"RBC" (space) message & send to 7575

سادگی اور محبت کی عیدیں

ایک زمانہ گزر چکا‘ اور بہت کچھ بدل گیا ہے‘ لیکن ان عیدوں کی خوشیوں کا سامان آج جیسے دنوں میں خوشبو کی مانند‘ بادِ نسیم کی صورت یادوں کے سب دریچے کھول کر در آتا ہے۔ تب شہر اور شہروں کی تنہا زندگی کا کوئی تصور نہ تھا۔ جہاں اب ٹھکانہ ہے‘ کئی عیدیں گزاری ہیں‘ ملاقاتیں ایک دو قریبی دوستوں تک محدود ہیں۔ کچھ تو دیہاتوں کو واپس چلے جاتے ہیں‘ دیگر ہماری طرح شہر میں محدود‘ مختصر حلقوں میں خوش رہتے ہیں۔ ایک زمانہ یہاں ایسا بھی تھا جب ہم دوستوں کے گھروں کا باری باری چکر لگاتے اور وہ بھی دوسرے‘ تیسرے دن ہمیں میزبانی کا شرف بخشتے۔ اب تو یہ حال ہے کہ سوائے چند گھروں کے اپنی گلی میں کسی کا معلوم نہیں‘ کون کیا ہے یا کہاں کام کرتا ہے۔ فراٹے بھرتی گاڑیوں میں دھول اڑاتے آتے جاتے کبھی نظر پڑ بھی جائے تو توجہ باہر لان میں گلاب کے پھولوں اور سبز گھاس کی پتیوں پر رہتی ہے۔ یہاں کا تہذیبی سلیقہ دیہاتوں سے مختلف ہے کہ کسی کی طرف آنکھیں پھاڑ کر یا نظر جما کر دیکھنا کسی کی نجی زندگی میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک بزرگ تھے۔ ان سے ہمیشہ پیار اور محبت کا رشتہ رہا۔ عید پڑھ کر آنے کے بعد گھر میں قدم رکھنے سے پہلے ان کے دروازے کی گھنٹی دباتا۔ وہ پہلے ہی انتظار میں ہوتے تھے۔ گلے ملنے کے بعد ان کے دیوانِ عام کی میز سویّوں‘ مٹھائیوں اور میووں سے بھر جاتی۔ آخر میں چائے کا دور چلتا۔ وہ ہمیشہ اپنی زندگی کی جدوجہد‘ بچپن‘ تعلیم‘ ملک اور دیگر ممالک میں نوکریوں اور سیروسیاحت کی تفصیلی تصویر کشی کرتے۔ اپنی زندگی کے اوراق پلٹنے میں بہت فیاض اور بیباک تھے اور میں پورے انہماک کے ساتھ ان کی گفتگو سنتا اور محظوظ ہوتا۔ کئی برس بیت چکے‘ وہ مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو چکے ہیں۔
میرے دوستوں کا حلقہ تو بہت وسیع ہے‘ مگر عید کے موقع پر شہرِ اقتدار شہرِ خموشاں بن جاتا ہے۔ ان کی بات میں وزن ہے کہ تم بھی اپنے گائوں چلے جایا کرو‘ شہر میں کیوں رہ جاتے ہو؟ ہر دفعہ ارادہ باندھتا ہوں‘ لیکن خاصے عرصے سے کسی عید پر اپنے گائوں نہیں جا سکا۔ ان مہینوں میں وطن سے دور چلا جاتا ہوں کہ فرصت کے کچھ دن اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ گزار سکوں۔ ان کی محبت زبردستی کھینچ کر لے جاتی ہے۔ اس سال تو سفری پابندیاں ہیں‘ وبا پھیلی ہوئی ہے اور ہر طرف سے تقاضا ہے کہ گھر پہ رہو ‘ گائوں جا کر کیوں خطرہ مول لیتے ہو؟ یہ سوچ کر کہ کتنے اچھے لوگ ہیں‘ جو ہماری صحت اور عافیت کے بارے میں فکرمند ہیں‘ خاموش ہوکر قریب پڑی کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی بچے کو ڈرا دھمکا کر بٹھا دیا جائے۔ اب تو وقت کے ایسے دھارے میں ہیں کہ اپنی نہیں چلتی‘ دوسروں کی رائے کو فوقیت دینا پڑتی ہے۔ من مانی کے دور گزر چکے‘حکم‘ احکام اب ماضی کے دھندلکے میں دفن ہو چکے ہیں۔ ہم درویش لوگوں کیلئے اپنی خوشی کسی ترجیح میں نہیں رہی‘ ہماری خوشی اب اس میں ہے کہ ہماررے ارد گرد کے لوگ خوش رہیں۔ زندگی نے جو سبق سکھائے ہیں‘ ان سے کئی اب طرزِ حیات کی کیفیت پیدا کر چکے ہیں کہ عزیزوں‘ دوستوں اور ہمسایوں کو ہمیشہ خوش رکھو‘ اختلاف بھی ہو تو جھینپے رہو‘ بحث مباحثے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نرم بات کرو‘ دوسروں کی بات سنو اور پوری سنجیدگی اور احترام سے۔ دیکھا ہے کہ لوگ اپنی بات کرنا چاہتے ہیں‘ کسی بھی محفل میں دیکھ لیں‘ آپ توجہ سے سنیں‘ انہیں موقع دیں اور جہاں تک ممکن ہو کچھ تائیدی اور تعریفی جملے بھی کہہ دیں۔ لوگوں کو خوش رکھنے میں جو خوشی ہے کسی اور عمل میں شاید آپ نہ پائیں گے۔
یادوں کا کیا کریں کہ عید کے دن ایک لشکر کی طرح ذہن میں پڑائو ڈال دیتی ہیں۔ چاند رات سے لے کر کئی دنوں تک ظاہر میں کچھ بھی کروں‘ ذہن ان کے سامنے ہتھیار ڈالے سرگوشیاں کرتا رہتا ہے۔ ٹیلی پٹی کی صورت گزرے ہوئے وقتوں کی عیدوں کی تصویریں آنکھوں میں سجی رہتی ہیں۔ اس خاکسار نے اس زمانے میں آنکھ کھولی اور ایک ایسی جگہ جہاں مارکیٹ اور اشیا سے بھری دکانوں کا تصور تک نہ تھا۔ دور دراز تک پیلوں کے درختوں کے سینکروں سال پُرانے جنگلات تھے۔ تین منزلہ مکانوں سے بھی بلند تر۔ چند میل کے فاصلے پر دریائے سندھ بہتا تھا‘ اور اس کے کنارے پرانا شہر بھاگسر تھا۔ بیس پچیس دکانوں پر مشتمل ایک بڑے قصبے کو ہم شہر ہی کہتے تھے۔ ہماری اپنی آبادی چند گھروں پر مشتمل تھی۔ کئی ایسی بستیاں‘ جہاں تقریباً ایک ہی خاندان کے لوگ رہتے تھے‘ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آباد تھیں۔ اس وقت بھی عید کے موقع پر سب نہیں تو اکثر لوگ نئے کپڑے بنواتے۔ سال میں دو ہی ایسے مواقع آتے یا شادی بیاہ کے دنوں میں ایک ایک جوڑا بنوا لیا جاتا۔ عید سے کئی دن پہلے تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ ہماری خواتین بھاگسر سے کئی قسم کے رنگوں کی پڑیاں خرید کر لاتیں‘ دوپٹے رنگتیں اور چُنیاں بھی خود تیار کرتی تھیں۔ کپڑے سینے والی مشین اور درزی بہت محدود تھے۔ اکثر گھروں میں کپڑے ہاتھ سے سیئے جاتے تھے۔ سگھڑ خواتین تھیں۔ دوپٹوں پر گوٹے کا کام کر لیتیں اور کرتوں پر قوسِ قزح کے رنگوں میں کڑھائی کرکے گلدستے بنانے میں ماہر تھیں۔ بچوں کیلئے کشیدہ کاری والے کرتے تیار ہوتے تھے‘ جو سفید ریشمی دھاگے سے بنائے جاتے۔ مشہور ملتانی اور بہاولپوری کڑھائی دار سفید ململ کے کرتے ہماری روایات میں سے ہیں۔ اس زمانے میں ننگے سر رہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ کسی نوجوان کو جرأت نہیں تھی کہ پگڑی کے بغیر گھومے۔ کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ ننگے سر کسی دوسرے کے گھر یا کسی اور بستی میں جا سکے۔ پگڑی عزت کا نشان تھی۔ عید آنے سے پہلے ململ کی سفید پگوں کو رنگ کیا جاتا اور کلف لگایا جاتا۔ میرے والد محترم نے اپنی ساری زندگی سفید پگ سر پر رکھی۔ وہ اپنی پگ کو ایک مخصوص انداز میں بل دیتے تھے۔ ہمارے ہاں بلوچی طرز کی بھاری پگوں کا رواج تھا۔ میری خواہش ہوتی کہ میری پگ پیلے رنگ کی ہو۔ ہم تو سکول بھی ننگے سر نہ جاتے کہ آداب کے خلاف تھا۔
عیدالفطر کو دیہات میں سویّوں والی عید سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یہ تو شہر میں آ کر معلوم ہوا کہ یہ عیدالفطر ہے‘ لیکن میں اب بھی اسے سویوں والی عید ہی کہتا ہوں۔ بچپن میں سویّاں بستی کی سب عورتیں مل کر تیار کرتی تھیں۔ یہ کام کئی مراحل میں ہوتا۔ دانے گھروں میں پتھر کی چکی پر پیسے جاتے۔ یہ مشقت ہر عورت صبح سویرے اٹھ کر ہر روز کیا کرتی تھی۔ فجر کی نماز سے ذرا پہلے شروع کرکے طلوعِ آفتاب سے پہلے پسائی کا یہ کام مکمل کر لیا جاتا تھا۔ سویّوں کیلئے اس آٹے کو ململ کے کپڑے کی چھاننی سے گزارا جاتا تھا۔ باریک آٹے کو گھنٹوں گوندھا جاتا اور پھر چھلنی دار لوہے کے بنے گلاس میں ڈال دیا جاتا‘ جو ایک مضبوط لکڑی سے کیلوں کے ساتھ جوڑا گیا ہوتا تھا۔ ایک لمبی لکڑی کے لیور سے آٹے کو دبایا جاتا تو سویوں کے لچھے نکلنا شروع ہو جاتے۔ اپنے تھالوں میں آٹا لئے عورتیں کئی دنوں تک سویّوں کی تیاری میں مصروف رہتیں۔ ساتھ ساتھ خوش گپیاں اور ہنسی مذاق بھی جاری رہتا۔
ہماری بستی میں میٹھے پانی کا کوئی کنواں یا نلکا نہیں تھا۔ دور دور سے ہم پانی لاتے اور عید کے موقع پر تو کہیں زیادہ مشقت کرنا پڑتی تھی۔ صبح صبح نہا کر نئے کپڑے پہنتے۔ اسی دوران ہماری سفید ابلی ہوئی سویّاں امی تیار کرکے تھالوں میں سجا رکھتیں۔ اسی صبح بلوئے گئے دودھ سے نکالا گیا تازہ مکھن بھاپ اڑاتی سویوں پر ڈالتے تو خوشبو چار سو پھیل جاتی۔ پسا ہوا گڑ یا شکر ڈالتے اور مزے لے کر کھاتے۔ بھاگسر عید پڑھنے کے بعد سارا دن کھیل کود میں مصروف رہتے۔ کہیں اور منتقل ہوئے تو ہماری یہ روایت قائم رہی۔ اب بھی میری عید سفید سویّوں سے شروع ہوتی ہے کہ یہ سادگی‘ پاکیزگی‘ نیک جذبوں اور محبتوں کی نشانی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں