ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں‘ ان کے بڑے ‘کرتا دھرتا‘ اور ہاتھ باندھے ان کے ارد گرد گھومتے ہوئے ہرکارے انتخابات میں کبھی اپنی ہار تسلیم نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ہمیں ہروایا گیا ہے ‘ نکالا گیا ہے ‘ اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا ہے۔ اشارے' خلائی مخلوق‘‘،''محکمہ زراعت‘‘ اور کبھی بیرونی طاقتوں کی طرف ہوتے ہیں۔ ہر حکومت کا حصہ رہنے والی سیاسی جماعتوں کا یہی طرہ ٔ امتیاز ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان بھی ان سے پیچھے نہیں۔ آج کل ان کا بیانیہ دیکھ لیں۔ ان کاوردِ زبان ہے کہ سازش ہوئی ہے اور اس کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے۔ ہمارا بھی خیال کچھ مختلف نہیں۔ ایوان کے اندر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی اگرچہ ماضی میں کئی کوششیں ہوئیں مگر اس بار کامیابی کا سہرا بادی النظر میں شریفوں اور زرداریوں کے سر ہے۔ کس نے کون سے پتے کھیلے ‘ کہاں کہاں سے تائید حاصل کی‘ آشیر باد کہاں سے ملی اور کس نے اس کارِ خیر میں کتنا حصہ ڈالا اور زیادہ ثواب کس کے حصے میں آیا‘ ان سب کی اہمیت کھو چکی۔ جو حقائق سامنے ہیں ان سے کسی کو انکار نہیں۔ عمران خان حکومت میں نہیں ہیں‘ اورجن کو وہ کئی برسوں سے جلسوں میں اچھے اچھے القابات سے یاد کرتے رہے ہیں‘ اب وہ ان کی جگہ سنبھال کر ان کے خلاف کیس بنارہے ہیں۔ کچھ ہونہ ہو‘ ہراساں کرنے میں کیا حرج ہے ؟ یہ تو ہماری سنہری روایات کا حصہ ہے۔ جب کوئی ریاستِ پاکستان میں تخت نشین ہوتا ہے‘ یا کردیا جاتا ہے تو اپنے سیاسی مخالفین کو کہاں چین سے رہنے دیتا ہے۔
با ت دراصل یہ ہے کہ سیاست کا کھیل قانون اور قاعدے کے مطابق کھیلا جائے تو بہتوں کا بھلا بالکل نہیں ہوسکتا۔ سبب یہ ہے کہ جیتنے والا ایک ‘ ہارنے والے کئی ہوتے ہیں۔ او ر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو ایوان میں واضح برتری حاصل نہ ہواور وہ اقتدار کی چھتری کے سائے میں آنے کے لیے بے قرار ہو تو مل جل کر حکومت بنائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نظریاتی ہم آہنگی یا ایک قومی منشور پر اتفاق ہونا ضروری نہیں۔ خود ہی سوچیں کہ تحریک انصاف ‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ بلوچستان کی بی اے پی اور گجرات کے سیاسی گھرانے میں کیا قدرِ مشترک تھی؟ اب عمران خان صاحب مانتے ہیں کہ مختلف سیاسی اجناس کو اکٹھا کرکے اقتدار کی کھچڑی پکانے سے بہتر تھا کہ وہ حزب ِاختلاف میں بیٹھ جاتے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ یہاں تو انواع و اقسام کے پرندے ہیں جو دانہ چگنے کے بعداُڑان بھرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ آج کل ان کی حکومت ہے ‘ اور جس طرح چل رہی ہے ‘ یا چلائی جارہی ہے ‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کپتان کا بیانیہ بھی کوئی پوشیدہ نہیں کہ یہ درآمدی حکومت ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بیرونی طاقت کے کردار کی کتنی حقیقت ہے۔ اور اگراندر کی باتوں ‘ جو بہتر ہے کہ اندر ہی رہیں ‘ کا حساب لگائیں تو اندرونی جوڑ توڑ کی کیا حقیقت ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے محرکات ‘ داخلی تضادات ‘ اقتدار کی رسہ کشی اور اشاروں پر ناچنے والے سیاسی ٹولوں کا کچھ معروضی جائزہ لینا ہوگا کہ حالات کس کے ساتھ بگڑے اور وہ اپنی کمزوری اور مخالفین کی طاقت کا درست اندازہ نہ کرسکے۔
یہ کچھ عام سی مثالیں حالیہ واقعات کے تناظر میں اس لیے دی ہیں کہ ہار ماننے کی روایت قائم کرنا فی الحال ہمارے جیسے معاشروں میں ممکن نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ انتخابی ادارے کمزور ہیں‘ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں ان پر ہمہ وقت چڑھائی کیے رکھتی ہیں۔موسم بے موسم یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایسے میں ان پر اعتماد کیسے قائم ہوگا؟ جیت جائیں تو انتخابات شفاف تھے ‘ ہار جائیں تو دھاندلی کی گئی۔ تضادات ‘ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دیکھیں کہ اسمبلیوں میں بھی بیٹھے ہیں‘ حکومتیں بھی بنا چکے ہیں‘ اور دھاندلی کا شور بھی مچاتے ہیں۔ اب کیا کہیں کہ اُنہوں نے حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی کے ضمیر جگائے ہیں۔ اگر مخالفین کی جیت تسلیم کرلی جائے تو ان کے سیاسی اقتدار کو جمہوری سند مل جاتی ہے۔ نہ ماننے سے اقتدار چھن نہیں جاتا مگر سیاسی عمل ‘ جمہوری روایات اورحکومت کی استعداد متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی گروہوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ سیاست تو بس خاندانی مشغلہ ہے۔ طاقت‘ شہرت اور دولت انسان کی تین خواہشات ایک ساتھ پوری ہو جائیں توکون یہ کھیل نہیں کھیلے گا؟اور پھر مظلومیت کا بیانیہ بھی تراشا جاسکتا ہے۔ ناانصافی اور حق مارے جانے کی دہائی دی جاتی ہے۔ اپنی صفوں میں بے چینی اور افراتفری کو قابو میں رکھنے کے لیے عوامی حمایت کے افسانے گھڑنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ہرترقی پذیر ملک میں ہر نئے انتخابات کے بعد انتخابات کی آزادی اور شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ آپس کی بات ہے کہ ایسے انتخابات شاید ہی کبھی ہوئے ہوں جن کے نتائج پر سب متفق ہوں اور واقعی آزادی اور شفافیت کا وہ معیار قائم کیا ہو جو پختہ جمہوریتوں میں کسی حد تک قائم ہوچکا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم بالکل ہی شفاف انتخابات چاہتے ہیں او ر ان میں عوام کے ہاتھوں اپنی کارکردگی کی پرکھ چاہتے ہیں تو مجھے بالکل یقین نہیں آئے گا۔ ہمارے ہاں ریاستی اور غیر ریاستی طاقت کے کئی مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ ان کی طاقت کا سب سیاسی کھلاڑیوں کو ادراک ہے۔ سب کو ان کی پشت پناہی درکارہے۔ اقتدار سے باہرہونے پر وہ واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سیاسی عمل کی خود مختاری‘ جمہوریت اور سیاسی کھلاڑیوںکی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔ وہ جو محاورہ ہے کہ بندوق کی نالی سے نکلنے والا دھواں گولی چلنے کی شہادت دیتا ہے ‘ ہمارے ہاں سیاسی حرکیات پر صادق آتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان تو نہیں آئے تھے ‘ شاید ہماری تاریخ کا کچھ مطالعہ اُنہوں نے کیا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کی کھیل کی مہارت کا اُن پر کوئی سحر ہوکہ 2020 ء کے صدارتی انتخابات کو متنازع بنا رکھا ہے۔ ہماری روایات کی پیروی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابات چوری کیے تھے۔ وہ روایت ٹوٹ گئی جب ہارنے والا فون اٹھا کر جیتنے والے امیدوار کو مبارک باد کا پیغام دیتا تھا۔ تاریخ میں دو امیدوار ایسے بھی تھے جن کے قومی سطح پر مجموعی ووٹوں کی تعداد جیتنے والوں سے لاکھوں میں زیادہ تھی۔ سازش کا نظریہ ہمارے ہاں تو بہت جڑ پکڑ چکا تھا‘ مگر اب امریکی جمہوریت کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہاں بھی اور دیگر ممالک میں عوام میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ جیتنے والوں کے حامیوں کے نزدیک بالکل شفاف تھے۔ ''ہم ہارے نہیں ‘‘ کابیانیہ تمام ممالک میں سیاسی تقسیم اور تنائو کی علامت اور وجہ بن چکا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں جمہوریت پر اعتماد جوکچھ ماضی میں تھا‘ تحلیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اس حد تک ہے کہ بھاڑ میں جائے جمہوریت‘ اب ملک اور ریاست کو بچایا جائے۔ میں اس لولی لنگڑی جمہوریت کے چلتے رہنے کے حق میں ہوں ‘ مگر اس گزارش کے ساتھ کہ جو ''نیوٹرل ‘‘ ہیں ‘و ہ اب پھر ہمیشہ نیوٹرل ہی رہیں۔ دوسرے ہمارے اکابرین بھی سہاروں کے بغیر چلنا سیکھ لیں۔ انتخابی عمل کو اتفاق اور ہم آہنگی سے شفاف اور قابل اعتماد بنائیں۔ خیر ہم تو درخواست ہی گوش گزار کرسکتے ہیں۔ باقی وہ جانیں ‘ ان کا کام جانے۔