بارشیں ہمارے آبائی علاقوں‘ راجن پور اور چولستان کے ریگستانوں میں کبھی کبھار ہوتی تھیں ۔ زندگی کے پہلے عشرے وہاں گزرے‘ آندھیاں اور اُڑتی مٹی کے بادل ‘ تپتی دھرتی اور اپنا جلتا ہوا بدن‘ گرمیوں کے موسم ابھی تک ذہن میں نقش ہیں ۔ ریڈیو پر خبروں میں سنتے کہ کہیں بارش ہوتی ہے ‘ ہمارا بھی دل کرتا کہ بارش ہو مگر ایسا وقت بھی دیکھا کہ جب کئی سال تک بارش کی ایک بوند تک نہ ٹپکی ۔ ہمارے ایک بزرگ بچوں کا شام کو جلوس نکالتے ‘ گھر گھر جا کر چندہ اکٹھا کرتے ‘ خیرات سے دو دیگیں پکتیں‘ دعائیں مانگی جاتیں کہ بارش ہوجائے ۔ یہ بھی کبھی کبھار رواج تھا کہ کئی سال خشک سالی رہتی تو ہمارے دیہاتی لوگ کسی مسکین سید کی تلاش میں نکل پڑتے اور اسے بارانی علاقے میں جسے ہماری مقامی زبان میں ''پٹی‘‘ کہتے ہیں ‘ باندھ آتے کہ جب تک بارش نہیں ہوگی‘ شاہ صاحب آپ یہیں بندھے رہیں گے ۔ مفروضہ یہ تھا کہ اس کی فریاد اور دعا سے آسمان ترس کھائے گا اور رحم کی بارش ہماری طرف پھیر دے گا۔ موسمی نظام کا دھارا ہماری طرف پلٹتا اور بارش شرو ع ہوتی تو شکرانے کی دیگیں‘ حلوے اور نجانے کس کس قسم کے جشن منائے جاتے ۔ بچپن میں جہاں ہماری ''ماڑی‘‘ یعنی دومنزلہ پکا مکان تھا‘ وہاں چھ ‘ سات میل کے اندر گھنا جنگل تھا۔ سینکڑوں سال پرانے ‘ جال ‘ جھٹ اور جراک کے درخت تھے ۔ ایک دوسرے سے اتنے ملے ہوئے کہ لوگ رات کو ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔ بار ش ہوتی تو ہم دیہاتی لوگ خرگوش کے شکار کیلئے دوڑ پڑتے۔ جنگل کا سلسلہ دریائے سندھ کے کنارے تک پھیلا ہوا تھا۔ بادل آسمان پر تیرتے آتے تو ہم خوشی مناتے کہ ٹھنڈک کا احساس پیدا ہوتا۔ آج بھی ‘ جہاں ہوں‘ بادل اُوپر نظر آئیں تو دل مچل اٹھتا ہے ۔ کیلیفورنیا میں زیر تعلیم تھا تو بادل بحر الکاہل سے امڈ آتے تواپنے دوستوں سے کہتا کہ کیا خوبصورت دن ہے ‘ سب میرامنہ تکنے لگتے ۔ کچھ دیر لگی سمجھنے میں کہ وہاں موسموں میں سب سے خوبصور ت دن ''سنی ڈے‘‘ ہوتا ہے ۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں سے قدرت کی طرف سے انسانوں ‘ حیوانوں ‘ پرندوں ‘ کیڑوں مکوڑوں کے لیے ایک فطری توازن کے ساتھ زندگی گزارے کا ماحول ہے ۔ میری اپنی ''ماڑی‘‘ والے جنگل میں سینکڑوں کی تعداد میں اونٹوں کے غول درختوں کے پتے کھاتے ‘ چلتے پھرتے تھے ۔ کچھ فاصلے پر اونٹ والوں کی بستیاں تھیں۔ دودھ بھی اُنہوں نے ہی بیچنا تھا‘ جو چاہتا ‘ اُن سے لے آتا۔ آج وہ درخت کہیں کہیں نظر آتے ہیں ۔ جنگل کاٹ دیے گئے ۔ ہماری بستیاں اجڑ گئیں۔ اونٹوں کی ٹولیاں غائب ہوگئیں۔ اپنی جنم بھومی ایک ڈھیر کی صورت موجود ہے ۔ وہاں کبھی بارش ہو تو کھنگر کے ٹکرے اٹھا لاتا ہوں کہ دھل کر سارے منظر صاف نظر آتے ہیں ۔ ہمارے پرانے رشتے او رروابط ابھی تک قائم ہیں‘ کسی سے اُونٹنی کے دودھ کی خواہش کروں تو کئی بوتلیں گھر پر کوئی مہربان پہنچا جاتا ہے ۔ بارانی علاقے جہاں بلوچستان کے کوہِ سلیمان کے سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہے ‘ وہاں قدرتی جنگلات 1970 ء کی دہائی میں غائب ہونے لگے تھے ۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں اونٹوں کی گلہ بانی کی جاتی تھی ‘ اب بھی کہیں کہیں سینکڑوں کے قریب نظر آجاتے ہیں‘ مگر چرا گاہیں بہت محدود ہو چکی ہیں ۔ اس علاقے کے قدرتی جنگلات رود کوہی کے سیلاب کے لیے قدرتی بند کا کام دیتے تھے ۔ پانی ٹھہر جاتا‘ کچھ جذب او ر کچھ ادھر اُدھر بہہ جاتا اور سیلاب کا زور ٹوٹ جاتا۔ یہ تباہی جو ہم دیکھ رہے ہیں ‘آپ کو پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے ‘ یہاں کبھی صرف درخت ہی درخت تھے ۔ پیلوں کا موسم آتا تو سینکڑوں کی تعداد میں مرد ‘ عورتیں اور بچے پٹی کے علاقے میں جاتے۔ خود بھی کھاتے اور بازاروں میں لا کر فروخت بھی کرتے ۔ اس سے روزگار بھی ملتا تھا۔ اونٹ پال لوگ‘ جنہیں ہم مقامی زبان میں جت کہتے ہیں‘ سوکھی لکڑیاں اکٹھی کرتے اور ارد گر د کے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں میں فروخت کرتے ۔ جنگل مقامی آبادیوں کے لیے قدرتی وسیلہ تھا۔ جنگل کا سلسلہ بلوچستان کی سرحد کی سمت ایک جگہ ختم ہوجاتا تھا ۔ وہاں سے زرخیز زمین کا وسیع سلسلہ شرو ع ہوجاتا جو آج بھی موجود ہے ۔ بارش ہوتی تو لوگ نہری علاقوں سے‘ جوار اور باجرہ کاشت کرنے اس موسم میں وہاں پہنچ جاتے ۔ اب بھی لوگ ایسا ہی کرتے ہیں مگر بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے ۔ اگرچہ زیر زمین پانی کھارا ہے پھر بھی لوگ سرسوں اور گندم کی فصل کاشت کرلیتے ہیں ۔ کہیں کہیں لوگ مستقل طور پر بھی آباد ہیں ۔
چولستان کا صحرا ہو یا کوہ سلیمان کے دامن میں پھیلے ہوئے وسیع چٹیل میدان‘ ان کی صبحیں ‘ شامیں اور راتیں اپنا سحر رکھتی ہیں ۔ اس کا اندازہ صرف وہی کرسکتے ہیں جنہیں فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے ۔ بچپن میں سردیوں کے موسم میں اس علاقے میں کئی ماہ گزارے۔ اب بھی وہاں جانا اور دن کا ایک حصہ گزارنا ویسا ہی معمول ہے جیسا دریائے سندھ کے کناروں پر ۔ یہ درویش آج تک سیر وسیاحت کی غرض سے کسی اور ملک نہیں گیا یہ اور بات ہے کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے پتا نہیں کتنے ملکوں کی سیر کرچکا ہوں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کے ہم طالب علمی کے زمانے سے عادی ہیں۔ شاید آپ میں سے کچھ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتو بتا دیتا ہوں کہ لاہور میں سینما گھروں میں جا کر فلم دیکھنے کا بہت رواج تھااور خوب مقابلے بازیاں چلتی تھیں۔جہاں ایک ہی ٹکٹ میں دو فلمیں دکھائی جاتیں وہاں اشتہار پر یہ چلتا کہ ''ایک ٹکٹ میں دو مزے‘‘۔ہماری سیاحت‘ اب جو کچھ بھی پاکستان میں بچ پایا ہے ‘اسی کیلئے موقوف ہے۔باہر جانے کا موقع جب ملتا ہے تو دو مزے لے لیتے ہیں۔ بلوچستان کی طرف سیلابوں کے ریلوں اور دریائے سندھ کے بپھرتے پانیوں کو میں نے دیکھا ہے‘ فصلیں تباہ ہوتی بھی آنکھوں سے دیکھی ہیں اور لوگوں کو بے گھر ہوتا بھی دیکھا ہے۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے وسیع پیمانے پر راجن پور سے لے کر سندھ کے جنوبی اضلاع تک تباہی مچا دی ہے۔ جو تصویریں آپ ان علاقوں کے لوگوں کی دیکھ رہے ہیں‘وہاں غربت‘ننگ و افلاس اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مٹی کے بنے گھر‘چند چارپائیاں‘کچھ بکریاں‘ ان بے حال لوگوں کے پاس اور ہے ہی کیا۔یہ متاع بھی اجڑ جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟سندھ اور جنوبی پنجاب کے حکمرانوں کے اطوار تو دیکھے ہیں اور حکومتوں کے کردار بھی۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے جنگل کیوں کاٹ دیے گئے؟ کوئی اور ملک ہوتا تو اینٹوں کے بھٹے والوں کو صدیوں پرانے ہرے بھرے جنگلات کاٹنے کی اجازت کیسے ملتی؟ اب تو تقریباًپچاس برس گزر چکے کہ سرکار کو چٹھیاں لکھی تھیں۔اونٹوں والے فریاد لے کر گئے تھے مگر ان کے کچھ بڑے بھی اس دھندے میں جیب گرم کرنے کیلئے شریک کار تھے۔ کاش ہم ان اجڑے علاقوں کے قدرتی وسائل اور فطرت کی ان رعنائیوں کے بارے میں کچھ لکھ پاتے جن سے فیض پانے کا ہمیں شرف حاصل ہے۔کل صبح وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو سندھ کے سیلاب کے مارے لوگوں پر اُڑتے دیکھا اور وہاں سے نیچے نظر دوڑائی اور ننگ دھڑنگ لوگوں کو بانہیں پھیلا کر امدادی سامان کیلئے ترستے دیکھاتو دو پاکستان اور دو پاکستانی نظر میں گھومنے لگے۔ سیلاب نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں غربت اور مفلسی کو اتنے حقیقی رنگ میں آپ کے سامنے رکھا ہے‘ مگراڑتے حکمرانوں میں دل کہاں‘ سوچ اور تدبر کہاں؟ مگر اجڑے دیاروں کی زمینی مخلوق ایک دن ضرور جاگے گی اور ہم دیکھیں گے کہ یہ حکمران اُڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔