کسی بھی دو ممالک کے درمیان بہت کم ایسے تعلقات کا تسلسل دیکھنے میں آیا ہے جیسے پاکستان اورچین کے درمیان ہیں۔دونوں ممالک کے قائدین اکثر علامتی زبان( ہمالیہ سے بلند ، سمندر سے گہری) استعمال کرتے ہوئے اس پارٹنر شپ کی اہمیت بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کی جہت کا علامتی زبان بھی احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ بہت گہری اور وسعت پزیرپاک چین دوستی دونوں ممالک کے باہمی معاشی مفادات سے لے کر دفاعی صلاحیت کااحاطہ کرتی ہے۔
پاک چین دوستی کا آغاز سرد جنگ کے دنوں سے ہی ہوگیا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا پاکستان کے امریکہ کے ساتھ گہرے روابط تھے ۔ آج بھی پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ایک حقیقت ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کے امریکہ سمیت ہر اُس ملک کے ساتھ تعلقات رہے ہیں جو چین کو گھیرنے اور اسے اپنی ایک حدمیں رکھنے کا خواہش مند تھا؛ تاہم پاکستان نے دورر س فیصلے کرتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی اور ایسا کرتے ہوئے مغربی ممالک کے تحفظات اور مخالفت کی مطلق پروا نہ کی۔ پاک چین تعلقات کو دو واقعات نے ایک مستقل شکل عطاکردی۔۔۔ ایک 1963ء کاسرحدی معاہدہ اور دوسرا 1965ء کی بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران چین کا دفاعی تعاون۔ سرد جنگ کے ماحول میں یہ معمولی اقدامات نہیں تھے۔ اس کے بعد سے مختلف حکومتوں اور سیاسی حکمرانوں نے چین کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اسے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس معاملے میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دفاعی قیادت یک سو رہی ۔ داخلی طور پر تمام سیاسی جماعتیں متفق رہی ہیں۔
پاک چین شراکت داری کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ اس کو اختصار میں بیان کرنا ہو تو ''باہمی مفاد‘‘ کی اصطلاح ذہن میں آتی ہے۔ باہمی مفاد جدید اقوام کی دنیا میں ہر تعلق کا لازمی جزو ہے۔ اقوام کے درمیان یک طرفہ مفاد پر مبنی کوئی تعلق وجود نہیں رکھتا ۔ اس کے علاوہ اقوام کے درمیان تعلقات محض جذبات ، مشترکہ نظریات، تاریخی ورثے اور مذہب کی بنیاد پرنہیں پنپ سکتے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے بہت سے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی وہ نہیں جو چین کے ساتھ ہے۔ اس وقت بھی بہت سے اسلامی ممالک سے تعلقات تنائو کا شکار ہیں۔ ممالک کے درمیان مشترکہ مفاد یا ان کی کشمکش ہوتی ہے جن کی بنیاد پر ریاستیں ایک دوسرے کے قریب یا دور ہوتی ہیں۔ نہ کوئی ریاست کسی دوسری کے ساتھ یک طرفہ فیاضانہ تعلق قائم کرتی ہے اور نہ ہی یہاں تالی ایک ہاتھ سے بجنے کی کوئی روایت پائی جاتی ہے۔ ہر قوم اپنے حال اور مستقبل کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے روابط استوار کرتی ہے۔
دوطرفہ تعلقات کی جانچ کرتے ہوئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان کے مفاد ات میں یکسانیت ہے ۔ گویا ایک قوم کو دوسری سے پہنچنے والا فائدہ پہنچائے جانے والے فائدے کے برابر ہے۔ یقینا قوموں کے درمیان ایسا ترازو موجود نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ملک کوکسی ایک میدان فائدہ پہنچ رہا ہو لیکن اس سے دوسری ریاست کو کسی اور میدان میں فائدہ پہنچ رہا ہو۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ دوطرفہ مفاد کا ہونا ضروری ہے ورنہ دونوں اقوام کے درمیان تعلقات محض جذباتی سطح پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
ان معروضات کو بنیاد بنا کر ہم پاک چین تعلقات اوران میں پائی جانے والی وسعت اور فروغ پذیر تنوع کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ سے ہی توانائی کی قلت کا سامنا رہا ہے۔ اس کی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان ہو یا غلط منصوبہ بندی، غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی ہو یا بدعنوانی، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود کہ اس ضمن میں پاکستان کو گہرے اور دیرپا اشتراک کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی تھی۔ دوسری طرف چین کے پاس سرمائے، وسائل اور ٹیکنالوجی کی کمی نہیں۔ اس کی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جغرافیائی قربت کی وجہ پاکستان چینی سرمایہ کار کے لیے ایک پسندیدہ منزل ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ پاکستانی چین کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں حکومتوں کے درمیان پُراعتماد سٹریٹیجک شراکت داری موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں جدت اور مضبوطی آتی جارہی ہے۔ ایسا تعلق دنیا کے کسی دو اور ممالک کے درمیان نہیں پایا جاتا۔ چین ایک بڑی دفاعی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فروغ پاتی ہوئی معاشی طاقت بھی ہے۔ اس نے ''ایشیا انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک‘‘ قائم کرتے ہوئے عالمی معیشت میں لرزش برپا کردی ہے۔ یہ بنک پاکستان سمیت ایشیائی ممالک کی معاشی ترقی میں اہم کردارادا کرے گا۔ چینی کمپنیوں نے پہلے ہی معاشی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس سمت بہت زیادہ پیش رفت ہوتی دکھائی دے گی۔
اس پس ِمنظر میں چینی صدر شی چن پِنگ کا دورۂ پاکستان دوطرفہ تعلقات میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ کبھی کسی ملک نے پینتالیس بلین ڈالر مالیت کے بھاری بھرکم منصوبوں پر دستخط نہیں کیے ہوںگے۔ ان منصوبوں پر ہماری موجودہ حکومت گزشتہ ایک سال سے ہوم ورک کررہی ہے، اور ان میں سے چند ایک ، جیسا کہ پاک چین اکنامک کاریڈور کا تو آغاز بھی ہوچکا ہے۔ یہ کاریڈور پاک چین تعلقات کا اہم ترین سنگِ میل ہوگا۔ اسے درحقیقت گیم چینجر کہا جاسکتا ہے۔ چین کو گوادر بندرگاہ تک رسائی مل جائے گی اور اس سے اس کے مغربی حصوں تک تجارتی لنک قائم ہوجائے گا۔ یہ اپنی صنعتی پیداوار اور مصنوعات کو پاکستان کے راستے برآمد کرسکے گا۔ اس طرح اس کے مغربی حصے بھی ترقیاتی کاموں میں دیگر حصوں کی مسابقت کرسکیں گے۔ سب سے اہم یہ کہ یہ گوادر کے ذریعے اپنی توانائی کی ضروریات کو بلاروک ٹوک پورا کرسکے گا اور تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات واقعات اس کی توانائی کی سپلائی کو مطلق متاثر نہیں کریںگے۔ درحقیقت گوادرکی ترقی اور اکنامک کاریڈور کی تعمیر پاکستان کی معیشت میں انقلابی تبدیلی لائے گی۔ اس کے ذریعے پاکستان مختلف معاشی حرکیات سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بھی بڑھا سکے گا۔ تاہم اس ضمن میں حقیقی آزمائش یہ ہے کہ ان منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی موجودہ حکومت پر انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے فاٹا اور کراچی میں موجود دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کررکھا ہے۔ چینی رہنما نے پاک فوج کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا ہے؛ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان نئے دور میں داخل نہ ہوسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کا وقت قریب آیا چاہتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان فلاحی ریاست بنے گا اور اس کے شہری بھی اُن تمام سہولیات سے استفادہ کرسکیں گے جو دیگر ممالک کے شہریوں کا نصیب ہیں۔