''ہم پاکستان کو لبرل ملک بنانا چاہتے ہیں‘‘، پتہ نہیں گزشتہ ہفتے یہ جملہ وزیر ِا عظم نواز شریف کے منہ سے بے ساختہ ادا ہوگیا‘ یا اُنھوں نے سوچ سمجھ کر بولا۔ چاہے یہ سیاسی عزم نہ ہو، تب بھی اس جذبے کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ مذہبی جماعتیں جو لبرل ازم کی مخالف ہیں ، لبرل اور جدید طرز ِ فکر اپنالیں۔ پاکستان کے لوگ ،ا س کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں دیکھیں گی کہ لبرل پاکستان ریاست اور معاشرے کی تنظیم کے لیے کسی بھی تصور سے بڑھ کر ہمارے اجتماعی مفاد کی بجاآوری یقینی بنائے گا۔
افسوس کہ سیاسی اور دینی حلقوں کی طرف سے لبرل ازم کی مخالفت اس کی فعالیت ، تاریخ اور تصور سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ تحریک ِ پاکستان کے رہنمااور بانی جدید سوچ رکھنے والے مسلمان تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ لبرل سیاسی تصورات مسلمانوں کی فکری آبیاری اور جغرافیائی آزادی کے لیے سودمند ثابت ہوںگے۔ دراصل اُن روشن دماغ افرادکی نگاہ اُس دنیا پر تھی جو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ابھر رہی تھی اور جس میں اس نئی مملکت کی افرادی قوت نے اپنا مثبت کردار ادا کرنا تھا۔ پاکستان نے اپنا سیاسی سفر نمائندگی کے حق، قوم سازی، گہرے سماجی رویوں اور آئینی حکومت جیسے عظیم تصورات کے اثاثوں سے شروع کیا تھا۔ اُس وقت ایسا کچھ نہیںکہا گیا تھا کہ اس ریاست کو جدید سوچ اور مثبت طرز ِعمل سے ''محفوظ ‘‘ رکھنا ہے، اور نہ ہی قومی سوچ کو رجعت پسندی کے غلاف میں لپیٹنے کی بات کی گئی تھی۔ اگر مجھے نظریہ ٔ پاکستان کی کل تاریخ کو ایک اصطلاح میں ڈھالنے کی اجازت دی جائے تویہ ''جمہوری نمائندگی کا آئینی حق‘‘ بنے گی۔
آزادی کے وقت ریاست کے تمام حلقوں کی باہمی رضا مندی سے آگے بڑھنے والے سیاسی عمل کی آئینی اور قانونی جہت کا، جو اُس عہد کے بر ِ صغیر کے لبرل رویوں کے عین مطابق تھی، تحفظ کرنے میں ناکامی نے آج ہمیں اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم اُس لبرل سیاسی عمل کی بات کرتے ہوئے بھی خائف ہیں اور اگر یہ جملہ ہمارے منہ سے ادا ہوجائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔یاد رہے، ملک کی گلیوں میں جو خون بہتا رہا، وہ لبرل ازم کا نہیں، اس سے گریز کا نتیجہ تھا۔ آزادی کے بعد پاکستان لبرل ازم کا ورثہ کھوچکا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ایشو پیدا ہوگیا کہ پاکستان کی ریاست کس نہج پر ڈھلے گی، اس کا مستقبل کیا ہوگا یا اس کی اصل شناخت کیا ہے؟ہم بھول گئے کہ بانی ٔ پاکستان، قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے اس کے مستقبل کے حوالے سے گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: پاکستان لبرل، روادار ، تحمل اور برداشت کے رویوں کا حامل ہوگا۔ریاست کی بنیاد شہریت ، نہ کہ مذہب پر ہوگی۔ اس میں مذہب یقینی طور پر موجود ہوگا لیکن صرف ایک ذاتی ایشو کے طور پر، اس سے ریاست کو کوئی سروکار نہ ہوگا۔ قائد ِ محترم کا فرمان سرآنکھوں پر ، لیکن اگر بعد میں آنے والے رہنما نااہل ہوں یا وہ اپنے اور قوم کے لیے مختلف راستہ چننے کا ارادہ کرلیں تو ایسے بیانات صرف سنہرے الفاظ بن کر تاریخ کے اوطاق پر موجود رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ چند عشروں کے بعد پاکستان کا تشخص متنازع ہوگیا۔ نسل پرستی، لسانیت،علاقائیت ، مذہبی عقائداور طبقات کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی، یہاں تک کہ لبرل ازم کا مقصد نظروںسے اوجھل ہوگیا اور جاگیردارا نہ مفاد اورعسکری معروضات نے شہری حقوق پر بالا دستی حاصل کرنا شروع کردی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنگ نظری، رجعت پسندی اور دقیانوسی رویے قومی شناخت کے پیرائے میں ڈھلنے لگے، یہاں تک کہ لبرل ازم کی آوازیں دبنے لگیں اور آخر کار ان سے اتنی دور نکل آئے کہ اگر عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے والے وزیر ِا عظم کے منہ سے اس کے حق ایک جملہ نکل جائے تو طوفان کھڑ اہوجاتا ہے۔
دو تصورات جو پاکستان کی قسمت کو تبدیل کرسکتے تھے، وہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہیں، لیکن اُنہیں جان بوجھ کر مذہب کے حریف قراردے دیا گیا۔ غلط تشریحات کی بدولت سیکولرازم کو لادینیت اور لبرل ازم کو مغربیت بنا کر معاشرے کے لیے ناقابل ِ قبول بنا دیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ دونوں تصورات مادر پدر آزاد معاشروں میں پنپ سکتے ہیں، پاکستان جیسے معاشروں میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ اُس وقت تک پاکستان میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والا طبقہ توانا ہوچکا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں مذہب کو سیاسی بازو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے‘ لیکن پاکستان میں یہ دیگر تمام سیاسی اور جمہوری تقاضوں پر غالب آتا گیا یہاں تک کہ یہ ایک ''سیاسی صنعت ‘‘ بن گیا۔ ذرا سوچیں کہ وزیر ِاعظم کو ایک ہلکا سا جملہ بولنے پر دائیں بازوکے سیاست دانوں اور مذہبی جماعتوںنے کس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کیا یہ صرف نظریاتی کشمکش ہے یا اُنہیں اپنی اس فعال اور نفع بخش صنعت کے بند ہونے کا خدشہ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لبرل ڈھانچے ، اصولوں اور ثقافت کوشدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ سے موجودہ بالغ نسل بہت سے عذابوںسے گزرہی ہے ، لیکن اب یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے زمانے میں وقت اتنا کٹھن ہوگا کہ لبرل ازم کا ذکر تک کرنا ممکن نہیںہوگا۔ لہٰذا آج فکرو فہم رکھنے والے طبقے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی وابستگیوںسے بالا تر ہوکر لبرل ازم کا دفاع کرے اور عوام کوبتایا جائے کہ رواداری اور انسانی رویوں کا مطلب دین سے کنارا کشی اختیار کرنا نہیں ہوتا۔آزادی ٔ اظہار اور انسانی حقوق کسی الہامی ضابطے کو چیلنج نہیں کرتے۔سیاسی طور پر ریاست کو ''من پسند نظریات ‘‘ نہیں، آئین اور قانون کی بالا دستی، نمائندہ حکومت اور سماجی فلاح درکار ہوتی ہے۔ جدید ریاست دراصل شہریوں اور ریاست کے درمیان ایک سماجی اور عمرانی معاہدے کی بنیاد پر وجود میںآتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ جب چھائی دھند کو پیچھے ہٹا کر منظر نامے کو واضح کیا جائے تاکہ عوام خود دیکھ سکیں کہ زیرک کھلاڑی اُن کے جذبات کو کس طرح اپنے سیاسی مفاد میں ڈھالتے ہیں۔