"RBC" (space) message & send to 7575

ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟

موجودہ صورت ِ حال ہمیں کس طرف لے کرجائے گی؟اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہمارے نئے اور پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو تیز مارچ کرنے ، بلکہ برق رفتاری سے سرپٹ بھاگنے کا بہت شوق ہے، اس لیے وہ دھیمی رفتار پسند نہیںکرتے۔ سیاست میں شہ سواری بلکہ شہ زوری کا رواج رہا ہے، اس لیے عقل اور منطق سے بات کرنا، دوسرے کی سننا اور رویوں میں لچک پیدا کرنا ہمارے معاشرے کا حصہ معلوم نہیںہوتا۔ اب منہ زور گھوڑے اصطبل سے باہر آچکے ہیں، انقلاب اور آزادی مارچ کرنے والے شہ سوار باگیں چھوڑنے والے ہیں۔ کیا اس طرح سرپٹ بھاگتے ہوئے عقل و احتیاط وغیرہ کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے آزادی یا انصاف کی منزل آجائے گی؟کیا قوم ایک مرتبہ پھر منزل سے بھٹکادی جائے گی؟یقین رکھنا چاہیے کہ ایسا نہیںہوگا لیکن خدشات تو اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ 
دوسری طرف حکومت کے پاس ریاستی طاقت ہے ۔ وہ انقلابیوں کو ان کے قیدِ مقام سے گزر کر راہ گزر میں غُل غپاڑا مچانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ زور آزمائی دیکھنے میں آئے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک ایسے سیاسی ڈراموں کا کتنی دیر تک متحمل ہوسکتا ہے؟اس کے سیاسی اور جمہوری نظام پر کیا اثرات مرتب ہوںگے؟ اس کی تفہیم کے لیے ہماری سیاسی جنگوںسے بھرپور تاریخ کا جائزہ ہماری رہنمائی کرسکتا ہے ۔ 
اس بات میںکوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ پاکستان سیاسی بیان بازی کا تھیٹر ہے اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک اپنی موجودگی ثابت کرتا رہتا ہے۔ ہر کوئی قوم کی مسیحائی کرنے کی خاطرزکام کا علاج بھی جراحت سے کرتا ہے۔اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سیاسی قبرستان بہت سی تحریکوں کا نشان ِ منزل ہے۔ کسی بھی نئے انقلاب کے لیے عازم سفر ہونے سے پہلے ہمیں حصول ِعبرت کی خاطر اس قبرستان پر ایک نگاہ ضرور ڈال لینی چاہیے۔ دراصل ہماری سیاسی تحریکیں کسی آئینی یا سماجی بہتری کے لیے نہیںبلکہ پاکستان کوجنت نظیر بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ عوام کی توقعات کو ابال دے کر عظیم رہنما اپنے لیے کھوٹے مال کو کھرا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس لیے آج رہنمائوں کی جاہ وحشمت اور پرتعیش زندگی اور عوام کی زبوں حالی اس بات کا چیخ چیخ کراعلان کرتی ہے کہ ماضی میں انقلابی مارچ اور سیاسی تحریکیں کس قدر ''کامیابی ‘‘ سے ہمکنار ہوئیں۔ ماضی ایک اچھا استاد ہوتا ہے اور ہمارے پاس تو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ تاہم سیاسی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ذہن بند نہ ہوں۔ رہنمائوں کی جذباتی چیخ و پکار اور شور شرابے کاایک مقصد عوام کی استدلالی صلاحیت کو مائوف کرنا ہوتا ہے ۔ تجربات بتاتے ہیں کہ وہ اس مقصد میں کامیاب رہتے ہیں۔ ہر عیار طبع خریدار کے سامنے عوام اپنی متاع ِ عقل کو ہنسی خوشی گروی رکھ دیتے ہیں۔ وہ فہم کی بجائے تعصبات کا درس دے کر عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ قارئین اپنی سیاسی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے موجودہ صورت ِ حال کو سمجھنے کی کوشش کریں، تاہم عوام تو درکنار، ہمارے رہنما بھی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ویسے بھی خود کو عقلِ کُل سمجھنے والوں پر ''کلام ِ نرم ونازک بے اثر‘‘۔ 
آج جب اسلام آباد، راولپنڈی‘ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کی فضا انقلاب اور آزادی مارچ کے نعروںسے لبریز ہے، ہمیں تین بنیادی معروضات پر غور کرنا چاہیے۔۔۔پہلی با ت یہ ہے کہ اپنے ذاتی اور محدود مقاصد، انتقام اور غیر لچک دار رویوں کی وجہ سے سیاسی اور جمہوری عمل جمود کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں اگر ریاست غیر فعال ہوگئی تو فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ چاروں مواقع پر کوتاہ نظرسیاست دان حالات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ۔ ایسا نہیں کہ ماضی میں فوجی قیادت کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست دانوں کی ناروا چپلقش نے اُنہیں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ 
ایک سیاسی حکومت کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اُس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے، اس لیے وہ اقتدار میں رہ سکتی ہے جبکہ فوجی حکومت کے پاس یہ موقف ہوتا ہے کہ سیاسی افراتفری اس حدتک بڑھ گئی تھی کہ اُن کے پاس مداخلت کرنے کے سوا کوئی چار ا نہ تھا۔ چار مرتبہ براہ ِ راست مداخلت کے علاوہ عسکری اداروں نے پس ِ پردہ رہتے ہوئے سیاسی محاذآرائی کو اپنے تئیں ختم کرنے کی بھی کوشش کی۔ ان مواقع پرفوج نے متحارب سیاسی قوتوں کو اپنا فارمولہ دیا ۔ سیاسی جماعتوںکے پاس اُسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر محاذآرائی کے نتیجے میںسیاسی ، جمہوری اور آئینی جمود پیدا ہوگیا اور تمام عمل پٹری سے اتر گیا۔ اس کے بعد پھر ملک کو پٹری پر واپس لانے کے لیے طویل عرصہ بسر ہوگیا۔ اس دوران آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا جاتا رہا۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر سیاسی کلچر پروان نہ چڑھ سکا اور نہ ہی لوگ اور سیاسی جماعتیں جمہوری رویے اپنا سکے۔ پیدا ہونے والے خلا میں مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ اس کے نتیجے میں آج ملک دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور تنگ نظری کا شکار ہے۔ یہ مصائب ہم پر آسمان سے نازل نہیں ہوئے اور نہ ہی بیرونی طاقتوں نے سازشیں کرتے ہوئے ہم پر مسلط کیے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیںہونا چاہیے۔ 
تیسری بات یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام اورافراتفری کے نتیجے میں جرائم، بدعنوانی اور منفی سیاسی مہم جوئی جیسے برائیوںنے معاشرے کو گھیر لیا ہے۔ ہر کوئی راتوں رات دولت مند ہونا چاہتا ہے۔ اگر وہ سیاست دان ہے تو اُسے اقتدار کا شارٹ کٹ چاہیے، اگر وہ مذہبی رہنما ہے تو اس کا اصرار ہے کہ صرف اس کا تشریح کردہ بیان ہی درست ہے۔ہمارے سیاست دان سب سے پہلے دولت، خاندان ، زمین، نسل یا مذہب کو استعما ل کرتے ہوئے اپنی طاقت بڑھاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے سیاسی سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ میڈیا ہائوسز کو بھی اپنے سیاسی بازو کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آئینی راستہ اختیار کرنے کی بجائے مہم جوئی کرنے سے گریز نہیں کرتے چاہے اس کے لیے ملک کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ 
آج آزادی مارچ اور انقلاب مارچ شیرو شکر ہوچکے ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں وہ ''کامیاب‘‘ رہتے ہیںتوہم ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی جمود دیکھیں گے۔ہو سکتا ہے کہ اُس جنگ میں کوئی بھی فاتح نہ ہو۔۔۔ صرف جمہوریت ہی شکست خوردہ ہو۔ دراصل ہمارے سیاست دانوں کو ایک بات سیکھنی ہے کہ بہتری کے لیے بگاڑ پیدا کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہرکوئی نظام کی بہتری چاہتا ہے لیکن اس کے لیے بگاڑکا راستہ اپنانے پر تلاہوا ہے۔ سیاست میں غیر لچک دار رویے ہوں تووہ سیاست نہیں آمریت بن جاتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ آنے والے دن ملک وقوم پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں