"RBC" (space) message & send to 7575

یہ تو ہم کرسکتے ہیں

انسان ہوتو وہ کیا نہیں کرسکتا۔ سب کچھ ہمارے دائرہ ٔاختیار میں ہے۔ کون سی صلاحیت ہے جو قدرت نے اپنے وسیع خزانوں سے ہمیں عطا نہیں کی۔ تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت کے علاوہ ترجیحات کو ایک ترتیب کے ساتھ وقت کا پابند بنانے کی بھی۔ بگڑے ہوئے معاشرے‘ بیکار کی سیاست اور حکمرانوں کے کارناموں کا کتنی بار ذکرکریں۔ نیز ہم درویش ان کا بگاڑ ہی کیا سکتے ہیں ؟ مگر خاموش بیٹھنا بھی اپنی ذمہ داری سے انحراف ہے۔ ملک اور معاشرے سے وفا کا تقاضا ہے کہ ظلم‘ ناانصافی اور لوٹ مار کو آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے آواز‘ گرچہ کمزور ہی کیوں نہ ہو‘ جتنی بلند کرسکتے ہیں کرتے رہیں۔ فیصلوں اور ردعمل کی پروا اب نہیں رہی۔ خیر چھوڑیں‘ حکمرانوں کی باتیں‘ ان کے بیانات‘ طرزِعمل اور سچائی کا معیار دیکھ کر کسی اور دنیا میں نکل جانے کو‘ یا پھر اپنی چھوٹی سی دنیا میں کھو جانے کو جی چاہتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ نہ جانے وہ ریاست اور معاشرہ جس کے سنہری تصورات نے ہماری زندگیوں کا احاطہ کیے رکھا‘ وہ کبھی عملی شکل اختیار کرپائے گی یا بس یونہی خواب و خیال کی دنیا میں رہیں گے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو دنیا کو سنوارنے یااسے کسی مخصوص نظریے میں رنگنے کا خبط ذہن میں نہیں سوار کرنا چاہیے۔ جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے‘ بس اسے نبھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب اپنا کام کریں اور خوب سے خوب تر ہو تو یہ اس جانب عملی قدم ہے۔ ہم صرف گفتار کے غازی ہوں‘ عملیت دوسروں کی ذمہ داری پر چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
عام لوگوں کا رویہ کچھ ایسے ہی ہے۔ باتیں ہی باتیں‘ نصیحت ہی نصیحت‘ اور نکتہ چینی کااگر دنیا میں کہیں مقابلہ ہو تو ہم یہ میچ کم و بیش یک طرفہ مقابلے سے جیت جائیں۔ بار ہا دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی ہاتھ میں مائیک پکڑے بازار میں آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر اور بھنڈی کا نرخ پوچھ رہا ہے اور راہ چلتے لوگوں کی رائے لے کر یہ تاثر بڑھا رہا ہے کہ سبزی مہنگی ہوچکی ہے۔ دیگر اشیا کی گرانی کا بھی ذکر ہوگا۔ عشروں سے ہم یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ فریاد کہ حکومت نے ہمیں مار دیا۔ یہ مہنگائی والے بیانیے سے یاد آیا کہ یہ کس نے کس کے خلاف بنایا تھا؟ روزانہ سکرینوں پر ٹماٹر اور مرچوں کی بات ہوتی تھی۔ سیاست کی گاڑی چلانے کے لیے ہمارے ہاں کوئی حربہ قابل ِاعتراض نہیں رہا کہ سب چلتا ہے۔ اب وہی عالمی معیشت کی زبوں حالی‘ یوکرین جنگ‘ وبا اور موسمی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کی باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ توانائی کا عالمی بحران ہے۔ یہ بالکل درست‘پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اقتصادی امور کو سیاست کی نذر کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر ان کا حل نکالا جائے۔ ہمارے حکمران ٹولے ان پر مدت سے سیاست کرتے آئے ہیں‘ اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ہمارا ملک تو موسمیاتی تبدیلیوں کے عوامل اور عالمی منڈی کی بگڑتی صورتحال کا شکار ہے۔ اندرونی طور پر ہم نے اپنے وسائل کو ترقی دینے اور پیداواری عمل بڑھانے میں کوتاہیاں برتی ہیں۔ ماہرین‘ عوام اور ہم جیسے لوگ بھی چیختے چلاتے رہے ہیں کہ درآمدی انرجی کے ذرائع پر ملک کا انحصار بڑھا کر ہمیں قرضوں میں نہ جکڑیں اور نہ خزانے‘ صنعت اور عوام پر بوجھ ڈالیں۔ اب کیا بتائیں کہ کس کس نے کتنا لوٹا۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ایک بحران سے کئی بحران پیدا ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اس وقت یوکرین کی جنگ چھوڑ کر‘ دو باتیں نمایاں ہیں‘ایک یہ کہ گرین انرجی کی طرف صنعتی ممالک کتنی جلدی اپنی صنعت اور معیشت کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دنیا میں خوراک کی کمی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو کیسے ٹال سکتے ہیں۔ ہوا‘ پانی اور سورج کی شعاعوں سے بجلی پیدا کرنے پر بھاری سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ اگلے دس برسوں کے بعد زیادہ تر گاڑیاں بجلی پر چلیں گی۔ اس بارے میں تو سب ممالک کو حصہ ڈالنا ہوگاکہ ماحولیاتی تبدیلی نے کبھی امیر اور غریب ممالک کے درمیان تمیز نہیں کی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں ؟ ہماری منصوبہ بندی کی جہت کیا ہے ؟ بے مغز حکمرانی تو ہمیں اجتماعی تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ اپنے بھکاری پن کا کشکول بھرنے کے لیے ہم نے سفارتی سطح پر یہ واویلا ضرور مچا یا ہوا ہے کہ غیر متوقع طور پر کئی سو گنا زیادہ بارشوں اور سیلاب کی ذمہ داری صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔یہ بات اپنی جگہ غلط نہیں ہے‘ مگر اپنے طور پر ہم آزادی سے لے کر آج پچھتر سال بعد تک کسی آزادریاست کا سا طرزِ عمل اپنانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکے ؟ کتنے ڈیم بنائے؟ پانی کاکتنا ذخیرہ کرسکتے ہیں ؟ جنگلات کا کیا حال ہوا؟ آبادی کا پھیلائو کہاں تک جاپہنچا؟زرعی زمینوں پر بستیاں کیوں بسائی گئیں؟ سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے ہم نے کون سا نظام بنایا ؟
ذرا سوچیں کہ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے ؟ سب موسم اور قدرتی وسائل موجود ہیں۔ کمی ہے تو دل و دماغ رکھنے والے حکمرانوں کی۔سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری قوم اہلِ اقتدار کی خود غرضی‘ زر پرستی اور لوٹ مار کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے اور یہ سیلاب کوئی نیا نہیں۔ ہم نے بار بار اسی گندے پانی میں غوطے کھائے ہیں۔اب پھر ملاح کی ذمہ داری ہمارے انہی مہربانوں کے کندھوں پر دھر دی گئی ہے۔
اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہمیں خوراک کی کمی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر خوراک کی کمی ہو تو آپ کیا کریں گے؟ پہلے ہی ہمارے بہت سے علاقوں میں بھوک کی کیفیت برسوں سے ہے۔سینکڑوں بچے‘ عورتیں اور بوڑھے تھرپار کر میں خوراک کی کمی کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مگر ان کے خون پسینے سے بننے والے محلوں میں رہنے والوں پر اس کا مطلق اثر نہیں ہوتا۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔ بیچارے غریبوں کی دنیا سے ان کا کیا تعلق ؟ لیکن اگر یہ تعلق استوار نہ ہو تو آپ جتنا بھی خلائی مخلوق بن کر حکمرانی کے دعوے کریں‘ یہ دعوے بلاجواز رہیں گے۔ چلیں چھوڑیں ان بادشاہوں کی باتیں کہ وہ تو بادشاہت کے آداب سے بھی واقف نہیں‘ انسانیت کے تقاضوں کو کیا سمجھیں گے۔ ہم خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ کچھ آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر‘ سبزی کے اعتبار سے اور اگرزیادہ نہیں تو اپنے گھر کے کسی کونے میں‘ کھیت کے کنارے‘ ڈیرے کے پچھواڑے میں پھلدار درخت لگا سکتے ہیں۔ گھر میں سبزی لگانے کے لیے نہ آپ کو زیادہ جگہ‘ نہ تردد کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دیہات میں بھی سبزیاں اُگانے کا رواج اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ قریبی بازار اور شہر سے خرید لاتے ہیں۔ شہروں میں لوگوں کے پاس جگہ کی کمی نہیں‘ کاہلی اور وسائل کی زیادتی ہے کہ وہ خرید سکتے ہیں۔ کسی سپر سٹور پر جانے کا اتفاق ہوجائے تو تماشا دیکھتا ہوں‘ آپ نے بھی غور کیا ہوگاکہ خواتین اور حضرات کیسے دیوانہ وار خریداری کررہے ہوتے ہیں۔ یہ درویش خوش قسمت ہے کہ سارا سال اپنے درختوں کا پھل آجاتاہے‘ سبزیاں خود اگاتاہے‘ مکمل تو نہیں مگر کسی حد تک خودکفالت ہے۔ اپنی جامعہ میں کل ہی اپنے ایک مقامی قبائلی سردار پروفیسر مشتاق احمد خان کی سربراہی میں ہمارا پورا قبیلہ سبزیاں اُگانے میں مصروف تھا۔ یہاں یہ تحریک ان کی وجہ سے ہر موسم میں زور پکڑ رہی ہے۔ سرسبز کیاری کی طرف دیکھتے ہیں تو آنکھوں میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں