"RBC" (space) message & send to 7575

آج بھی بھٹو زندہ کیوں ہے ؟

جنرلوں اور اُن کے تعینات کردہ ججوں نے مخصوص مقاصدکے لیے، جو سیاست پر ذاتی اور کچھ طاقتور اداروں کے کنٹرول کے سوا کچھ اور نہ تھے، کی خاطر تیس سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ اگر بھٹو صاحب جن کی مقبولیت کی جڑیں عوام میں بہت گہری تھیں، کچھ عرصہ اور زندہ رہ کر سیاسی عمل میں شامل رہتے تو ان لوگوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ممکن نہ رہتی۔ اُس وقت دقیانوسی سوچ رکھنے والے سیاست دانوں اورسیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایک مخصوص دھڑے کو قدامت پسند سوچ رکھنے والے ضیا ء الحق اور اس کے فوجی اقتدار کی صورت میں سرپرستی میسر آگئی ۔موقع پرست سیاست دانوں اور مذہبی رہنمائوں نے چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنے کے لیے فوجی جنرلوںسے گٹھ جوڑ کر لیا تاکہ بھٹو صاحب کو منظر عام سے ہٹا کر پاکستان، اس کے معاشرے اور عوام کو اپنی مٹھی میں لیا جا سکے۔ ضیا ء الحق کے وفاداروں اور حامیوں کو یہ دیکھ کر سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ ہر دور میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا یہ نعرہ سنتے ہیں کہ ’’آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ جب بھی کوئی شخص اندرون ِ سندھ، جنوبی پنجاب اور دوسرے صوبوں کے بڑے حصوں میں سفر کرتا ہے تو اُسے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بھٹو اور ان کی سیاسی تحریک نے درحقیقت عوام کی بڑی تعداد، معاشرے کے مظلوم طبقوں اور لاچار افراد کوسیاسی طور پر بیدار کرتے ہوئے اُن کو ایک طرح کی عزت ِ نفس اور اعتماد دیا ہے۔ایسا صرف کسی ایک نسل تک محدود نہیں ، بلکہ بھٹو خاندان کی یاد اور اس سے وفادری نسل در نسل جاری رہتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کسی بھی سیاسی تجزیہ کار کو، جو سیاسی کارکردگی کامعروضی انداز میں جائزہ لینا چاہے، یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ مایوس کن کارکردگی کے باوجودپی پی پی کی اپنے روایتی انتخابی حلقوں میں مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیںہوئی ۔اس کی وجہ سیاست کے سکہ بند اصول نہیں بلکہ ہمارے دیہی علاقوں کا سماج اور اس سے جُڑاہوا پی پی پی کا کلچر ہے جو اس سوال کا جواب دیتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چاہے پی پی پی کی کارکردگی کچھ بھی ہو، روایتی علاقائی اور سماجی حلقوں میں اس کی حمایت موجود رہتی ہے ۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ عام غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اس کے حامی ہوتے ہیں۔ اگرچہ پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے اور عوامی فلاح کی سیاست کے ایوان بہت سے سیاسی نعروں سے سج چکے ہیںلیکن پی پی پی کا نعرہ…’’روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘…سادہ اور موثر ترین سیاسی نعرہ مانا جاتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ پی پی پی اس دعدے کو پورا کر پائی یا نہیں، لیکن اسے سن کر غریب عوام کی آنکھوں میں آج بھی چمک سی ابھر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے غریب عوام کی حامی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ سیاست ، خاص طور پر عوامی سیاست میں حقائق سے زیادہ تصورات کی پذیرائی ہوتی ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے کہ ’’آج بھی بھٹو زندہ ہے ‘‘ کے پیچھے کیا حقیقت ہے اور اس حقیقت سے اس پارٹی کے بانیوں اور بھٹوصاحب کے رفقاء نے کیسے فائدہ اُٹھایا، ہمارے معاشرے میں شخصیت پرستی کے رجحان کو پرکھنا ہوگا۔ مجموعی طور پر پاکستانی عوام، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے باسی، شخصیات سے محبت کرتے ہیں۔ اگرچہ دوسرے علاقوں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے، لیکن ان دونوں صوبوں میں اس کا رنگ بہت گہرا ہے۔ ان صوبوں کی لوک داستانوں میں مختلف ہیروز کا ذکر موجود ہے جن میں سے کچھ رومانوی داستانوں کے ہیروز بھی ہیں۔ حقائق کی دنیا میں جہاں ایسے افراد کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، رومانوی دنیا میں ان کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رومانوی دنیا میں بہادری، دلیری، غیرت ، محبت اور نفرت کے اپنے پیمانے ہیں۔ اب ہمارے عام سیاسی پنڈتوں کو جس بات کی سمجھ نہیں آرہی ، وہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب سیاسی، معاشی اور سماجی حد بندیوں سے ماورا ہو کر اُس رومانوی دنیا تک رسائی حاصل کر چکے ہیں جہاں محبت کے پیمانے بہت مختلف ہوجاتے ہیں۔اُس محبت سے پھوٹنے والی دانائی کو عدالتی سزا شہادت نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ حالات و واقعات بھی بھٹو صاحب کے ’’حق ‘‘ میں تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما ایک فوجی آمر کے سامنے جھکنے کے بجائے ہنس کر تختہ دار کو چوم رہے ہیں! عوامی تخیلات کو اور کیا چاہیے ؟اب شہری تعلیم یافتہ دانائی منطق کے دریابہاتی رہے، محبت کے اس چشمے کو مات نہیں دی جاسکتی۔ کوئی بھی آئینی موشگافی اُن کو شہادت کے رتبے سے نہیں گرا سکتی۔ اور پھر صرف باپ ہی نہیں، اُن کے دو جوان بیٹے اور شہرہ آفاق بیٹی بھی اسی راہ سے گزر کر شہادت کے رتبے کو پہنچے۔ یہ سندھ بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نادر مثال ہے۔آخری بات یہ ہے کہ ہمارے دیہات کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں مزارات آج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں اُن کی ’’سند ‘‘ حرف ِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ بھٹو صاحب کے سیاسی ورثہ نے مزارات کی اہمیت کو سمجھ کر ہر مزار کو پہلے سے بھی بڑا تعمیر کیا ہے۔ سندھ کی دھرتی کے یہ روشن مزارات ہماری مقبول ِ عام سیاست کو متاثر کرتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں