"RBC" (space) message & send to 7575

دارالحکومت پر حکمرانی کامعیار… (2)

اپنے قیام سے لے کراب تک اسلام آباد پر بہت سے'' اجنبی افراد ‘‘نے حکومت کی ہے۔ اجنبی افراد سے مراد سرکاری افسران بھی ہیں اور ایسے سیاسی عہدیدار بھی جن کی جڑیں مقامی سیاست میں پیوست نہیں تھیں ۔ ان کی کوئی سیاسی نمائندگی تھی اور نہ ہی اُن کا اس شہر یا اس کے مستقبل سے کوئی مفادوابستہ تھا۔ اُنھوں نے وفاقی محکموں اور دوسرے اہم اداروں میں تقرریاں کرائیںاور ان عہدوں سے ملنے والے فوائد کو جی بھر کے سمیٹا۔ ان میں سے کچھ افراد دُہری شہریت کے مالک تھے، چنانچہ وہ اپنی جیبیں بھرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔
بدعنوانی اور موقع پرستی سے کام لیتے ہوئے صرف سرکاری افسران نے ہی اسلام آ باد کو نہیںلوٹابلکہ ملک پر حکمرانی کرنے والوں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، کے منظور ِ نظر افراد کو رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کا کنٹرول دے دیاگیا۔ مختلف سکیموں کے ذریعے مقتدر اداروں کے اعلیٰ افسران، بیوروکریسی، سیاست دانوں اور کاروباری افراد کو کس قدر بیش قیمت زمین سے نواز ا گیا، اس کی تفتیش ضرور ہونی چاہیے اور قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ کس نے کیا کچھ سمیٹا۔
تمام قومی دولت ایک خاندان کی حد تک سمٹتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا طاقتور کلب بن چکا ہے جس میں سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے ایک دوسرے پر دارومدار رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس طاقت ور حلقے کی اپنی اقدار اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی غیر متبدل پالیسی ہے۔ دوسری طرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اورا سے بھی کاروبار بہت مرغوب ہے۔ الزام لگایا جاتارہا ہے کہ ماضی میں مقتدر اداروں کے اعلیٰ افسران کو اسلام آباد میں پرکشش پلاٹ دیے جاتے رہے ہیں۔ ان مراعات کا مقصد ایک طرف خدمات کا اعتراف ہوتا ہے تو دوسری طرف حمایت حاصل کرنے کا طریقہ ۔ ماضی میں سیاسی حکمران‘ طاقتور اداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پلاٹ پالیٹکس کرتے بھی دکھائی دیے۔
حالیہ عشروں میں ملک کے دیگر حصوںسے دارالحکومت کی طرف ہجرت کرکے آنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی وجہ سے گردو نواح کے دیہات کی زمین کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود مارگلہ پہاڑیوں کا پُرسکون ماحول بہت سے خاندانوں، جو یہاں زمین خریدنے کی سکت رکھتے ہیں، کے لیے رہائش کے لیے بہت پُرکشش ہے۔ یہ ماحول پورے ملک میں کہیں اور نہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے سیاسی اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد سے باہر کی جگہوںکو خرید کرمستقبل میں فائدہ اٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے سیاست دانوں نے اپنے آدمی اہم عہدوں پر تعینات کررکھے ہیں۔ یہ افراد ان کے ''فرنٹ مین‘‘ کے طور پر کام کرتے ہیں تاکہ رئیل اسٹیٹ کی دنیا میں پیدا ہونے والے امکانات پر نگاہ رکھ سکیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ شہر میں بننے والے بہت سے بے کار میگا پروجیکٹس بھاری بدعنوانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان میں کمیشن اور کک بیکس کے نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں اور ''مستحقین‘‘ تک اُن کا حصہ بہت خوش اسلوبی سے پہنچایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ایسے منصوبوں کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ تھوڑے سے سفید دھن کو بہت زیادہ سیاہ دھن میں ڈھال لیا جائے ۔اس سیاہ دھن کو سفید بنانا ہمارے ملک میں آسان ترین بات ہے۔ یہ بات صرف اسلام آباد تک ہی محدودنہیں، پاکستان کے دیگر شہروں میں جائیداد کی بندر بانٹ اور مہنگے منصوبوں کے ذریعے کی جانے والی بدعنوانی کی داستانیں بھی عام ہیں۔ سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آنے والے سنڈیکیٹس عوامی وسائل پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ انہیں حاصل ہونے والی سیاسی پشت پناہی اُنہیں قانون کی گرفت کے خطرے سے بے نیاز کردیتی ہے۔ درحقیقت ایسے سنڈیکیٹس جتنے طاقتور آج ہیں،پہلے کبھی نہ تھے۔ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ ان کے وسائل اور سیاسی اثرورسوخ میں اضافہ ہے۔ جہاں تک اسلام آباد کا تعلق ہے یہاں ہر سرکاری محکمہ اپنی فعالیت کھو چکا ہے کیونکہ طاقت ور طبقوں کے مفادات عوامی مفاد سے ٹکراتے ہیں۔ یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ مفادِ عامہ میں بننے والے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو ایسے میگا پروجیکٹس پر ترجیح دی جائے گی؛ چنانچہ اسلام آباد میں نہ تو سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی سسٹم ہے ، نہ نکاسی آب کا۔ کبھی یہاں بہت سی شفاف پانی والی ندیاں بہتی تھیں لیکن اب یہ پلاسٹک کی بوتلوں، پلاسٹک بیگوں، جوس کے ڈبوں اور دیگر غلاظتوںسے اٹی ہوئی ہیں۔ اس کے پارک اور تفریحی مقامات میں صفائی کا معیار ملک میں پست ترین ہے۔ یہاں کے سرکاری شفاخانوں کے بارے کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ علاج کی غرض سے یہاں آنے والوں کو تلخ تجربات ہوتے ہیں، وہ انہی کی زبانی سنے جاسکتے ہیں۔ اخباری کالم اُس ''طرز ِبیان ‘‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اسلام آباد ماسٹر پلان، بلڈنگ کے ضوابط، مختلف اداروں کی طرف سے زمین کے حصول اور ترقیاتی پروگرامز کے بارے میں قوانین میں اتنی تیزی سے کی جانے والی تبدیلیوں کی کس طرح وضاحت کی جاسکتی ہے سوائے اس کے کہ طاقتور دھڑے اپنے مفاد کے لیے قانون سازی کریں۔ عام طور پر ایسے حلقے قانون کی نظروںسے بالا ہی بالا اپنی جیب بھرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسلام آباد کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، افسران کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ صورت ِحال تبدیل نہیں ہوپاتی۔ اسلام آباد دنیا کے ان چند دارالحکومتوں میں سے ایک ہے جہاں سے سیاسی طور پر کوئی مقامی آواز نہیں ہے۔ یہاں کے شہریوں کی سیاسی طور پر نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو یہاں شہری سہولیات کی پروا نہیں۔ اسی لیے طاقت ور اجنبی افراد یہاںکے وسائل پر ہاتھ صاف کررہے ہیں۔۔۔۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں