"RBC" (space) message & send to 7575

دم توڑتی زراعت کے ساتھ وابستگی

فصل اُگانے کے فن یا سائنس کو انگریزی میں ایگری کلچر کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ''کلچر‘‘ کا لاحقہ لگانے کے پیچھے سماجی اور منطقی وجوہ یقینی طور پر موجود ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک معاشی، جس کا تعلق پیداوار اور تنظیم سے ہے، دوسرا سماجی اور ثقافتی۔ عام فہم زبان میں سمجھنا ہو تو اس طرح دیکھ لیں کہ آم کھانے میں تو سب کو میٹھا اورمزیدار لگتا ہے مگر آم اُگانے والے کے ساتھ تلخ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ چاول کی ضرورت سب کو ہے مگر چاول اُگانے والے کو ظالم جاگیردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 
بدقسمتی سے کارل مارکس اور اس کے بعد سطحی شعور رکھنے والے نام نہاد دانشوروں کی کئی نسلوں نے تاریخی طور پر ترقی کے مادی اور صنعتی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے زراعت کو قدیم اور استیصالی پیشہ قرار دیا اور اسے قصۂ پارینہ بنانے کی کوشش کی۔ زرعی زمین سے تعلق رکھنے والے افراد کو اگر توہین آمیز نہیں تو مضحکہ خیز طریقے سے جاگیردارطبقہ اور زمین سے تعلق رکھنے والے معاشروں کو اسی پیرائے میں جاگیردار ی میں جکڑا ہوا معاشرہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس طرح زراعت کو ڈیمنائز کر دیا گیا۔ یہ برائے نام تحقیق کرنے اور یک طرفہ علم رکھنے والی شہری دانش کا جو اس معاشرے کا بہت کم علم رکھتی ہے، ایک مقبول بیانیہ تو ہو سکتا ہے کہ کس طرح مارکس سے لے کر مائو تک، ہر انقلابی نے زمین کی اشتراکیت کا نعرہ لگایا (اور زراعت کو تباہ کرکے رکھ دیا)، لیکن یہ نام نہاد ذہانت یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ جاگیردار کی نفی کرنے والے معاشروں کوقحط کا قہر بھی برداشت کرنا پڑا۔ 
تاریخ کا پہیہ اور عوام کے حقیقی جذبات ان سب کو، کم از کم اس مسئلے پر غلط ثابت کرتے رہتے ہیں ، لیکن زراعت اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے زمین کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ہمارے دانشوروں کی جامد سوچ ترقی کو صرف صنعتی پیرائے میں ہی دیکھتی ہے اوراسی کے لیے منصوبہ سازی کرتی ہے۔ امرود یا آم کی نئی اور بہتر قسم تیار کرنے والا عظیم دماغ میڈیا کی نظروں سے اوجھل، دُور اپنے فارم پر زندگی گزار دیتا ہے۔ میں اربن مفکرین کے کام اورسائنسی ترقی میں ان کی کاوش کو سراہتا ہوں، لیکن میں ان کی مشینی سوچ کو پیچیدہ تر انسانی معاملات کے فہم سے قاصر پاتا ہوں۔ میں ان معاملات کی سادہ ترین فہم کو بہتر سمجھتا ہوں۔ جہاں تک پاکستانی ترقی پسند دانش کا تعلق ہے، یہ زمین اور زرعی پیداوار کے حوالے سے لاشعوری طور پر مارکسزم کا گہرا اثر رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ دیہی آبادی ،کاشتکاروں، ان کی سوچ اور وسیب کے خلاف تعصب سے مبرّا نہیں ہے۔ ان کی طرف سے ہرآن جاری رہنے والے تنقیدی طوفان میں بمشکل ہی کوئی گہرائی، عقلی عرق ریزی اور ٹھوس حوالے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لفظ ''جاگیردار‘‘ سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے اور اس بیچارے کی سرکوبی کرنا ہی عقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ شاید اسی لیے شہری دانش زرعی زمینیں ختم کرکے اُن کی جگہ رہائشی اسکمیں بنا رہی تاکہ جتنی جلدی ہو، زراعت کا جھنجھٹ ملک سے ختم ہو۔۔۔۔۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! 
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے محنت کش کاشت کار جو خود زمین پر محنت کرکے قومی پیدوار میں حصہ ڈالتے ہیں، ملک میں اپنی حقیقی شناخت، معاشرے اور ثقافتی رہتل کی حفاظت اور قومی معیشت میں اپنے کردارکے اعتراف سے محروم ہیں۔اگرچہ میں گزشتہ چار دہائیوں سے درس و تدریس میں مصروف ہوں اور میں رہتے سانسوں تک اسی شعبے سے وابستہ رہنا چاہوںگا لیکن مجھے اپنے کسان ہونے پر بے حد فخر ہے۔ درحقیقت میں شروع سے لے کرآخر تک ایک کاشت کارہی ہوں۔ میں اس شعبے کے حوالے سے حکومت کی بوسیدہ پالیسوں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر نام نہاد اور مبتدی شہری دانش کی بوسیدگی پرزیادہ موثر انداز میں بات کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے اور سماج سے ہے اور یہی میری شناخت ہے۔ اس وسیب کے ساتھ میری اٹوٹ وابستگی ہے اور یہ ہمیشہ رہے گی ؛ تاہم ایک حقیقت اپنی جگہ پر موجود (اور نام نہاد دانش جو فاصلے سے ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہے) کہ زرعی شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرتے اور بہت کم آمدنی حاصل کرتے ہوئے اس کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنا بہت دشوار ہوچکا ہے۔ 
اگر اسے خالص عملیت پسندی کے حوالے سے دیکھیںتو جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے اپنی پنشن کو اس شعبے میں انویسٹ کیا تو اس میں مثالیت پسندی یا جذباتی وابستگی کارفرما نہیں تھی۔ میرے لیے زراعت میں سرمایہ کاری کا مقصد معقول منافع کا حصول تھا ؛ تاہم کئی عشروں تک بڑی مشکل سے سلسلہ آگے بڑھانے کے بعد میں اس حقیقت کی تفہیم کے قابل ہوگیا کہ اس میں کسی ماحولیاتی تبدیلی یا بری قسمت کا عمل دخل نہیں بلکہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی استیصالی پالیسیاں ہم سے ہمارا جائز حق چھین لیتی ہیں۔ ہم بہترین پھل، سبزیاں، کپاس، چاول اور گندم اُگاتے ہیں۔ ان کا ذائقہ اور غذائیت دنیا کے کسی ملک میں پیدا ہونے والے پھل ، سبزیوں اور اناج سے بہتر ہے۔ ہم موسم کے شدائد جھیلتے ہیں، لیکن ہمارے ہونے والے نقصانات کاکوئی ازالہ نہیں کیا جاتا۔ زراعت میں ہونے والی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے۔ ہم مہنگے بیج، مہنگی کھاد اور غیر معیاری، اکثر جعلی ادویات خریدتے ہیں۔ ان تاجروں کا تعلق شہری ذہانت سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد شہری سرمایہ کار جو مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری رکھتے ہیں، ہماری فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کو فروخت کرکے بھاری منافع کماتے ہیںاور ہم ''جاگیردار‘‘ برے بن جاتے ہیں۔ بہرحال، جس کو ایک مرتبہ زمین اور اس کی پیداوارسے محبت ہوجائے پھر وہ نفع نقصان نہیں دیکھتا۔ بس یہی محبت اور لگائو ہمیں چلتے رہنے پر آمادہ رکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں