اس وقت پاکستان اور بھارت میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو کئی عشروںکی دشمنی اور مخاصمت کے بعد اب صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں لیکن سرحدکے دونوں طرف عوام کے جذبات ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں کہ وہ دشمنی، جنگ اور اس کی دھمکیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ ان میںسے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت بھارت اور پاکستانی پنجاب کے لوگ کیا سوچ رکھتے ہیں؟ اس وقت بر صغیر کے معروضی حالات اس بات کے متقاضی ہیںکہ ماضی کی دشمنی کو دفن کرتے ہوئے حال کی طرف دیکھا جائے۔ اسی میں دونوں کا فائدہ ہے۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ بھارت اور پاکستان، جن کے درمیان بہت سے تنازعات کا حل سامنے آنا ابھی باقی ہے، امن، دوستی اور معتدل رویوں ، جو سرحد کے دونوں رہنے والوں کو معاشی فائدہ پہنچائیں، کی طرف قدم کیسے بڑھائیں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ معاشی میدان میں پیش رفت کے امکانات روشن ہیں، اس لیے انہی سے آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشی سرگرمیاں دوطرفہ ہونی چاہئیں تاکہ کوئی قوم بھی یہ نہ سمجھے کہ دوسری قوم تعلقا ت کی آڑ میں اپنا اُلو سیدھا کررہی ہے۔ ان سرگرمیوںکا ہدف بھارت اور پاکستان کی مارکیٹ کا نظام ہونا چاہیے ۔ یہ نظام آزادی کے وقت سے موجود ہے لیکن اس پر سمندر پار اداروں کی اجارہ داری ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان معاشی سرگرمیاں جاری ہوجاتی ہیں تو دیگر معاملات پر بھی بات کرنے کا پہلو نکل آئے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عوام ایک دوسرے کو جاننے لگیں گے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ باہم رنجشیں اب ختم ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان یکساں حجم کی معاشی قوتیں بھی نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا، خاص طور پر ابتدائی ایام میں، جب پاکستان اور بھارت کی معاشی قوت میں مطابقت پائی جاتی تھی لیکن اب پاکستان اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو اسی وجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک، خاص طور پر بھارت، کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بھارت اورچین ہمارے بڑے ہمسائے ہیں، چنانچہ یہ ہمیں اپنی معیشت بڑھانے کے لیے ایک راستہ دکھاتے ہیں۔ ہماری جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ ہم کسی ایک طرف نہیں دیکھ سکتے، اسی لیے ہمیں سب کے ساتھ تعاون کی فضا قائم کرنا ہو گی۔ دراصل اس وقت ہمیں بھارت اورچین کے ساتھ متوازن تعلقات پیدا کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ سکیورٹی کے مسائل کیا ہیں؟یہ سوال باقی افراد کی طرح میرے ذہن میں بھی ہے ۔ تاہم یہ سوچ بھی اپنی جگہ پر ہے کہ اگر ہم بھارت، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے ، سے معاشی تعلق توڑے رکھیں گے تو کیا وہ مسائل حل ہو جائیںگے؟ اس کے علاوہ، ہماری معیشت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم قریبی ممالک کے ساتھ تجارت بڑھائیں ۔ اس وقت تجارت اور جغرافیائی قربت کی بے حد اہمیت ہے۔ کوئی ملک بھی اپنے ہمسایوںسے تعلقات توڑ کر معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک، جیسا کہ یورپی یونین اور ASEAN باہمی تجارت پر زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ایسا کرنے سے کیوں ہچکچاتا ہے؟ امریکہ اور چین باہم رقابت کے باوجود تجارت کر رہے ہیں تو کیا پاکستان اور بھارت کو ان خطوط پر نہیں سوچنا چاہیے؟ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔
اس وقت پاکستانی پنجاب میں، جو آبادی، وسائل اور ریاستی اداروں پر اختیار ات کے حوالے سے سب سے بڑا صوبہ ہے، یہ سوچ تبدیل ہورہی ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے۔ تاریخی طورپر کشمیر اور بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے حوالے سے یہاں بھارت دشمنی کے جذبات بہت گہرے رہے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں تبدیلی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ دراصل پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جو آزادی کے وقت تقسیم کے عمل سے گزرا۔ اس کا مطلب ہے کہ تقسیم ہند کا سب سے بڑا گھائو پنجاب کے سینے پر لگا اور اسی کی تقسیم سے تقسیم ہند کا عمل مکمل ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ثقافت، زبان، تاریخ اور روایات معاشروں کو اکٹھا رکھتی ہیں ۔ مذہب بھی رواداری اور اخوت کا پیغام دیتا ہے لیکن ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کچھ اور فیکٹر بھی ضروری ہیں۔ مذہب زمان ومکاںسے رشتہ توڑتے ہوئے انسانوں کو آفاقی معاملات میں یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ثقافت اور زبان انسانوں کے درمیان یگانگت پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ مشرقی اور مغربی پنجاب میں قربت ان دونوں ممالک کو قریب لا سکتی ہے۔
چنانچہ وقت کی ضرورت ہے کہ ان دونوں صوبوں کے درمیان ثقافتی سرگرمیوں کو تیز کیا جائے۔ ان کے درمیان بہت سی اقدار مشترک ہیں، انہیں اجاگر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، طلبہ، کھلاڑی، فن کار اور دیگر افراد کو ایک دوسرے معاشرے، جو دراصل ایک معاشرہ ہی ہے، کا دورہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے مثبت اور باعمل سوچ کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں مشرقی پنجاب کے ایک شہر لدھیانہ میں ہونے والا فائنل کبڈی میچ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس میں کہنے کو تو دو ممالک کی ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں لیکن دراصل ان میں دونوں صوبوں کے کھلاڑی ہی شامل تھے۔ اس طرح پنجاب کے جوانوں نے برصغیر کے کروڑوں افراد کے دل موہ لیے۔ ایسے مواقع بار بار آنے چاہئیںتاکہ دونوں طرف کے لوگ قریب آ سکیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ موجود حکومت ان خطوط پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔