جو اس وقت اقتدار کی کرسی کے مالک بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے فرمان‘ ارشاداتِ عالیہ‘ فلسفے اور سیاسی بصیرت کی روشنی کی کرنیں بھی اس مسند کے حوالے سے ہوتی ہیں۔ ایک وزیراعظم تھے کہ جب ان کے خلاف نو اتحادی جماعتوں نے انتخابات میں تاریخی گھپلا کرنے کے خلاف تحریک چلائی تو بڑے جلسوں میں فرماتے تھے کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ لیکن جس نے بھی اپنی کرسی کو دھونس‘ دھاندلی اور ہیرا پھیری سے اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کی تو ایک دن دھڑم سے ایسی زمین بوس ہوئی جیسے اس کی ٹانگیں دیمک زدہ ہوں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ معاملہ بیچاری کرسی کا نہیں‘ اسے حاصل کرنے والوں کا ہے‘ کہ یا تو اسے استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں آتا‘ یا کسی اور سے زبردستی چھین کر جب نئے سلے ہوئے انگریزی سوٹوں‘ رنگ برنگی ٹائیوں اور تازہ پالش کیے چمکتے ہوئے جوتوں کے ساتھ اس پر براجمان ہوتے ہیں تو پھر کرسی بھی تو کرسی ہی ہے‘ سوال کرنا شروع کر دیتی ہے کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور وہ کون ہیں جنہوں نے آپ کو یہاں لا براجمان کر دیا ہے۔ تاریخی حوالوں کو دیکھیں‘ یہ بے زبان معمولی سی کرسی جو سوکھے درختوں کو کاٹ کر بنائی جاتی ہے‘ اس پر ناجائز قبضہ ہو جائے تو بول پڑتی ہے۔ جواب نہیں ملتا تو بے قابو گھوڑے کی طرح اٹھا کر دور پھینک دیتی ہے۔
ایک سابق وزیراعظم‘ جو اب اس دنیا میں نہیں‘ کے حوالے سے کرسی کا مسئلہ مجھے ذاتی طور پر پیش آیا۔ ملک کے ایک سابق سفیر‘ جو کسی اور ملک میں مقیم تھے‘ نے پاکستان کے بارے میں دو کتابیں لکھیں۔ ملک کا دورہ کرنے آئے تو ان کی خواہش تھی کہ کتابوں کو میری جامعہ میں لانچ کیا جائے اور مہمانِ خصوصی وزیراعظم پاکستان ہوں۔ میں نے گزارش کی کہ یہ درویش تو اقتدار کو خطرے کی علامت سمجھ کر دور بھاگتا ہے۔ ویسے بھی یہاں وزیراعظم صاحب سے کسی وزیر کو بھی ملنے کی سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ وہ خود درخواست کریں گے تو وہ ضرور آئیں گے۔ تاریخ طے ہوگئی۔ مقامی طور پر انتظام ہم نے کیا۔ ایک شام لوگ بڑے ہال میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تقریب سے آدھا گھنٹہ قبل پولیس اور سکیورٹی کے اعلیٰ افسران حالات کا جائزہ لینے آئے۔ کرسیاں دیکھیں تو کہنے لگے کہ یہ شایانِ شان نہیں۔ ہمارے ہاں تو سب کرسیاں‘ کرسیاں ہی ہوتی ہیں اس لیے انہیں برابر سمجھا جاتا ہے۔ ہماری گزارش پر وہ کچھ ناراض ہوگئے۔ نائبین کو حکم دیا کہ فوراً کہیں باہر سے کرسی کا انتظام کیا جائے۔ کرسی تو آئی مگر کرسی آگے آگے اور وزیراعظم کا وفد پیچھے پیچھے۔ کرسی کو کچھ مہلت دینے کے لیے کہ وہ اپنی جگہ پر ٹک سکے‘ ہم وزیراعظم کو راہداری سے گھما کر لائے۔ یہ تو پہلے ہی معلوم تھا۔ واضح ثبوت اس دن مل گیا کہ کرسی کی پہچان اور اس کی عزت و احترام کے راز صرف وہی جانتے ہیں جو اس کے ارد گرد رہتے ہیں۔ لیکن دور سے کرسیوں کا تماشا دیکھنا ہمارا پیشہ ہے۔ اور اگر آپ خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہیں تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا بھی تو مسئلہ ہے‘ یا یوں سمجھیں کہ کرسیوں کے کھیل پر چپ نہیں رہ سکتے۔ اب تو حالات ایسے کردیے گئے ہیں کہ ملک اور معیشت ڈوب رہے ہیں۔ سماج میں بے چینی اور سیاسی کشمکش عروج پر ہے۔ مگر کرسی پر قابض تیرہ جماعتی اتحاد عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کو بحران سے نکالنے کی غرض سے اسے مضبوط کرنے اور کچھ مزید ماہ و سال اس کارِخیر میں صرف کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ وہم کے مارے لوگوں کا خیال البتہ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرسی تگڑی ہو یا کھوکھلی‘ اس کی فیوض و برکات اتنی ہیں کہ نااہل ترین سے اگلے درجے کے حاکم بھی آخری سانسوں تک اس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔
ملک کے دانشور‘ عام لوگ اورکچھ دردِ دل رکھنے والے سیاست دان‘ حکومت میں شامل تیرہ جماعتوں کے اندر سے بھی آواز اٹھا رہے ہیں کہ کاروبارِ مملکت یوں نہیں چلے گا۔ انتخابات ناگزیر ہیں۔ ہم تو ایک عرصہ سے یہ گزارش کررہے ہیں۔ کرسی والے اور ان کے حاشیہ بردار‘ انتخابات نہ کرانے کے حق میں جو دلیلیں دیتے ہیں اور موقع بہ موقع مناظر ے کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ تو ماضی کے ایسے ہی ادوار ہماری نظروں کے سامنے فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ ہماری عمر کے قریب ہیں تو یاد ہوگا کہ ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں کیا بحثیں ہوتی تھیں۔ تب ہم سب کی نظریں اکلوتے پاکستان ٹیلی وژن پر لگی رہتی تھیں کہ اگلا اعلان کیا ہوگا۔ ضیا صاحب تو کم بولتے تھے‘ صرف معاونین کو دبے لفظوں ہدایات جاری کرتے مگر خوشامدی ٹولے ان کے دفاع میں مضحکہ خیز باتیں کرتے۔ پہلی بحث تو یہ چلی کہ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ ہم انتخابات کے متحمل نہیں ہو سکتے اور انتخابات مسائل کا حل بھی نہیں۔ پہلے ملک کے مسائل کو حل کیا جائے۔ جب گنے چنے کچھ صحافی سوال کرگزرتے کہ جناب عالی آپ نے تو نوے دنوں کے اندر آئین کے مطابق انتخابات کرانے کا دعویٰ کیا تھا تو یہ وعدہ خلافی کیوں‘ اور کب یہ وعدہ نبھائیں گے۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب ٹال دیتے مگر درباری شام کو پی ٹی وی پر ہر طرح کے جواب دے رہے ہوتے۔ سن کر کبھی ہم ان پر ترس کھاتے کہ دربار میں شرفِ قبولیت کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔ دوسری بحث اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب تھی کہ چونکہ ہم مسلم ملک ہیں اور اسلام میں تو سیاسی جماعتوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ نہ تو مجھے اپنے حافظے پر شک ہے اور نہ ہی ہم ایسی یاوہ گوئیاں بھلا سکتے ہیں۔اس ابتلا کے دور کے بعد ایک دوسرا دور آیا جب ہمارے درباری دانشوروں کے مشورے‘ گفتگو اور مناظروں کا نقطۂ آغاز یہ ہوتا کہ جب تک آپ کو انتخابات سے مثبت نتائج حاصل کر لینے کا یقین نہ ہو‘ ایسی حماقت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ بحالیٔ جمہوریت کی تحریک چلی‘ جس کا زور زیادہ تر سندھ میں تھا‘ تو انتخابات کی ہامی بھری گئی‘ مگر یہ کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے اور وزیراعظم کی نامزدگی صدرِ مملکت‘ جو ضیا صاحب خود بخود بن چکے تھے‘ کریں گے۔
آج کل دربار میں اور اس کے باہر درباری گماشتے ایسی ہی دانشوری فرما رہے ہیں۔ کئی وزیروں اور مشیروں کو جن کے پاس نہ کوئی قلم دان ہے‘ نہ محکمہ اور نہ ہی کہیں کرسی دھرنے کی جگہ‘ کئی بار کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انتخابات اس لیے نہیں کرائیں گے کہ ہم ہار جائیں گے۔ یہ تو وزیراعظم صاحب بھی فرما چکے ہیں کہ ہم اقتدار میں اس لیے نہیں آئے کہ فوراً انتخابات کرائیں‘ بلکہ یہ کہ پہلے ملک کو پٹڑی پر ڈالیں گے، مسائل حل کریں گے تو پھر سوچیں گے کہ عوام کے پاس کب جائیں۔ آنے والی خبروں سے ان کے ضیائی ارادوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آئین جو ہم نے پڑھا اور سمجھا ہے‘ کہتا ہے کہ اسمبلیوں کے مدت پوری کرنے یا توڑ دیے جانے کی صورت نوے روز کے اندر نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ لیکن تازہ ارشاد نامہ کیا ہے؟ تحلیل شدہ اسمبلیوں کے نئے انتخابات کرانے میں تامل سے کام لیا جا رہا ہے لیکن عوام کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔