پوری منصوبہ بندی اورمہارت سے اٹھائے گئے موجودہ بحران نے پارلیمنٹ کی حمایت اور آئین سے تقویت پانے والی منتخب شدہ حکومت کو بے حد کمزور کردیا ہے۔ تادمِ تحریر احتجاجی مظاہرین اسلام آباد کے ریڈ زون میں موجود ہیں اور حکومت ہرگز نہیں جانتی کہ ان کو یہاںسے کیسے نکالے۔ یہ حکومت اور ریاست کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ ریاست اور حکومت دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک ریاست حکومت نہیں ہوتی، اسی طرح حکومت بھی ریاست نہیںہوتی۔ایک ریاست آئینی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ حکومت ان عناصر کو چلانے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ عوام کی مرضی سے حکومت کو دی گئی ذمہ داری آئینی ذمہ داری کہلاتی ہے۔ ریاست اور حکومت میںعلمی فرق ہونے کے باجود عملی طور پر ان کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے تو ریاست کو کامیاب مانا جائے گا ، اس کے برعکس حکومت کی کمزوری کو ریاست کی کمزوری معمول کیا جائے گا۔آج جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں ایک ناکام ریاست ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام ہوئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست ایک حکومت کو تقویت دیتی ہے لیکن اپنی غلطیوں، ناقص ایجنڈے، بدعنوانی اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کی وجہ سے حکومت ریاست کو کمزور کردیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہونے کے باجود ایک کمزور ریاست ہے۔ ایک ریاست کی طاقت یا کمزوری کا دارومدار اس کے سہ جہتی تعلق سے ہوتا ہے۔۔۔اس کا آئین، معاشرے اور گورننس کے ڈھانچے سے تعلق ۔ یہ سہ رخی تعلق اس کی کمزوری یا طاقت کا تعین کرتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروںسے ان تینوں جہتوں میں ہمارے ہاں ریاست کی اتھارٹی کمزور ہو رہی ہے۔ یہ اپنی سرزمین کے ایک بڑے حصے اور وہاں موجود آبادی پر اپنے قوانین نافذ کرنے میں ناکام رہی ۔
یہ کسی بھی حکومت کا احساس ِ ذمہ داری اور اپنے عوام کے بارے میں فرض شناسی ہوتی ہے جو ان تعلقات کو پروان چڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ ماضی یا حال کی کسی حکومت نے ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دلیرانہ فیصلے نہیں کیے ۔ اس ضمن میں بہت سے شعبوں میں درکار اصلاحات سے بھی چشم پوشی کی گئی۔ دوسری طرف اس افراتفری، سماجی اور سیاسی عدم استحکام اور ریاستی کمزوری سے فائدہ اٹھانے والے گروہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اصلاحات کی ہرکوشش ناکام ثابت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ مفاد پرست طبقے کی طرف سے کی جانے والی طاقت ور مزاحمت ہے۔ اس صورت ِحال میں انتشار پھیلانے والے گروہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور لوگوں کا ایک طبقہ مروجہ نظام کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
یہ ناکامی اجتماعی ہے اور اس کا سلسلہ ہر حکومت کے دور میں بلا روک ٹوک جاری رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک حکومت کے سر نہیں ڈالی جاسکتی۔ آج زندگی کے ہر شعبے میں پاکستان کو اس قدر سنگین مسائل کا سامنا ہے کہ کوئی حکومت ، چاہے اس کے پاس کتنا ہی بھاری مینڈیٹ کیوںنہ ہو، ان پر اکیلے قابو نہیں پاسکتی۔ اسے دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں میں نہ تو قومی جذبہ ہوتا ہے اور نہ ہی مل کر کام کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ان کا حل کیا ہے لیکن تقسیم کا شکار، قواعد وضوابط سے آزاد اور قابل ِ اعتراض کردار کے حامل سیاست دانوں کی وجہ سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے مسائل پر قابو پا کر آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ بہت سے قومی مسائل پر حکومت اور اس کی حریف جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کرتی ہیں۔
اگرہم سازش کی تھیوری فی الحال ایک طرف رکھ کر عمران خان اورطاہر القادری کے بیانات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں تو
مروجہ نظام کے حوالے سے ان کی مایوسی قابل ِ فہم ہے۔ ان کی طرف سے حکمران طبقے پر کی جانے والی تنقید بھی بے بنیاد نہیں ۔ جو جن الزامات کا اعادہ کرتے ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اُن کی صرف سے ایک منتخب شدہ حکومت کو پرتشدد طریقے سے گرانے کا طریقہ غلط ہے ، لیکن اٹھائے گئے ایشوز کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے ، اچھے مقاصد کے حصول کے لیے بعض اوقات اختیار کیے گئے طریق ِ کار کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت طاہر القادری اور عمران خان کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ ان کا ''آزادی‘‘ یا ''انقلاب‘‘ کا نعرہ اس لیے قابل ِ اعتراض اور قابل ِ مذمت ہوگیا ہے کہ وہ ایک نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہیں۔ اس ضمن میں وہ کسی کی بات سننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔
ہماری تاریخ میں کسی دو سیاسی رہنمائوں یا پارٹیوں کو اس قدر میڈیا کوریج نہیں دی گئی جتنی عمران خان اور طاہرالقادری کو حاصل ہوئی۔ اس قدر مہنگی لائیوٹیلی کاسٹ کی سہولت کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔ تاہم اُنھوںنے کیمرے اور مائیک کو ریاست کے نظام کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ ''چوروں اورلٹیروں ‘‘کا گڑھ ہے، یہ حکومت غیر قانونی ہے جبکہ (ان کے مطابق) پولیس فورس وزیرِ ِ اعظم کی ذاتی ملازم ہے۔ وہ تواتر سے الزام لگارہے ہیں کہ انتخابی عمل میں دھاندلی ہوئی جبکہ اس میں میڈیا کے کچھ دھڑے اور سابقہ اعلیٰ عدلیہ بھی اس میں شریک تھی۔ تاہم وہ اس نظام کو بہتر بنانے کی بجائے اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کسی بھی رہنما یا سیاسی جماعت کی ساکھ کا اندازہ انتخابی عمل سے ہوتا ہے۔ اس کے بغیر کسی کو وزیر ِ اعظم یا حکمران کیسے مانا جاسکتا ہے یا کسی کے ہاتھ میں زمام ِ اختیار کیسے دی جاسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں یا تو طاقت سے فتح کی جاسکتی ہیں(جو ان کے لیے نا ممکن ہے) یا آئینی ڈھانچے کے مطابق چلائی جاتی ہیں۔
اب ریاست الزام لگانے والوں کی سیاسی ساکھ کا جائزہ کس طرح لے؟ میڈیا پر طویل تقریریں چل رہی ہیں۔ ان دنوں رہنمائوں کے کرداراور تصورات ، ان کی اقتدار پر قابض ہونے کی خواہش اور ان کے سیاسی نظریات سے عوام اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ اس بحران نے کم و بیش ہر ادارے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر مظاہرین حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو مستقبل میں حکمرانوںکی تبدیلی مظاہرین کی طاقت سے ہی عمل میں آئے گی اور پاکستان ہمیشہ کے لیے افراتفری اور انتشار کا شکار رہے گا۔ چونکہ لوگ عمران خان اور طاہرالقادری کے خیالات اور موجودہ حکومت پر لگائے گئے الزامات کو تقریباً ازبر کرچکے ہیں، اس لیے ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات کا انتظار کریں اور پھر لوگوں کو سماجی انقلاب سے بہرہ مند کریں۔