ہم اس بے یقینی کی کیفیت میں کبھی نہ تھے۔ کم از کم ہمیں تو معلوم نہیں کہ اگلے دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں ملکی سیاست میں کیا ہونے والا ہے‘ اور ہم وہ ہیں جن سے ملنے جلنے والے‘ شاگرد اور ہمکار پوچھتے رہتے ہیں کہ حالات کس نہج پر ڈھل رہے ہیں‘ تو عاجزی سے گزارش کرتا ہوں کہ کچھ پتا نہیں چل رہا۔ الٹا سوال کرنے والے سے استفسار کرتا ہوں کہ آپ بتائیں‘ آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ سب کچھ پردے میں ہے‘ جبکہ پردے کے سامنے کچھ کٹھ پتلیاں ناچ رہی ہیں اور نچانے والے ہاتھ نظر نہیں آتے۔ ناچنے والوں کو بھی کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب تک اس تماشا پروگرام کے کردار بنے رہیں گے‘ اور کب اُن کی ضرورت تمام ہوگی۔ ہمیں تو صر ف اتنا معلوم ہے کہ اگلے ہفتے کلاس میں ہمارا موضوع کیا ہوگا اور اس کی تیاری کتنے دن پہلے کرلینی چاہیے اور پاور پوائنٹ پر سلائیڈ ایک دن پہلے بنا کر معاون کو ارسال کردینی ہے۔ ہر روز دکاندار‘ چائے والا اور ہمارے کھیتوں میں کام کرنے والے موسمی فصلوں کی کاشت‘ آبیاری اور کٹائی کے اوقات کے لحاظ سے اپنا کیلنڈر اپنے ذہن میں بنا کررکھتے ہیں۔ پوچھیں تو اگلے پورے سال کا ٹائم فریم آپ کو بتا دیں گے کہ کون سی فصل کب کاشت کرنی ہے اور کس موسم میں اُن کی مصروفیت کیا ہوگی ؟ ذاتی زندگی اگر حرکت‘ امنگ اور مقصدیت کی شکل رکھتی ہے تو اس کی حرکیات ایک تربیت‘ تنظیم اور منشور مانگتی ہے۔ قوموں کی زندگی بھی ایسے ہی چلتی ہے۔ لیکن دو قسم کی قومیں ہیں : ایک وہ جو علم و دانش‘ ترقی‘ آزادی اور عوام کی فلاح کی تدبیر میں مصروف رہتی ہیں اور دوسری ہم جیسی جن کی آزادی‘ خوشحالی اور ترقی باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز کی صفات کی حامل موروثی سیاسی خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ہماری روایت ہے کہ کھانے پینے میں کوئی اکیلا نہیں۔ تحفظ اور سلامتی حکمران گھرانوں کو مُلا کے حلوے کی طرح جہاں بھی ملے‘ وہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اندر اور باہر‘ اپنوں اور غیروں کے سب فرق مٹ جاتے ہیں۔ کامیاب قوموں کا کسانوں کی طرح آنے والے وقتوں کے لیے پروگرام طے ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسانوں کو فطرت کے قریب‘ محنت اور مشقت کے اوصاف اور سادہ زندگی کے اعتبار سے دیکھتا ہوں۔ اگرچہ آج کے زوال کے دور میں اب وہ بھی خوش نہیں ہیں۔ ان کی محتاجی بڑھ گئی ہے اور محنت کے باوجود اُن کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ میں سب کو معلوم ہے کہ ہر دوسال بعد ایوان نمائندگان اور ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات ہوں گے ا ور صدر کے لیے چار سال بعد۔ دن بھی صدیوں سے طے ہے کہ نومبر کے پہلے سوموار کے بعد جو پہلا منگل ہوگا‘ اس دن انتخابات ہوں گے۔ ہر سیاسی جماعت نے پرائمری انتخابات کے لیے اپنا شیڈول بنارکھا ہے۔ ابھی انتخابات میں بیس ماہ باقی ہیں مگر صدارتی امیدواروں نے اپنی نامزدگی کے لیے مہم ابھی سے شروع کررکھی ہے۔ اس طرح ہر بزنس‘ صنعت اور دانشگاہ کم از کم پانچ سالہ منصوبہ بندی کرتی ہے۔ ہماری جامعہ کچھ زیادہ ہی ترقی پسند ہے۔ ابھی طے ہوچکا ہے کہ آنے والے موسم خزاں کے سمسٹر میں کون کون سا کورس پڑھایا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ جنگلوں میں زندگیاں بسر کرنے والے پرندوں تک نے پورے سال کا پروگرام بنا رکھا ہوتا ہے۔ آج کل اپنے گھونسلے ٹھیک ٹھاک کررہے ہیں۔ کچھ تو پہلے کر چکے ہیں۔ تھوڑے دنوں میں انڈے دیں گے۔ اگلی نسل کی بال و پر آنے تک پرورش اور نگہداشت کریں گے‘ اور زندگی کا یہ سفر ہمیشہ کی طرح جاری رہے گا۔ دور کیوں جائیں ہمارے گھر کے کارپورچ میں ہم نے ورجینا بیل چڑھا رکھی ہے۔ بہار میں جونہی اس کے پتے نکلتے ہیں‘ فاختہ‘ بلبل اور چڑیاں اس کے مختلف حصوں پر قبضہ کر کے گھونسلے بنا لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ اڑھائی عشروں سے جاری ہے۔ اس میں تاریخیں بتا سکتا ہوں کہ کون سا پرندہ کب اپنا گھونسلا نئے سرے سے تعمیر کرے گا‘ انڈے کب تک ہم چھپ کر دیکھ سکیں گے اور چوزوں کی آوازیں کب سنائی دیں گی۔
کامیاب ریاستیں کامیاب لوگ اور رہنماچلاتے ہیں‘ اور کامیابی میں فطرتِ انسانی کے دائمی اصول کارفرما رہے ہیں۔ ان میں بنیادی نظریہ اس کے مطابق حکومت اور معاشرے کی تکمیل‘ انسانی خوشیوں‘ آزادیوں اور سہولتوں اور ترقی کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی شامل ہے۔ نہ جانے کب سے ہماری ریاستی اور قومی صورتحال یہ رہی ہے کہ ہم جیسے درویش کسانوں اور پرندوں کے بارے میں حتمی طور پر بتا سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ کہاں ہوں گے اور کیا کررہے ہوں گے لیکن حکومت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ایک زمانہ تھا جب ملک میں پاکستان ٹیلی ویژن کا اکلوتا چینل ہی ہمارے ملک کے طول وعرض میں خبروں اور تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔ اگر اس میں خرابی ہوتی‘ سکرین کالی ہوجاتی اور روشن حروف سے یہ پیغام ابھرتا ''انتظار فرمائیے‘‘ قوم انتظار ہی فرماتی رہتی۔ ملکی سیاست میں یہ منٹوں اور گھنٹوں کا انتظار نہیں کئی برسوں پر محیط اذیت تھی۔ جو ایک دفعہ آگئے‘ جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔ وہی باتیں کرتے جو آج کل کے وزرا کررہے ہیں۔ تیرہ جماعتی اتحاد‘ بھاری بھرکم رہنما فرمار ہے ہیں کہ انتخابات کے لیے ابھی حالات ساز گار نہیں۔ اگر کوئی سرپھرا مناسب جگہ اور وقت پا کر سوال کر ہی بیٹھتا کہ وہ وقت کب آئے گا‘تو آنکھیں دکھا کر صبر کی تلقین کی جاتی۔ یہ وہ زمانے تھے جب ہم جیسوں کی آتش جوان تھی۔ جو کچھ امریکہ کی جامعات سے تحصیل کیا تھااورخون جوش مارتا‘ کچھ کہنے اور کھل کر لکھنے کا ارادہ باندھتے‘ کئی دن اندر کے طوفان کا مقابلہ کرتے‘ تھک ہار کر بیٹھ جاتے۔ لیکن پھر اگلے دن وہی طوفان دیکھتی آنکھوں‘ سنتے کانوں کے راستے دل میں ہنگامہ بپاکردیتا۔ ہم جیسے کئی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ موجودہ تیرہ پلس جماعتی اتحاد کو ایک سال پورا ہونے میں بیس دن باقی ہیں۔ بات اپنے تک رکھیں۔ یہ نہ پوچھنا کہ میں نے پلس لکھا ہے یا پُلس لکھا ہے۔ بے یقینی سی بے یقینی ہے۔ اب لوگوں کا کسی پہ کیا اعتبار ہوگا کہ پنجاب میں کہیں کسی سے بات کریں‘ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ ہم کیسے کہیں کہ نہیں ہوں گے ؟ عدالتِ اعظمیٰ کا حکم ہے۔ آئین اس پر واضح حکم رکھتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں امیدوار کاغذاتِ نامزدگی جمع کراچکے ہیں۔موجودہ حکمران دھڑوں کی طرف سے آئندہ کے انتخابات کی تاریخ طے نہ کرنا روایتی شکوک و شبہات اورنظام پر عدم اعتمادکو تقویت دے رہا ہے۔ کچھ تو برملا کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات آگے لے جانے پڑیں۔ کسے معلوم ہے کہ ان کے اور اُن پر دستِ شفقت رکھنے والوں کے نیک ارادے کیا ہیں۔ ارادے جس نوعیت کے ہیں‘ کرتوت ظاہری اور باطنی جو بھی ہوں ہم تو صرف نیک ہی کہیں گے۔ باقی لوگوں کی چھوڑیں‘ زمینی مخلوق کی ذمہ داری کون دے سکتا ہے ؟ اقتدار چاہیے‘ چائے نوشوں کی طرح اشتہاری سوال نہ داغیں کہ کون ساجناب ؟ اقتدار تو بس اقتدار ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ مل جائے‘ جب ملے‘ جس طرح ملے‘ جس کے ذریعے ملے تو ہمارے حکمران اس کو جائز اور قوم کی خدمت کے لیے غنیمت جانتے ہیں۔وہ اسے جائزثابت کرنے کی افلاطونی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یقین جانیں‘ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے اور کل کیا ہوگا۔ اندھیروںاور اندھیر نگری میں کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔