تاریخ کا طائرانہ سا جائزہ ہی لے لیں‘ انہوں نے سب نہیں تو دو چار سیاسی جماعتوں کے نلکوں کا پانی ضرور پیا ہو گا۔ نظریات کی باتیں دیوانے کرتے ہیں اور اخلاقیات کے درس احمق دیتے ہیں۔ ہمارے صحافی بھائی بھی تبصروں میں سیاست کو مفادات سے متشابہ کرتے ہیں۔ میں بھی اس قبیلے کا باقاعدہ تو نہیں‘ لیکن کالم نگار کی حیثیت سے دور کا تعلق دار ہوں‘ لیکن آئینی‘ جمہوری اور نظریاتی سیاست‘ جذبۂ خدمت‘ وطنیت اور اعلیٰ انسانی قدروں کے حوالے سے۔ خیر یہ تو خیالی باتیں ہیں‘ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ وطنِ عزیز میں عملاً سیاسست کیا رنگ بکھیرتی ہے۔ ستر برسوں میں کئی رنگ دیکھ چکے ہیں‘ لیکن ذاتی مفاد‘ اقربا پروری‘ صف بندی‘ ٹکرائو اور سیاسی وفاداریاں کرہ ارض کے شمالی قطب کی تیز ہوائوں کی طرح بدلنے کا رنگ ہمیشہ غالب رہا ہے۔ کچھ سیاسی ماہرین نے اندازہ لگا رکھا ہے کہ پاکستان کے تقریباً چار سو یا اس سے کچھ زیادہ سیاسی خاندان ہیں‘ جو پاکستان کی انتخابی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ میرا اندازہ ذرا مختلف ہے‘ یہ خاندان تین سو سے بھی کم ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع میں سیاسی خاندانوں کا راج قائم ہے۔ اقتدار میں نہ بھی ہوں‘ اثر قائم رہتا ہے‘ حکومت میں ہوں تو انداز بدل جاتا ہے۔
پارلیمانی نظام میں اراکین اسمبلی کی اہمیت قانون سازی تک محدود نہیں۔ ویسے بھی وہ اس کام میں دلچسپی کم ہی دکھاتے ہیں۔ قانون اور پالیسی حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا مقصد صوبے اور خصوصاً اپنے ضلع میں نوکر شاہی کو زیرِ اثر رکھنا‘ تقرر اور تبادلے کرانے اور سب سے بڑھ کر ''ترقیاتی‘‘ کاموں کے پُرزور مطالبے کرکے ضروری‘ غیر ضروری کاموں کیلئے خطیر رقم منظور کروانا ہے۔ رواج دراصل 1985 کی غیر جماعتی اسمبلی سے پڑا۔ نئے لوگ خاصی تعداد میں منتخب ہوکر آئے تھے۔ ان کے قدم جمانے اور روایتی سیاسی خاندانوں کے مقابل انہیں کھڑا کرنے کیلئے ''ترقیاتی‘‘ فنڈز استعمال کئے گئے۔ ''کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘‘ کا رواج تب پڑا تھا‘ اور یہ صرف ایک سیاسی خاندان تک محدود نہیں۔ میں نے تو پنجاب میں ہر دور میں ''ترقیاتی‘‘کاموں کی حالتِ زار دیکھی ہے‘ آپ بھی کہیں جاکر معائنہ کرسکتے ہیں۔ لگتا کم اور کھایا زیادہ جاتا ہے۔ یہی تووجہ ہے کہ پنجاب کے سیاسی گھرانے اقتدار کی سیاست کرنے کے عادی ہیں‘ بھاڑ میں جائیں نظریات‘ سیاسی وفاداری یا خالی خولی اصول پسندی۔
تحریکِ انصاف نے پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے کچھ مختلف نہیں کیا۔ نظریات کو دیکھیں تو گجرات کے بڑے سیاسی گھرانے کے تحریکِ انصاف کا اتحادی بننے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کپتان تو ہم سے بہت کچھ زیادہ ان کے بارے میں جانتے ہیں‘ صحافی تو خبر رکھتے ہی ہیں‘ خاموش رہیں تو اور بات ہے‘ مگر ہمارے جیسے سیاسی گھرانوں کو دور سے دیکھنے والے بھی کچھ کرداروں کو کپتان کی صفوں میں دیکھ کر اُوب جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں پنجاب کے بغیر صرف وفاق اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنتی تو وہ گھیرائو میں رہتے۔ ایسی حکومت بنانے سے بہتر تھا کہ وہ حزبِ اختلاف میں بیٹھتے‘ اپنا زوردار بیانیہ اور واضح اکثریت حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھتے۔ ان کا خیال یہ بھی تھا کہ اقتدار مل گیا تو طاقت کے زور پر مثبت تبدیلی لائیں گے‘اور اگلے انتخابات میں اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ ممکن ہے ایسا وہ کر پائیں مگر پنجاب میں سیاسی خاندانوں کا غلبہ توڑنا اتنا آسان نہیں۔ حزبِ اختلاف ان کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ گجرات کے چودھری برادران کا ماضی سامنے رکھیں تو ان کے مستقبل کے فیصلوں کے بارے میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ کپتان کی پارٹی کے نظریاتی کارکن اور ہوا کا رخ دیکھ کر اگلا قدم اٹھانے والے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آتے۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ وابستہ سیاسی خاندان ابھی تک وہاں ٹکے ہوئے ہیں۔ کوئی واضح دراڑیں نہیں آ رہیں۔ وقت کم اور مقابلہ سخت بنتا جا رہا ہے۔ فیصلے کپتان کو کرنے ہوں گے۔ پنجا ب بدلے گا تو پاکستان بدلے گا‘ اور روایتی سیاست کے دھارے کا رخ بھی۔