این اے 122 میںہونے والا انتخابی معرکہ کئی حوالوںسے غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکاہے۔ سب سے پہلے یہ کہ دونوں اہم قومی سیاسی جماعتوں، پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی نے اس حلقے میں اپنابہت سا سیاسی سرمایہ جھونک دیا ہے۔ یہ ایک مرتبہ پھر لاہور کے سیاسی مستقبل کے لیے ہونے والی جنگ کا روپ دھارتا جارہا ہے۔ اتوار کی شام کو دونوں جماعتوں کے شعلہ بیان مقررین کی تقریروں سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ حلقہ اب صرف ایک عام ضمنی انتخاب نہیں رہا بلکہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں قومی سیاست کی راہیںبھی این اے 122 ہی متعین کرے گا۔ ایک حوالے سے سیاسی جوش جمہوری عمل کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن کیچڑ اچھالنے اور قبل ازوقت دھاندلی کے الزامات لگا کرانتخابی عمل، حتیٰ کہ جمہوریت کی ساکھ بھی مجروح کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کے جلسے میں اس کے مقررین نے حاضرین سے جوسوال پوچھاوہ یہ تھا۔۔۔'' کیا آپ تخت ِ لاہور واپس لینا چاہتے ہیں؟‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ گزشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کے افسران کی مبینہ ملی بھگت سے تخت لاہور پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے چھین کر پی ایم ایل (ن) کی جھولی میں ڈال دیا گیا تھا، لیکن اب وہ اس الیکشن کے شفاف انعقاد سے حکمران جماعت کو شکست دے کر اپنے موقف کی تصدیق کردیں گے۔ اُنھوں نے انصاف کے لیے کی گئی جدوجہد، منصفانہ انتخابات، بے پناہ بدعنوانی کے احتساب کو اپنا سیاسی نعرہ بناکر عوام کو اس کی تائید کرنے کے لیے کہا۔
دوسری طرف پی ایم ایل (ن) کے مقررین نے اپنے جلسے، جو اُسی وقت ایک اور جگہ پر ہورہا تھا، میں لاہور میں ہونے والے اہم ترقیاتی کاموں کا حوالہ دے کر اس حلقے کو اپنی ''آبائی سیٹ ‘‘ قراردیا۔ کہا گیا کہ وہ عمران خان کا لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب خاک میں ملا دیں گے کیونکہ لاہوراُن کا ہی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ملک کی دیگر جماعتیں اس منظر سے غائب ہیں۔ پی پی پی کا امیدوار میدان میں موجود ضرور ہے لیکن پی پی پی کے قائدین کی طرف سے چلائی جانے والی انتخابی مہم دیکھنے میں نہیں آرہی۔ دیگر جماعتوں نے سائیڈ پر ہوکر اپنے ووٹروں کو موقع دے دیا ہے کہ وہ جس کو مرضی ووٹ ڈالیں۔ صرف جماعت ِ اسلامی نے ہی کھل کر پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اتنی زیادہ سیاسی ساکھ کو دائو پر لگادیکھ کر خدشہ ہے کہ ہارنے والافریق الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردے گا۔ وہ دھاندلی کاالزام لگا کر انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کرے گا تاکہ ہارنے کی صورت میں اپنے ووٹروں کو بددل ہونے سے بچائے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں پنجاب حکومت کے افسران کے ذمے یہ ڈیوٹی لگادی گئی ہے کہ وہ پارٹی کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ دھاندلی کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اپنے کارکنوں کو تیار رکھے گی۔ پی ایم ایل (ن) کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ عمران خان الیکشن کمیشن اور انتخابی عملے پر دبائو ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ فی الحال انتخابی عمل کوغیر متنازع بنانے کے لیے عمران خان کے تمام مطالبات تسلیم کیے جارہے ہیں۔ کچھ ناقدین پی ایم ایل (ن) کو دفاعی پوزیشن پر بھی جاتا دیکھ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حلقے میں انتہائی اہم انتخابات ہونے جارہے ہیں اور تمام ملک کی نظریں اس پر مرکوز ہیں لیکن دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی طرف سے ایسے الزامات کا تبادلہ انتخابات کا انعقاد کرانے والی مشینری کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے جمہوریت کو نقصان پہنچارہا ہے۔ یہ صورت ِحال یقینی طور پر جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے والے ملک کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ایک اور بات جس نے اس ضمنی الیکشن کو اہمیت کا حامل بنادیا ہے ‘وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ کا قریب آنا ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں انتہائی سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے اس حلقے میں کامیابی سے مقامی حکومتوںکے انتخابات پراثر انداز ہونا چاہتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اب یہ صرف ایک حلقہ نہیں رہا بلکہ یہاں کا میابی اور ناکامی کا اثر صوبے بھر میںدیکھنے میں آئے گا۔ اسی کو دیکھتے ہوئے اہم حلقے کسی ایک جماعت کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔
پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کی سیا سی وابستگی بڑی حد تک تغیر پذیر اور متحرک ہوتی ہے۔ ''کامیاب ‘‘خاندان زوال پذیر سیاسی جماعتوں کو چھوڑنے کا ''اصولی ‘‘ فیصلہ کرتے ہوئے متوقع کامیابی کی طرف بڑھنے والی جماعتوں کے ہمرا ہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسی کو سیاسی بصیرت کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی، جو خود کو مستقبل کی حکمران جماعت تصور کررہی ہے، تخت ِ لاہورپر متمکن موجودہ سیاسی اشرافیہ کو لرزہ براندام کرتے ہوئے پنجاب میں سویپنگ وکٹری کی آرزو مند ہے۔مقامی حکومتوںکے انتخابات کی اہمیت سے کسی جماعت کو بھی انکار نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے ناظم بڑی تعداد میں پنجاب میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وزیراعلیٰ کے لیے مسائل پیدا ہوجائیںگے۔ اُنہیں اپنی طاقت میں سے کچھ حصہ اُنہیںدیناپڑے گا اور شریف برادران کے لیے یہ مشکل ترین کام ہوگا، خاص طور پر اگر پی ٹی آئی کے ناظمین کے ساتھ پاور شیئرنگ کرنی پڑی۔
اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ این اے 122 تو صرف قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے لیکن مقامی حکومتوںکا قیام اس سے کہیں زیادہ اہمیت کاحامل ہوگا۔ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن) کے نمائندوں کی طرف سے بیا نات، تقاریر اور الزامات کے تبادلے کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایک سیٹ کے لیے ہونے والے الیکشن کو اہمیت دے کر اصل مسائل سے صرف ِ نظر کیا جارہا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ سیاسی رہنمائوں کی نئی نسل کیچڑ اچھالنے میں مہارت حاصل کرتی جارہی ہے۔ موجودہ سیاسی محاذآرائی اُن کی مثبت سمت میں جمہوری تربیت نہیں کررہی، وہ صرف الزام لگانا اور فریق مخالف کی عزت اچھالنا سیکھ رہے ہیں ۔ چنانچہ موجودہ جمہوری عمل میں خود جمہوری اقدار کا خون ہورہا ہے۔