ایک سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والا حملہ ہماری قومی سوچ کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اس سے پہلے دہشت گردوں سے مذاکرات کی خواہش پائی جاتی تھی‘ دہشت گردوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا تھا‘ لیکن معصوم بچوں کے خون نے سارا معاملہ دوٹوک اور واضح کر دیا۔ اگرچہ 16 دسمبر 2014ء کو پیش آنے والا سانحہ انتہائی دل گداز تھا کیونکہ اتنے وسیع پیمانے پر سکول کے بچوں کو اس طرح کلاس رومز کے اندر ہلاک کیے جانے کی تاریخ میں بہت کم مثالیں ہیں، دوسری طرف یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہ تھا، اس سے پہلے دہشت گرد پچاس ہزار سے زائد شہریوں کا خون بہا چکے تھے۔ گزشتہ دو عشروں سے دہشت گرد تنظیمیں اور اُن کے رہنمائوں نے معاشروں کو خوف زدہ کر رکھا تھا‘ کیونکہ اُنہیں سزا یا احتساب کا کوئی ڈر نہ تھا۔ وہ شہریوں کو عبادت گاہوں، مارکیٹوں اور کھیل کے میدانوں میں سرعام موت کے گھاٹ اتارتے رہے تھے۔ کچھ انتہا پسندوںکی نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے معاشرہ منافرت کی آگ میں جلتا رہا۔ دوسری طرف ملک کے کچھ حصوں میں ٹارگٹ کلنگ ایک منظم جرم بن چکی تھی۔ ڈاکٹر، وکلا، جج، مذہبی عالم اور دیگر شہری مسلکی یا سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے تھے۔ اُس وقت تک سیاسی رہنما تذبذب کا شکار تھے۔ جب پشاور سکول پر حملے کا المناک واقعہ پیش آیا تو دیگر بہت سے افراد کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ ان بچوں کا خون دہشت گردوں اور انسانیت کے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک لکیر کھینچ دے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی‘ لیکن بدقسمتی سے گورننس میں بنیادی انقلابی تبدیلیاں رونما نہ ہو سکیں۔ ہمارے ریاستی اداروں کی فعالیت بہتر نہ ہو سکی۔ اس کے علاوہ معاشرے کے کچھ دھڑے عوام کو دہشت گردی پر پھر ابہام کا شکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میڈیا اور معاشرے کے بہت سے دوسرے دھڑے شہریوں کو دہشت گردوں کے بارے میں الجھن میں رکھتے ہیں۔
ہر قوم سانحات کا شکار ہوتی ہے‘ لیکن آزادی کے بعد سے پاکستان پر ایسے مصائب بہت تواتر سے نازل ہوئے ہیں۔ کسی بھی سانحے کے بعد ایک قوم دو میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ ایک یہ کہ سانحے کا موجب بننے والے امور میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے دوبارہ اپنی معمول کی سیاسی زندگی پر گامزن ہوا جائے۔ یاد رہے کہ نیم دلی سے کی جانے والی علامتی تبدیلیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کے ذریعے دہشت گردی جیسے سفاکانہ واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔ دوسرا راستہ قدرے مختلف ہے۔ اس کے لیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ ریاست اور معاشرے کے تصورات تبدیل کیے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک متواتر بحث جاری رہتی ہے کہ ہمیں کس قسم کا معاشرہ درکا ر ہے؟ ہم اپنے معاشرے کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ نئے چیلنج ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ نہ تو سیاسی رہنما اور نہ ہی دانشور ان مسائل پر قوم کی راہنمائی کر پاتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک بہت ہی دہرایا جانے والا جملہ ہے کہ ''پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے‘‘ لیکن یہ ہمارے ملک کی درست عکاسی کرتا ہے۔ درحقیقت ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس وقت جغرافیائی سے زیادہ تاریخی جہت کے حامل کچھ واضح عوامل ہمارے سامنے اچھے اور برے امکانات لیے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ اگر ماضی سے کچھ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے‘ تو حالیہ برسوں میں پیش آنے والے ہر سانحے سے ہم کم از کم تین سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ دہشت گردی ایک عمل بھی ہے اور رد عمل بھی۔ پاکستان کو رد عمل کو روکنے کے لیے اس کی وجہ بننے والے عمل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ اس وقت نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی جانے والی حکمت عملی، جسے سیاسی اور عسکری قیادت کی حمایت حاصل ہے، جامع اور مربوط ہے کیونکہ اس میں تصور کی واضح جہت دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت پوری توانائی اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن ہمیں ماضی کی ناکامیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں انتہا پسندی کا تدار ک کرتے ہوئے ریاست اور سماج میں پروان چڑھنے والی بدعنوانی اور اداروں کی نااہلی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ گورننس ایک اہم ایشو ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم بہتر قانون سازی، قانون کا نفاذ اور ترقیاتی منصوبے نہیں بنا سکتے۔ یاد رہے کہ سیاسی طبقے کے مفادات کو حقیقی ترقیاتی منصوبے سمجھنا غلطی ہو گی کیونکہ ان کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ریاست اُن کے لیے کچھ نہیںکر رہی‘ تو پھر اُن میں سے کچھ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ تیسرا یہ ہے کہ احتساب کے بغیر سماج میں ہمواری اور اداروں کے کردار میں بہتری نہیں آئے گی۔ دراصل دہشت گردی جیسے پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات سے زیادہ دور رس نتائج کی حامل تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔