سیاسی صف بندی، اکھاڑ پچھاڑ اور تلخ کلامی جیسے معاملات ہماری سیاسی ثقافت کا جزوِ لاینفک ہیں۔ کسی ملک کی سیاسی ثقافت روایات، نظریات اور رویّوں پر مبنی ہوتی ہے۔ ثقافت کا رنگ ڈھنگ اس بات پر منحصر ہے کہ سیاسی رہنما کیا سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا ذاتی اور مجموعی کردار کیا ہے ؟ سیاسی ثقافت کو بنانے اور بگاڑنے میں نسلیں درکار ہوتی ہیں۔ جو ہم تاریخی طور پر بوتے ہیں، اُس کی فصل آنے والی نسلیں کاٹتی ہیں۔ آج کا سیاسی مکالمہ، طرزِ گفتگو اور سیاسی مخالفین کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ کیا مستقبل مزید خرابیاں لائے گا، یا ہم کہیں سرخ لکیر کھینچنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
ان رویوں کے بارے میں بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیاست میں دھڑے بندی، اور مختلف سیاسی جماعتوں کا وجود میں آنا ایک فطری امر ہے۔ امریکی آئین کے بانی، اور اعلانِ آزادی جیسی تاریخی دستاویزات کے خالق، تھامس جیفرسن نے ایک پتے کی بات کہی تھی کہ جہاں آزادی ہوگی، وہاں دھڑے پیدا ہوں گے۔ آکسیجن ہو گی تو ہی آگ جلے گی۔ لوگ سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اکٹھے ہوں گے، اور مخالف گروہ اور دھڑے بھی ابھریں گے۔ سیاسی مخالفین اور مخالفت جمہوریت کا حصہ، بلکہ حسن ہیں۔ سیاسی جماعتیں بنانا اور کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا لوگوں کا آئینی حق ہے ۔ مفادات، نظریاتی رجحانات اور ہمارے معاشرے کی قبائلی اور ذات پات کی صف بندیاں بھی سیاسی وابستگیوںکا تعین کرتی ہیں۔ اگر اپنا حق تسلیم کرانا ہے تو دوسروں کا حق بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ یہ سوال ہمارے سیاسی مکالمے میں بار ہا اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کل تو آپ اس جماعت میں تھے، آج آپ کا ٹھکانہ کہیں اور ہے ۔ میرے نزدیک یہ سوال درست نہیں۔ سیاست میں وفاداری نہیں، وابستگی ہوتی ہے۔ کوئی کیوں ، کیسے اور کب اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرتا ہے، یہ اُس کا ذاتی سیاسی مسئلہ، اور بنیادی حق ہے۔ چونکہ ہماری سیاست نظریاتی نہیں۔ یہ دھڑے بندی، اور مفادات حاصل کرنے یا اپنے مفاد کا تحفظ کرنے کی سیاست ہے؛ چنانچہ یہ تنقید درست نہیں۔ نظریاتی سیاست کے پیچھے بھی مفادات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔
جمہوری سیاست کا ایک اپنا مزاج ہوتا ہے ۔ اس مزاج کی بنیاد آزادی کا ایک نظریہ ہے جو ہر شخص کے مذہبی، سیاسی اور سماجی حقوق کو برابری کی بنیاد پر تسلیم کرتا ہے۔ بہ امرِ مجبوری نہیں، بلکہ دل سے، ایک ضابطۂ حیات، اور نظریے کے طور پر۔ اگر ایسا ہو تو معاشرے میں برداشت، بردباری، باہمی احترام اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے ۔ ہمارے ہاں وہ لوگ بھی‘ جو لبرل کہلاتے ہیں، لبرل ازم یا آزادی کے بنیادی فلسفے سے یا تو لا علم ہیں یا پھر اس کی بنیادی روح کو اپنانے سے قاصر ہیں ۔ یہ لوگ دشمنی پالنے میں تو فخر کرتے ہیں، لیکن کسی اصول پر موقف اختیار کرنے سے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی مخالفین دشمن نہیں ہوتے۔ وہ صرف اختلاف کا حق رکھتے، اور استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ بہت سے نقائص اور کمزوریو ںکے باوجود ایک صفت، جس پر پاکستان اور پاکستانیوں کو فخر رہے گا، وہ اس میں حاصل آزادی ہے۔ یہاں تحریر، تقریر، نظریات اور مختلف انداز اپنانے کی آزادی ہے۔ ہاں، اس میں کمی بیشی آتی رہتی ہے، لیکن آزادی کے بد ترین دشمن بھی اس کی روایات کو ختم نہیں کر سکے۔
تاہم آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی جڑی ہوتی ہے اور آئینی اور اخلاقی حدود بھی۔ جہاں دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے، وہاں ہماری آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ مخالفین کے بارے میں آج کل ہر سیاسی فورم سے غوغا بلند ہو رہا ہے۔ زبان کے استعمال سے طنزیہ تبصرے، ذاتیات پر حملے ، نفرت کے نشتر اور ناپسندیدہ کلمات کی ادائیگی معمول بن چکی ہے‘ حتیٰ کہ مرحومین کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔
پاکستانی سیاست میںمخالفین کی ذات پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے کچھ بزرگ سیاست دان یہی ورثہ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ میں نے 1970ء کے انتخابات، اور ان سے پہلے ایوب مخالف تحریک کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اُس وقت بھی سیاسی مکالمے کا معیار آج کے دور سے مختلف نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب ایک عوامی اور ہر دل عزیز رہنما کے طور پر ابھرے تو اُن کے مخالفین نے کون سی معیوب بات ہے جو اُن سے منسوب نہ کی ہو گی۔ اُن کی شہرت، پاکستان سے وابستگی، ذاتی زندگی کے علاوہ خاندانی معاملات کو مضامین اور جلسوں میں موضوع بنایا گیا۔ اُس دور میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گنتی کے چند افراد کے سوا کوئی بھی نظریۂ پاکستان کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ بھٹو صاحب بھی اپنے سیاسی مخالفین کو الفاظ کی باڑ پر رکھ لیتے۔ وہ نواب زادہ نصراللہ خان کو حقہ ٹوپی، اصغر خان کو آلو، اور ائیرمارشل نور خان کو ٹماٹر کہہ کر پکارتے تو جلسے کے شرکا جوش سے دیوانے ہو جاتے۔ خیر یہ ایک مذاق تھا، حقارت اور نفرت نہیں تھی۔ لیکن پھر سیاسی مخالفین کو پاکستان دشمن اور بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دینے کا بھی دور آیا۔
در حقیقت سیاسی مکالمے میں سب سے زیادہ بگاڑ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی رقابت سے شروع ہوا۔ گزشتہ چالیس سالوں میں ان پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ موجودہ نسل بھی جانتی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مرکزی رہنمائوں کے بارے میں کیا کچھ کہتی رہی ہیں، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کے نزدیک میاں نواز شریف فوجی آمریت کی پیداوار، اور جنرل ضیا کی باقیات تھے۔ دوسری طرف محترمہ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ مسلم لیگ جو زبان آصف علی زرداری کے بارے میں استعمال کرتی رہی ہے، وہ اشاعت کے قابل نہیں۔
وزیرِ اعظم جناب عمران خان نے بھی اپنی سیاسی گفتگو کو حدود و قیود میں بند نہیں رکھا۔ جب سامنے حزب اختلاف ہو تو پھر الزامات کی ایسی گولہ باری کہ خدا کی پناہ۔ مخالفین چور، ڈاکو، لٹیرے اور کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کا بیانیہ جاری۔ اب بھی انداز نہیں بدلا۔ ہاں الزام تراشی سہ طرفی سے دو طرفہ ہو چکی ہے۔ یہاں پی ٹی آئی اور وزیرِ اعظم عمران خان کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں، حکومت میں ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے نہیں، پورے ملک کے قائد ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی انگریزی کے بارے میں بات کرنا اُن کے عہدے اور سیاسی قد کو زیب نہیں دیتا۔ اسد عمر صاحب نے کیا کہہ دیا، اور وہ بھی پارلیمان کے اندر۔ وہ اپنے تئیں بلاول کی تقریر کا جواب دے رہے تھے۔ افسوس۔ عقل پر کس قسم کے پردے پڑے ہیں۔ خاندانی نام پر تنقید ہو رہی ہے۔ یہ ذاتی معاملہ ہے، اس پر تنقید کا حق کون سی سیاست دیتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ کہنے کے لیے کچھ ہے نہیں، لیکن بولنا ہے۔ یا پھر طنز اور نفرت کو ہی سیاست میں آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی ثقافت کی روایات عین وہی ہوتی ہیں جو سیاسی رہنما قائم کرنا چاہتے ہیں۔ آج قائدین پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ قائدین کو دیکھنا ہو گا کہ وہ سیاسی مخالفین کے بارے میں کیا بات کر رہے ہیں۔ حکمران طبقے کے قول و فعل کا رد عمل ضرور آتا ہے۔ روایت اُنہوں نے طے کرنی ہے۔ مزید بگاڑ پیدا کر لیں، یا معقولیت کی راہ اپنا لیں۔
حکمران جماعت کے چند وفاقی وزرا، جن میں وزیرِ اطلاعات سر فہرست ہیں، بولنے سے پہلے سوچنے کی زحمت کے قائل نہیں لگتے۔ سیاسی مخالفین بھی عمران خان کے بارے میں گفتگو میں ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ منفی روایت کب تک، اور کہاں تک چلے گی۔ کہیں نہ کہیں، یا کسی نہ کسی کو تو رک کر سوچنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک ابھی تک انتخابی کشمکش کے ماحول سے باہر نہیں نکلا۔ سیاسی فضا نفرت انگیز جملوں، تنقیدی گولوں اور الزامات کی بوچھاڑ سے بوجھل ہے۔ مخالفت اور بیانات، حتیٰ کہ الزامات بھی سیاسی اور جمہوری روایات کا حصہ ہیں، لیکن یہ سب کچھ اخلاقیات سے دستبردار ہوئے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ الزام سنجیدہ لہجے میں وزنی لگتا ہے۔ تنقید شائستہ لہجے میں کی جائے تو موثر ہوتی ہے۔