پندرہ ماہ سے پاکستان کی ترقی کو جو چار کے بجائے تیرہ چاند لگے ہیں‘ ان کی تیز روشنی سے ہماری کمزور بینائی تو چندھیا گئی لیکن دنیا بہرحال دیکھ رہی ہے۔ خوشحالی‘ استحکام‘ امن اور سلامتی کے پھوٹتے چشموں کے عوام پر بے پناہ فیض ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ہماری عمر کے لوگوں کا مسئلہ ہے کہ بہت کچھ دیکھ چکے ہوں‘ بار بار تجربات کا مشاہدہ کر چکے ہوں تو خیرہ کن ترقی کو دیکھ نہیں سکتے۔ آنکھوں کا طبی مسئلہ ہی سمجھ لیں۔ کئی روز دکھائے اور سنائے جانے کی وجہ سے صاف نظر آرہا ہے کہ کسی بدترین دشمن نے لاطینی امریکہ میں بیٹھے ہوئے تین بار بنے بنائے وزیراعظم میاں نواز شریف کا پاناما پیپرز میں نام ڈلوایا دیا تھا۔ حالانکہ وہاں کوئی ان کی کمپنی تھی‘ نہ وہاں کوئی رقم گئی‘ نہ کبھی وہاں سے کوئی رقم نکلوائی۔ واضح ہو چکا کہ یہ سب خادمینِ پنجاب اور خادمینِ پاکستان کے خلاف شرپسندوں کی سازش تھی۔ اچھا ہوا کہ سازش کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بیرونی ممالک میں جو ہمارے سیاسی اور غیرسیاسی کرداروں کے خلاف کرپشن کے حوالے سے فضول پروپیگنڈا کیا جاتا ہے‘ اب وہ خود بخود دم توڑ جائے گا۔ تیرہ جماعتی اتحاد کے رہنمائوں‘ ان کے اہلِ خانہ اور ہرکاروں کے لیے جس تیز رفتاری سے ''کوئی ثبوت نہیں ملا‘‘ کے فیصلے صادر فرمائے جا رہے ہیں‘ کوئی دشمن ہی ان کا کوئی حساب کتاب رکھے گا۔ ہم خیر خواہوں میں سے ہیں۔ اگر کسی کے وارے نیارے ہیں‘ منی لانڈرنگ کے مقدمات چلنے کے بجائے ان کی صفائی ستھرائی کا عمل جاری ہے تو ظاہر ہے کہ اس پاکیزہ عمل پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں بنتا۔ ہم تو صفائی کے نصف ایمان ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ چند دن پہلے یہ خبر سن کر دل باغ باغ ہوگیا کہ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف‘ سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب و حالیہ خادمِ اعلیٰ پاکستان کے فرزند ارجمند سلمان شہباز شریف منی لانڈرنگ کے مقدمات سے بالکل بری ہوگئے۔ ان کے ایک مرحوم چپڑاسی کے اکائونٹ میں اربوں روپے آنے جانے کے مقدمات بھی سیاسی انتقام کا نتیجہ قرار دے کر کاغذات کو نہ جانے کہاں ٹھکانے لگا دیا ہے۔ خادمِ پاکستان کا عہدہ قبول کرنے کے چند دن بعد فردِ جرم لگنے کی بری خبریں آرہی تھیں اور وہ جو سینکڑوں ارب کی کہانیاں ہمارے کچھ سندھ کے بڑے حکمرانوں کے حوالے سے تھیں‘ سب شر پسندوں کی کارروائی تھی۔ شکر ہے کہ شرفا کے خلاف سازشیں ناکام ہوگئیں۔ ہماری بھی دعا ہے کہ ان کا بابرکت سایہ سندھ اور پاکستان کی سیاست پر سدا قائم و دائم رہے۔ ہم بھی سرکاری مبصرین کی رائے سے اتفاق کرنے لگے ہیں۔ کوئی سیاست سیکھے تو ان سے سیکھے۔ اچھی خبریں سننے اور پڑھنے کے بعد یہ احساس زور پکڑ لیتا ہے کہ نصف صدی سیاست کی درس و تدریس میں دراصل ہم دشتِ نوردی میں مصروف تھے۔ صحرا کی وسعتیں چھان رہے تھے۔ بیرونی ممالک کی جامعات میں جانے کی مشقت کیوں جھیلی۔ دنیا جن سے سبق سیکھتی ہے‘ وہ سب استاد تو یہاں ہیں۔ ہر صوبے‘ ہر ضلع اور ہر شہر میں ان کے علمی ڈیرے آباد ہیں۔
قانون سازی کی رفتار بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ امریکی سینیٹ اور برطانیہ کی پارلیمنٹ بھی کچھ سبق ضرور سیکھیں گی۔ ہمارا سینیٹ جو تمام صوبوں کا نمائندہ ہے‘ نے کیسا زبردست قانون منٹوں سیکنڈوں میں منظور کیا کہ چیئرمین سینیٹ‘ موجودہ اور وہ جو ماضی میں رہے ہیں‘ بھاری تنخواہ‘ سکیورٹی گارڈ‘ گاڑیاں‘ ملک کے اندر اور باہر خاندان سمیت ہوائی سفر‘ نجی ہسپتالوں میں ملک اور بیرونی ممالک میں علاج معالجہ اور دیگر سہولیات کے حق دار ہوں گے۔ ان کا حق تو بنتا ہے کہ وہ نمائندے ہیں۔ اس اعلیٰ مثال کو دیکھتے ہیں کتنی جلد اور کس برق رفتاری سے دنیا کے کتنے اور ممالک سامنے رکھ کر اپنے اپنے ایوانِ بالا کے لیے ایسی ہی مراعات کا قانون بناتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اراکینِ اسمبلی سینیٹ سے پیچھے کیوں رہیں گے۔ انہوں نے اپنی پنشن کا قانون پہلے سے ہی بنا رکھا ہے۔ مجھے یاد تو نہیں پڑتا مگر کسی امریکی دوست سے بات کی تھی کہ ہمارے عوامی نمائندے پنشن کے بھی حق دار ہیں‘ اتنا یاد ہے کہ اس نے سر کو اتنے زور سے جھٹکا دیا کہ میں ڈر گیا کہ کہیں گردن میں بل ہی نہ پڑ جائے۔ کانگریس کے اراکین دورانِ نمائندگی مراعات تو لیتے ہیں‘ مگر پنشن ہماری سیاسی ایجاد ہے۔ اب دیکھتے ہیں دیگر کتنے ممالک ہماری اس نئی ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب اچھی خبریں نہیں تو اور کیا ہیں۔ تیرہ جماعتیں ہیں‘ کئی صد اراکین اسمبلی‘ سو سے تھوڑے سے ہی کم وزیر ومشیر اور پھر ان کے عزیز و اقارب۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا بھلا ہو جائے تو کیا برائی ہے؟ عوام کا کیا ہے‘ وہ جی لیں گے۔ اور ویسے بھی اگر ان کے نمائندے خوش حال ہو رہے ہیں تو انہیں بھی خوش ہونا چاہیے۔ آخر کار وہ کوئی برطانوی سامراج سے تو تعلق نہیں رکھتے‘ انہی کے ہی نمائندے ہیں نا۔ بھلے لوگ دوسروں کی خوشی میں خوش رہتے ہیں۔ عوام کی خوشی کے مواقع کون سا کم ہیں۔ لاہور‘ نواب شاہ‘ ڈیرہ اور دیگر بہت سے مقامات پر کتنے دولت مند‘ طاقتور سیاسی خاندان ہیں۔ سب نے ہاتھ کی کمائی اور صفائی کی مہارت دکھائی ہے۔ ایسی ترقی سے جلنے والوں کے لیے عوامی بسوں کے پیچھے تنبیہ کے پُر مغز الفاظ تحریر ہوتے ہیں۔ خیر ہم ان کی نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ کسی کے رنگ میں بھنگ ڈالنا بھی درست نہیں۔ وہ خوش‘ عوام خوش تو ہم بھی خوش۔ تبدیلی کی باتیں قصۂ پارینہ بن چکیں۔
سیاسی انقلاب تو ہر انقلاب کا منبع ہوتا ہے مگر ہمارے نزدیک یہ سیاست‘ معیشت‘ سماجی ساخت اور ان پر غالب طبقات کی ترجمانی کرتی ہے۔ پندرہ ماہ پہلے لائے جانے والے ہمارے سنہری آموں کی طرح انقلاب بھی تو سنہری ہی ہے۔ ہر وہ انقلاب جس میں نہ گولی چلے‘ نہ کوئی بندوق اٹھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے راتوں رات ایک ٹولہ گھروں کو رخصت ہو تو دوسرا ان کی خالی کردہ جگہ سنبھال لے‘ تو ہم اسے دنیا کے سب انقلابوں میں افضل ترین شمار کریں گے۔ یہ اعزاز بھی ہمارے ملک کو حاصل ہے کہ ایسے انقلابوں کی تعداد کا ریکارڈ نہ ابھی تک ٹوٹا ہے اور نہ آنے والی صدیوں میں ٹوٹے گا۔ جو بھی غلط خبریں پھیلاتے ہیں‘ اس کے برعکس ایسے انقلاب خود بخود پیدا ہوتے ہیں۔ کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ ہماری سرزمین سنہری انقلابوں کے لیے عالمی ماہرین نے موزوں ترین قرار دے رکھی ہے۔ شر پسندوں کی سیاسی جماعت کے بھی خود بخود بکھر جانے کی خبریں گرم ہیں۔ اور جو خطرات چاند کی روشنی میں مدہم ہونے کو تھے‘ اب وہ ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اعلان پر اعلان ہورہے ہیں کہ اب انتخابات ہوں گے‘ شرپسندوں کو انجام تک پہنچایا جائے گا‘ ملک میں ترقی کی نئی شاہراہیں کھلیں گی۔ ہم بھی شاد ہیں کہ حکمران جن خطرات سے گھبرائے ہوئے تھے‘ ان سے گلوخلاصی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک مسئلہ البتہ باقی ہے۔ سنہری آموں کی طرح سنہری انقلاب بھی ظاہری چمک رکھتے ہیں‘ پائیدار نہیں ہوتے۔ کچھ دن رنگ اور تازگی باقی رہتی ہے مگر فطرت کے اصول اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم بحران کے گرداب میں یونہی تو نہیں پھنسے رہتے۔ ہمارے سند یافتہ حکمران ٹولے کو زمینی سطح سے عوام کی طاقت میسر نہیں ہوتی جس سے کسی ملک میں استحکام پیدا ہو۔ ''مائنس ون‘‘ یا کسی ''ون‘‘ کی بات نہیں‘ آئین اور قانون کی حکمرانی اور عوامی منشا کے مسائل سر اٹھائے حیرت سے سنہری انقلاب کی کرشمہ سازی کو دیکھ رہے ہیں۔ ''آگے راستہ بند ہے‘‘۔