ایک نظریے کے طور پر‘ دنیا کی دوسری جمہوری ریاستوں کی طرح پاکستان کا ہر شہری انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ آئین کی رو سے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں تاہم تمام شہری دولت، وسائل، تعلیم، ذاتی صلاحیت اور سماجی پس منظر کے حوالے سے ایک ترازو میں نہیں تولے جا سکتے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے شہری عام طورپر چند مخصوص صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات لڑنے اور سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے شاید تعلیم اور دولت سے زیادہ سماجی حیثیت اور سیاسی روابط کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں خاندان اور ذاتوں کے علاوہ لسانی، قبائلی اور علاقائی روابط ووٹنگ بلاک تشکیل دیتے ہیں۔ ایسے شہروں اور قصبوں میں جہاں اس تفریق کی لکیر گہری ہو وہاں خاندانی اور قبائلی پس منظر رکھنے والے افراد انتخابی امیدوار ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوںکے مشہور رہنما ئوں کے لیے جن کے حامی پورے ملک میں ہوں، علاقائی حد بندیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں قومی افق پر ابھر رہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر جماعتیں مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں لیکن طاقتور خاندانی اور سماجی حیثیت رکھنے والے امیدوار کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں یہ رجحان اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ آزاد امیدوار بھی کاغذات ِ نامزدگی جمع کرا رہے ہیں مگر ہزاروں امیدوار اپنی پسند کے حلقے سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کو درخواستیں دے رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت امیدواروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے جن عوامل کا خیال رکھتی ہے اُن کی تفہیم زیادہ مشکل نہیں۔ ہر جماعت میں اس کے مرکزی قائدین اس کا پارلیمانی بورڈ تشکیل دیتے ہیں۔ عام طور پر ، جیسا کہ ہمارے ملک میں دیکھنے میں آتا ہے، پارٹی کا سربراہ جس کا تعلق اس پارٹی کے بانی خاندان سے ہوتا ہے، اپنے قریبی ساتھیوں کو پارلیمانی بورڈ میں شامل کرتا ہے۔ یہ ساتھی بحث میں حصہ تو لیتے ہیںلیکن اختلاف ِ رائے کا حق اور حوصلہ نہیں رکھتے، وہ زیادہ تر باس کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ چونکہ امیدواروں کے بارے میں حتمی فیصلہ پارٹی کے سربراہ نے ہی کرنا ہو تا ہے اس لیے پارلیمانی بورڈکی کوئی حیثیت نہیںہوتی۔ ہو سکتا ہے‘ گاہے بگاہے وہ اپنی تجاویز اور سفارشات سامنے لائیں لیکن آخری فیصلہ بہرحال پارٹی لیڈر کاہی ہوتا ہے۔ امیدواروں کواس طرح انتخابات کے لیے نامزد کرنے میں ہر قسم کی بدعنوانی کا دروازہ کھلا رہتاہے۔ اس کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب پارٹی قائد امیدواروں سے پارٹی فنڈ میں ’’چندہ ‘‘ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ سینٹ کے انتخابات میں یہ ’’چندہ مہم ‘‘ زوروں پر ہوتی ہے کیونکہ سینیٹرز کا انتخاب عوام براہ ِ راست نہیںکرتے بلکہ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ وہاں ہر ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ ماضی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے ایسے امیدوار سینیٹرز منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے جن کا نہ تو کوئی سیاسی کردار تھا اور نہ ہی کسی پارٹی سے وابستگی تھی۔ اُن کی کامیابی کی واحد وجہ یہ تھی کہ اُنھوںنے کسی بڑی پارٹی کے فنڈ میں بھاری چندہ دیا تھا۔ ہمارے ہا ں احتساب کے کمزور نظام کی وجہ سے ایسے چندوں کی جو دراصل سیاسی سرمایہ کاری ہوتی ہے، کوئی باز پرس نہیں کی جاتی۔ سینٹ یا اسمبلیوں کے تمام امیدواروںکی نامزدگی صرف چندے کی بنیادپر ہی نہیںکی جاتی‘ خاص طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کے لیے جہاں امیدواروں کا چنائو عوام کے براہِ راست ووٹ سے ہوتا ہے، سیاسی جماعتیں ایسے امیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں جو اپنے حلقے میں مضبوط سیاسی اور سماجی حیثیت رکھتے ہوں۔ ان ’’خاص‘‘ امیدواروں کا کردار، وفاداری،تجربہ، ایمانداری اور اہلیت نہیں دیکھی جاتی۔ سیاسی جماعت کے پیش ِ نظر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کیا یہ امیدوار انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے یا نہیں؟قابل ِ انتخاب امیدوار بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوتے ۔ اُنھوںنے اپنے حلقے میں مضبوط سیاسی حیثیت قائم کرنے اور سیاسی جماعتوںکی نظر میں آنے کے لیے بہت ’’محنت ‘‘ کی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں صرف خاندان اور زمین کا مالک ہونا کافی نہیںہوتا، ا س کے لیے عوام کے ساتھ رابطے میںہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایسے امیدواروںکو عوامی توقعات اور خواہشات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ یہ بات عیاں ہے کہ امیدواروں کی اہلیت جانچنے کے لیے سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ مستحکم جمہوری معاشروں میں کسی بھی حلقے کے عوام کے پاس حق ہوتا ہے کہ وہ عوامی عہدے کے لیے امیدواروں کو خود نامزد کریں۔ امریکہ اور برطانیہ میں عوام انتخابات سے قبل ووٹنگ کے ذریعے امیدواروں کو نامزد کرتے ہیں۔ اس نظام کو ’’ابتدائی چنائو‘‘ (primaries) کہا جاتا ہے۔تاہم ہمارے ملک میں ابھی ایسے سیاسی اور جمہوری رویوں کی آبیاری میں کافی دیر ہے کیونکہ ہمارے ہاں ادارے کمزور اور شخصیات مضبوط ہیں لیکن چونکہ جمہوریت ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے آنے والے وقت میں ہم بہتر جمہوری رویوں کو فروغ پاتے دیکھیں گے۔ اس وقت ہمیں مل کر مثبت رویوں ، سیاسی شعور اور تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں غیر جمہوری رویہ رکھنے والی جماعتوں اور اُن کے منفی ہتھکنڈوں کو چیلنج کرنا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت نہیں ہوگی تو وہ جمہوری نظام کے نام پر خاندانی ترجیحات کو قومی مقاصد کے سانچے میں ڈھال کر عوام کا استحصال کرتی رہیںگی اور سیاست ایک منافع بخش کاروبار بنا رہے گا۔