یہ ویسا انقلاب نہیں جس کے بارے میں آپ نے تاریخ میں پڑھ رکھا ہے کہ کچھ لوگ اٹھے‘ تحریک چلی‘ نظریات غالب آئے اور کسی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انقلابِ فرانس سے لے کر امریکی‘ روسی‘ چینی اور ایرانی انقلاب نظریاتی تھے۔ فوجی انقلاب بھی پسماندہ دنیا میں آئے اور کئی جگہوں پر تباہی پھیلا کر تمام ہوئے۔ ان تمام انقلابوں کی داستانیں‘ پس منظر‘ نظریاتی روح‘ معاشروں کا رنگ اور سیاسی اثرات یکساں نہیں‘ دیرپا ضرور رہے ہیں۔ نظریاتی انقلابوں کی روح وقت کے ساتھ زندہ تو رہتی ہے مگر جو طبقے اقتدار میں آتے ہیں‘ وہ اکثر اس سے روح گردانی کر لیتے ہیں۔ نظریات صرف اقتدار کے جواز تک کے لیے باقی رکھے جاتے ہیں لیکن معاشرے سے ان کا رشتہ ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے؛ تاہم نظریات کبھی نہیں مرتے۔ وہ کتابوں کی زینت بن کر دانشوروں کو فلسفیانہ بحثوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ آج کی جمہوریت کی بات انقلابِ فرانس کے نظریات سے الگ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی امریکہ کے اعلانِ آزادی کی دستاویز سے اسے الگ دیکھا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کے تین نکات جدید جمہوری سیاست کا ستون بنے۔ آزادی‘ مساوات اور یک جہتی۔ انہی اصولوں سے اٹھنے والی جمہوری تحریکوں نے سیاسی فلسفوں کی آبیاری کی۔
ہمارے ہاں بھی آج کل تحریک انصاف آزادی کی بات کررہی ہے‘ جس کے کئی مطالب لیے جا رہے ہیں۔ آزادی کا لفظ ہی اتنا پُرکشش‘ جاذب اور پُراثر ہے کہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے جس طرح چاہیں‘ استعمال کر لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک آزادی انسانیت کی روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ا گر ہم آزاد نہ ہوں تو زندہ تو رہیں گے مگر کسی کے غلام‘ تابع‘ محکوم اور اشاروں کے منتظر۔ آزادی کے کئی تصورات ہیں مگر اس جذبے نے انسانوں اور قوموں کو جبر و استبداد اور استحصال سے چھٹکارا دلایا۔ آزادی جس کا عام مفہوم اپنے ملک یا ریاست کا حصول ہے‘ اگر قسمت میں لکھ بھی دیا جائے تو آزادی حاصل نہیں ہو سکتی‘ جب تک ذہنی غلامی کا بھوت سر سے اُتر نہ جائے۔ ہمارے جیسے اکثر سابق نوآبادیاتی معاشروں میں آزادی کے ثمرات عام لوگوں کی طرف اس تیزی سے نہیں پہنچے جس کی توقع تھی۔ آزادی کے لیے جان کی قربانیاں‘ آبائی علاقوں سے نقل مکانی اور اپنی ریاست کے قیام سے وابستہ امیدیں بنیادی نوعیت کی تھیں۔ تعلیم عام ہوگی‘ سب لوگوں کو برابر کے حقوق ملیں گے‘ حکومتیں اوپر سے نہیں اور نہ ہی سازشوں اور خریدو فروخت کی منڈیاں لگا کر بنیں گی۔ عوام اپنے نمائندے چنیں گے اور وہ ملکی اور عوامی مفاد کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خدمت کے جذبے سے معمور ترقی‘ امن‘ خوشحالی اور جدید فکر سے ہماری زندگیاں نکھاریں گے۔ قوموں کی صفوں میں ہمارا اونچا نام ہوگا۔ یہ خواب ہی رہ گئے۔ انگریز کی غلامی سے تو آزاد ہوگئے مگر ہمارے اوپر جو طبقے مسلط ہوگئے‘ وہ گوروں سے بڑھ کر ظالم ثابت ہوئے۔ ان سے آزادی کا نظریہ بھی قومی آزادی میں تھا کہ جمہوریت قائم ہوگی تو لوگ روایتی حکمرانوں کو چلتا کردیں گے۔ ابھی تک تو سکہ انہی کا چلتا ہے۔ اور دیکھیں کہاں کہاں سے ان کوہر دور میں ''محسن‘‘ میسر آتے رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں میں سبھی شامل ہیں۔ کسی کو استثنا حاصل نہیں۔
کپتان کی آزادی کی تحریک دیکھیں کیا رنگ لاتی ہے۔ خشک ٹہنیوں پر شگوفے پھوٹے تو ہیں۔ داخلی سامراجیت کا سحر کچھ ٹوٹا تو ہے۔ کوئی نتیجہ تو ضرور نکلے گا۔ اب تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھومے گا۔ رخ اس کا آگے کی طرف ہے۔ رفتار مدہم ہے کہ ماضی کی دھند کی دبیز تہیں سیاسی فضا پر چھائی ہوئی ہیں۔ آزادی کی روشنی کو اس دھند کو چھلنی کرتے ہم دیکھ رہے ہیں۔ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں یا موسم تبدیل ہوتا ہے تو دھند مٹی میں جذب ہوکر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ اس کے دبیز پردے میں پڑنے والے شگاف دکھائی رہے ہیں۔ ان کا سائز بڑھتا جارہا ہے۔ مگر فضا کو کھلنے میں ابھی شاید کچھ وقت لگ جائے۔ میں ایک تاریخی عمل کے تناظر میں پرانے حکمرانوں کو ڈھلتے سایوں کی طرح آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
اس امید کی وجہ میری نظر میں کپتان کی محض سیاست‘ تحریک اور شخصیت نہیں۔ وہ کئی دہائیوں پر پھیلاہوا سماجی انقلاب ہے جو اعلیٰ تعلیم کی صورت ہمارے سامنے آیا ہے۔ اس کے اثرات ہم نئی سیاسی صف بندی میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ملک میں کہاں دوچار جامعات تھی‘ آج کئی سو ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے پسماندہ ضلع سے صرف چند ہی جامعہ پنجاب میں پہنچتے تھے۔ جو یہاں تک نہ پہنچ سکے‘ ایسا نہیں کہ ہم ان سے زیادہ ذہین اور لائق تھے بلکہ یہ کہ اُن کے پاس وہ مالی وسائل نہیں تھے جو ہمیں میسر تھے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں سرکاری اور نجی شعبے میں یونیورسٹیاں قائم ہونا شروع ہوئیں تو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال نوجوان بچے اور بچیاں سکولوں اور کالجوں سے نکل کر مقامی جامعات میں آنا شروع ہوگئے۔ ہماری ہائر ایجوکیشن میں داخلوں کی اوسط‘ آبادی کے لحاظ سے علاقائی ممالک سے نسبتاً کم ہے مگر ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب تقریباً ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی قائم ہے یا اس کے قیام کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔ یہ افلاطونی باتیں کہ معیار گر جائے گا‘ صرف اشرافیہ کے دانشور کرتے ہیں جن کے بچوں کے لیے معیاری تعلیمی اداروں کی کمی نہیں۔ آپ سوچیں کہ دور دراز کے اضلاع سے غریب یا زیریں متوسط طبقے میں کتنے بچے لاہور‘ کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں؟ یہ سطور اس تناظر میں لکھ رہا ہوں کہ ضلعی یونیورسٹیوں میں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جب صبح کو معمول کے مطابق سیر کو نکلتا ہوں تو ہزاروں طلبہ اور طالبات کو آتے جاتے دیکھتا ہوں۔ ایک یونیورسٹی میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ تقریباً بیس ہزار طالب علم ہیں جن میں بارہ ہزار کے قریب طالبات ہیں۔ کچھ سال پہلے ایسا ہی ماحول کسی اور یونیورسٹی میں دیکھا۔ وہاں بھی ساٹھ فیصد تعداد طالبات کی ہے۔ دیگر ضلعی یونیورسٹیوں میں بھی بڑی تعداد میں دیہاتی بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ سماجی اور معاشی مجبوریاں ان کے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے راستے میں حائل ہیں۔ اگلے روز اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں کانفرنس سے فارغ ہوکر نکلا تو دو بچیاں دوڑ کر میرے پاس آئیں۔ ان سے پوچھا کہ ان کا تعلق کن علاقوں سے ہے۔ ایک چکوال اور دوسری آزاد کشمیر سے تھی۔ یہ بھی گھسی پٹی بات ہے کہ کوالیفائیڈ فیکلٹی نہیں ملتی۔ حال ہی میں ایک سلیکشن بورڈ میں تھا تو ہر ایک سیٹ کیلئے کئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے امیدوار تھے۔ ہمارا بالائی طبقہ تو مغرب کا رخ کرتا ہے مگر ہمارے ہمسایہ ملک‘ چین نے ہمارے طلبہ کیلئے یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ متوسط طبقے کے ہزاروں طلبا وہاں جارہے ہیں‘ سب کو سکالرشپس مل رہے ہیں۔ ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم ہونے سے دیہاتی بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ جن کو کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے‘ وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی دنیا کس طرح ہر آنے والے کو تبدیل کردیتی ہے۔ نظریات‘ امنگیں‘ خواب‘ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ان کے خواب وہ نہیں جو روایتی حکمران طبقہ دکھاتا ہے۔ اُنہوں نے اب امیدیں اس آزادی کے ساتھ باندھنا شروع کردی ہیں۔ آنے والے برسوں میں خوشحالی‘ روزگار‘ امن اور انصاف کا پیمانہ کارکردگی نہ بنا اور محض نعرے ہی لگائے جاتے رہے تو یہ نوجوان طبقہ کسی کو چین سے حکومت نہیں کرنے دے گا۔