"RBC" (space) message & send to 7575

جناح صاحب کا تصو ّرِپاکستان

قوم‘ ملک کا 68واں یوم آزادی بہت دھوم دھام سے منانے کی تیاری میں ہے، یہ لمحات ہمیں ریاست پاکستان حاصل کرنے کے اغراض و مقاصد پر غور و فکر اور اپنے کردار کا محاسبہ کرنے کا بھی موقع فراہم کرتے ہیں۔ ایک نئی ریاست کے قیام کے تصور نے برٹش انڈیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو جیسے ایک خواب سے بیدار کر دیا تھا۔ انہوں نے نہایت عزم و استقلال کے ساتھ تحریک چلائی‘ یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان سے الگ کر کے نئی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس دوران کچھ علاقوں کی تقسیم متنازع بھی رہی۔ خیر‘ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ نوآبادیاتی دور سے رہائی پانے والی ہر ریاست کو کم و بیش ایسے ہی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ فرق یہ ہے کہ دیگر ریاستوں نے سمجھ بوجھ اور افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے اُن مسائل کو حل کر لیا۔ وہ نئی ریاست میں نئے معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھ گئے۔ اس عمل میں اُنہیں کسی قوم پرست جماعت، پُرکشش قیادت اور سیاسی اداروں کا تعاون مل گیا۔ 
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ تو اس میں ہر اُس قدر کا فقدان پایا گیا‘ جو ملک کے بانی رہنمائوں کی تراشیدہ منزل کی طرف رہنمائی کر سکتی تھی۔ ان میں سے سب سے اہم بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی گیارہ اگست 1947ء کی رہنما تقریر تھی۔ محترم قائد نے دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی اس تقریر میں پاکستانی معاشرے کے فکری خدوخال کی سمت متعین کی تھی۔ پاکستان، جس نے آئین سازی کی منزل طے کرنی تھی، کے سامنے اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی روشن تصور موجود ہوتا‘ جو اسے ایک جدید اور لبرل ریاست بنا سکتا تھا۔ اس تقریر کی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ اسمبلی کے صدر کے طور پر جناح صاحب کا پہلا خطاب ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں پاکستان کے رہنمائوں کے لیے ایک مشعل راہ بھی تھی۔ اس میں قانون اور آئین کی بنیاد پر تشکیل پانے والے معاشرے کا ذکر تھا‘ تو دوسری طرف بدعنوانی اور اقربا پروری کو زہر قاتل قرار دیا گیا تھا۔ قائد نے ملک کو درپیش چیلنجز، جیسا کہ غربت کا خاتمہ اور طبقاتی ہم آہنگی پیدا کرنا، کی نشاندہی کر دی تھی۔ اس اہم ترین تقریر کے تین نکات کو جدید ریاست اور قوم سازی کے رہنما اصول قرار دیا جا سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ مذہب، نسل اور طبقے کی تخصیص سے بالاتر ہو کر تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ اس سے جناح صاحب کی مراد ایک علاقے پر مشتمل قوم سازی کی کوشش تھی‘ جس میں مذہبی وابستگی کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ دوسرا یہ کہ علاقے کی بنیاد پر شہری وابستگی ہندوئوں، مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان امتیاز کو ختم کر دے گی اور وہ بطور پاکستانی شہری، مل کر رہ سکیں گے۔ تیسرا یہ کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے الفاظ میں، قائد اعظمؒ نے مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کے لیے آزاد ہے‘ مذہب ریاست کا نہیں، اُس کا اپنا انتخاب ہو گا۔ 
آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تصورات ریاست کے امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ دراصل نوآبادیاتی دور کے بعد سامنے آنے والے بہت سے رہنمائوں، جن میں محمد علی جناحؒ بھی شامل تھے، نے جدید تصورات مغربی تہذیب سے مستعار لیے۔ جناح صاحب بنیادی طور پر ایک پیشہ ور وکیل، قانون ساز اور عملی سیاست دان تھے۔ بدقسمتی سے مخصوص مکتب فکر نے اُن کے سیاسی تصورات اور افکار کو ایک خاص رنگ میں رنگتے ہوئے دراصل اپنے تصورات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے قائد اعظمؒ کے طے کردہ راستے پر سفر کرنے کی بجائے اس سے روگردانی کی پالیسی اپنا لی اور اس سے دوری کو ایک ''نظریے‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے قائد کے تصورات کو ہی توڑ مروڑ کر پیش کیا جانے لگا۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے‘ پاکستان اُس منزل سے دور ہونے لگا‘ جس کا تصور قائد نے پیش کیا تھا۔ جب قائد کے جانشیں کمزور ہوئے تو ملاّئوں نے ریاست پر اپنا اثر قائم کرنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ پاکستان پر اُس سیاسی اور مذہبی طبقے نے گرفت جما لی جس کا قائد اعظم کے تصورات سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں جاگیردار اور دفاعی اداروںسے تعلق رکھنے والے افراد لیڈر بن کر اس قوم پر مسلط ہو گئے، یہاں تک کہ یہ ریاست برائے نام ہی ''قائد کا پاکستان‘‘ رہ گئی۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی قسمت ہچکولے کھاتی رہی ہے۔ ملاّئوں نے اسے اسلامی ریاست بنانے کا دعویٰ کیا اور مذہب کا نام لے کر ریاستی وسائل پر قابض ہو گئے۔ نام نہاد لبرل اور جمہوری جماعتوںنے بھی یہی کیا۔ حکمران سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے طاقت اور اختیار کا منفی استعمال کرتے ہوئے وسائل کو لوٹا، یہاں تک کہ ملک دہشت گردی، انتہا پسندی، بدنظمی اور افراتفری کی تصویر بن کر دھندلانے لگا۔ لوگ اس کے مستقبل کے مایوس دکھائی دینے لگے۔ اس میں دہشت گردی، بدعنوانی، اقربا پروری، فرقہ واریت اور لسانی تعصبات کی آندھی چلنے لگی۔ لیکن یہ گزرے کل کی بات ہے۔ آج کا پاکستان، گو ابھی جناح صاحب کا پاکستان نہیں، لیکن مایوسی کی دلدل سے نکل آیا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدعنوانی پر کڑا ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ احتساب کا عمل شروع ہو چکا اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں بڑی مچھلیاںبھی گرفت میں آئیںگی۔ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا؛ تاہم معاشرے میں رواداری اور برداشت کے رویوں کو فروغ پانے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ اس یوم آزادی پر قوم کہہ سکتی ہے کہ اس نے جناح صاحب کے پاکستان کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں