آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انتخابی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال نے انصاف کے ایک پرانے اصول کو بدل دیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب تک کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملتا ،اُسے بے گناہ سمجھا جائے گا۔ یہ اصول سول آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق سے ہم آہنگ ہے اور یہ ہمارے آئین کا بھی حصہ ہے۔ اسے اسلامی، مغربی اور روایتی اصولوں کی روشنی میں طے کیا گیا ہے؛ تاہم گزشتہ دنوں سامنے آنے والے معاملات سے ایسا لگتا ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز نے کینگرو کورٹس کی طرح کام کیا اور سیاسی مخالفین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات اور پوچھے گئے چند ایک سوالات کے بعد کاغذات مسترد کر دیے۔ یہ یقیناً انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں اور معلوم تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ٹی وی کیمرے لا یعنی سوالات اور ان کے سامنے امیدواروں کی بے بسی ریکارڈ کر رہے تھے اور چند لمحوں کے بعد وہ بریکنگ نیوز بن رہی تھیں۔ اس طرزِ عمل نے جانچ پڑتال کے عمل کو ایک طرفہ تماشا بنا دیا۔ ان سوالات کا کھوکھلا پن انتخابی امیدواروں کی کم علمی یا لاعلمی سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ لگتا ہے کہ اپیلوں کی سماعت کرنے والا الیکشن ٹریبیونل بھی مکمل انصاف کرنے میں ناکام رہا۔ یہ درست ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ایماندار اور اخلاقی طور پر صاف ہونا چاہیے۔ یہ ایک عالمی اصول ہے کہ عدالت سے سزا یافتہ شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا ۔ تاہم یہاں مسترد ہونے والے کاغذاتِ نامزدگی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ امیدواران عدالت سے سزا یافتہ تھے بلکہ ان کی بدعنوانی کی کہانیاں میڈیا میں گردش میں تھیں اور ان میں سے کچھ کے خلا ف کیس بنائے گئے تھے، جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابی امیدواروں کو محض شبے کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جاتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شبے میںکتنی جان تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ عدالت نے کیا فیصلہ کیا؟ اور عدالت کی طرف سے فیصلہ آنے تک وہ شخص مجرم نہیں ہے۔ تاہم پاکستان میں جو دیکھنے میں آیا وہ اس کے برعکس ہے۔ اس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کر دیا۔ اس دوران بیرونی دنیا ہمارے طرزِِ عمل پر ششدر تھی۔ چلنے والی بہت سی بریکنگ نیوز، بشمول سابقہ جنرل مشرف کی گرفتاری اور فرارکی کہانی، کی وجہ سے پاکستان کا امیج خراب ہوا۔ چونکہ فی الحال یہ تمام الزامات ہمارے نظریات ہیں، ہم خود فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں کہ کوئی شخص یا جنرل مشرف مجرم ہیں یا نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے اور جب تک ایسا نہیںہوتا، ہر کوئی بے قصور ہے۔ تاہم جیسا کہ ہم انصاف کے تقاضوں کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس رویّے کے ہمارے نظام انصاف پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اگر عوامی رائے اور میڈیا نے ہی ہر معاملے کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر عدالتوں کا کیا مقصد ہے؟ اس سے دنیا کی نظروں میں پاکستان کی بے توقیری بڑھے گی۔ جہاں تک قانون کے دائرے سے باہر انسانی کردار اور اخلاقی رویّے کا تعلق ہے تو بہتر ہے کہ اُسے معاشرے، عوامی رائے اور انتخابی عمل پر چھوڑ دیا جائے۔ عدالت اس میں فریق نہ بنے۔ دنیا میں کچھ غیر جمہوری اسلامی ریاستوں کے علاوہ کہیں بھی ایسا ضابطہ موجود نہیں ہے جو شہریوں کی اخلاقی قدریں جاننے پر اس قدر زور دیتا ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سابقہ فوجی آمریت کے دور میں ان میں کچھ دفعات کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے۔ عملی ثبوت سامنے نہیں آیا، سوائے اس کے کہ معاشرے میں منافقت پروان چڑھنے لگی ۔ بہتر ہوتا اگر امیدوار کے اخلاقی کردار کا تعین اُس کے حلقے کے ووٹر کرتے۔ شاید تصور یہ تھا کہ اگر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلے میں امیداواروں کی چھانٹی ہو گئی تو ایک بہتر جمہوری نظا م قائم ہو سکتا ہے۔ نہیں جناب! ایسا نہیں ہو گا! اس سے صرف پسند ناپسند کا تاثر انتخابی عمل کی شفافیت کو مجروح کر دے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سیاست دان فرشتے نہیں ہیں اور پُوری دنیا میں ایسا ہی ہے؛ تاہم جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو عوامی دبائو، قانون کی حکمرانی اور شہری رویّے اُنہیں بہتر بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے لیے جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بھی دیانت دار امیدوار منتخب ہو جائیںگے لیکن ایسا راتوں رات نہیںہو گا۔ اس کے لیے ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہو گا۔