"RBC" (space) message & send to 7575

جلیانوالہ باغ ‘ قتل ِعام اور ہم

ایک صدی پہلے‘ 13 اپریل 1919 ء کو امرتسر کے مشہور باغ جلیانوالہ میں مقامی اور دوردراز سے آئے ہوئے تقریباً دس ہزار افراد کا جم غفیر تھا۔ عورتیں ‘ مرد‘ بچے ‘ مسلمان‘ ہندو ‘ سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری اپنے ملک کی آزادی کے لیے سراپا احتجاج تھے ۔ جنگ ِعظیم اوّل ختم ہوچکی تھی ۔ عالمی امن بحال ہوچکا تھا۔ جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فتح میں ہندوستان کی وسیع و عریض سرزمین کے کونے کونے سے نوجوانوں کا خون شامل تھا۔ پنجاب کے جوانوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں بھرتی کیے گئے جوانوں میں سے بہت کم خوش نصیب واپس آسکے تھے ۔ ایک افسوس ناک ٹیلی گرام‘ پنشن کے کا غذات اور کچھ روپوں کا وظیفہ بوڑھی مائوں کے سہارے سے زیادہ جوان اولاد کا نہ ختم ہونے والا دکھ دے جاتا۔ کیسے کوئی ماں اپنے بچوں ‘ جو کسی دوسرے کی جنگ میں جھونک دیے گئے ہوں‘ کو بھول سکتی ہے ؟ نہ وہ جنگ ہمارے خطے میں لڑی گئی ‘ اور نہ ہی اُس کا مقصد ہندوستان کا تحفظ تھا۔ اس کا مقصد‘ ہدف اورمیدان ‘ سب بیگانے تھے ۔ ہمارے نوجوانوں کو کس طرح اس وقت کی برطانوی فوج میں شامل کیا گیا‘ یہ ایک دردناک کہانی ہے ۔ ہر ایک مقامی برادری کو کم از کم ایک نوجوان فوج میں بھرتی کے لیے دینے کا حکم تھا۔ کسی کو انکار کی جرأت نہ تھی۔ میرے اپنے خاندان سے رئیس ودھیا چاچڑ‘ جس کی عمر اٹھارہ سال تھی‘ کو بھرتی کے لیے پیش کیا گیا۔ بھرتی کے وقت اس کی والدہ کا کرب دیدنی تھا۔ میری اپنی کھوج کے مطابق ہمارے چھوٹے سے علاقے سے تقریباً دس نوجوان جبری بھرتی کیے گئے ۔ ودھیا کبھی واپس نہ آیا۔ نہ ہی یہ پتہ چلا کہ وہ تاج ِ برطانیہ کی خاطر لڑتے ہوئے دنیا کے کس خطے میں جان کی بازی ہار گیاتھا۔ ٹیلی گرام آیا‘ ماں کو کچھ کاغذات اور کیش ملا‘ بس کہانی ختم۔ ان گنت ''ودھیا نوجوانوں ‘‘ نے اپنے خون سے پہلی جنگ ِ عظیم لڑی‘ اور برطانیہ کو سرخروکیا۔ نسل در نسل ان نوجوانوں کی یاد ‘ اور خون ِ ناحق کا کرب باقی رہا۔
جنگ ختم ہوئی تو ہندوستان میں ہر قومیت ‘ مذہب ‘ نسل اور سماجی اور سیاسی تنظیم نے بیک آواز ہوکر مطالبہ کیا کہ آزادی ہمارا حق ہے ۔ اور چونکہ ہم نے برطانیہ اور اس کے حلیف ممالک کی فتح میں اپنے خون سے رنگ بھرا ہے ‘ اس لیے ہمیں آزادی کا مستحق ٹھہرایا جائے۔ مسلم لیگ اور کانگرس اس مطالبے پر اکٹھی تھیں۔ برطانوی حکومت نے آزادی کی بجائے سخت گیر رویہ اپنالیا۔ جبر بڑھا‘ تو آزادی کے مطالبے کی آواز بھی توانا ہونے لگی۔ لوگ احتجاجی مظاہرے کرنے لگے ۔ سڑکوں پر نعرے‘ گلی گلی‘ قریہ قریہ‘ شہر شہر آزادی کا پرچم بلند ہونے لگا۔ جلسے جلسوں میں فلک شگاف نعروں نے سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کی نیندیں حرام کردیں۔ جلیانوالہ باغ میں کیا ہوا؟ اس کا تاریخی پس ِ منظر سامنے رکھنا ضروری ہے ۔ جنگ کے دوران ''دفاع ِ ہندوستان‘‘ کا ہنگامی قانون نافذ تھا۔ جلسے جلوس محدود‘ اور نعرے اور تقریر پر پابندی‘ اور کسی بھی شخص کو کہیں بھی وجہ بتائے بغیر گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ نہ عدالت‘ نہ انصاف‘ نہ قانون اور نہ ہی ضمانت۔ دفاع ِہندوستان قانون میں رولٹ ایکٹ 1918ء کے ذریعے برائے نام تبدیلی کی گئی ۔ عملی طور پر وہی پابندیاں‘ پکڑ دھکڑ‘ اور وہی سامراجی ہتھکنڈے ۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف ‘ اور آزادی کے حق میں سارا ہندوستان متحد تھا۔ تاریخی طور پر جنگ ِ عظیم کا خاتمہ ہی اس کے لیے موزوں ترین وقت تھا لیکن نوآبادیاتی نظام کی اہم طاقت‘ برطانیہ نے عالمی سطح پر زمینی حقائق تسلیم کرنے میں بہت دیر کردی۔ اگر بر طانیہ اور اس کے اتحادی کچھ اہم فیصلے وقت پر کرلیتے تو شاید دنیا دوسری جنگِ عظیم اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے بچ جاتی ۔ اگر پہلی جنگ ِعظیم کے بعد نوآبادتی نظام کو لپیٹ دیا جاتا تو دیگر یورپی ممالک اور جاپان کو اس راہ پر چلنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ 
رولٹ ایکٹ کے خلاف پنجاب کے طول و عرض میں احتجاج کی فضا پھیل چکی تھی۔ جذبہ ٔ آزادی زوروں پر تھا۔ روز بروز مظاہروں میں شرکا کی تعداد ‘ اور ان کے جذبے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ یہ مظاہرے مذہب اور سیاست سے بالا تر تھے ۔ یہاںبرطانوی راج نے وہی غلطی کی جو سامراجی طاقتوں کا خاصہ رہی ہے ۔ آہنی طاقت کا استعمال‘ سخت گیری ‘ پکڑ دھکڑ‘ عقوبت خانے ۔ دس اپریل کو امرتسر میں ایک جلوس نکلا۔ اس کو روکنے کے لیے پولیس نے کارروائی کی۔ اس دوران توڑپھوڑاور گرفتاریاں ہوئیں۔ اس پولیس گردی کے جواب میں سیاسی جماعتوں نے جلیانوالہ باغ میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔ چند ہندو اور مسلمان رہنما جلسے سے پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے تھے ۔ ان کی گرفتاریوں کے خلاف بھی احتجاج لازم تھا۔ ایک سوسال پہلے کسی جلسے میں دس ہزار شرکا (کچھ حوالوں کے مطابق بیس ہزار) آج کے اعتبار سے لاکھوں کے مترادف تھے؛ چنانچہ تعداد کے اعتبار سے بھی یہ ایک تاریخ ساز اجتماع تھا۔ لیکن اس روز پیش آنے والے خونی واقعات نے اسے ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں امر کردیا۔ جلیانوالہ باغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کی نبضوں میں خون بھر گیا۔ اس میں بہنے والا خون آزادی کی سند پرسرخ مہر کی طرح ہے ۔ اسی سے ہماری آزادی کی داستان رنگین ہے ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ آزادی کے بعد اقتدار سے وہی طبقات فیضاب ہوئے جو تاج ِ برطانیہ کے پرانے خدمتگار تھے ۔ اس کے سائے میں جاگیریں بنائیں‘ ٹھیکے دار بنے ‘اونچے عہدے حاصل کیے‘ انہی کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے قائم ہوئے ‘ انہی پر نوازشوں اور اختیارات کے دروازے کھلے ۔ ان میں سے اکثر آج بھی پاکستان میں مورثی سیاست کے ستون ہیں۔ دوسری طرف وہی بھی تھے جنہوں نے عوام کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں لاٹھیاں اور گولیاں کھائیں‘ سیاست سے لے کر صحافت تک ‘ ہر میدان میں ثابت قدم رہے ۔ جلیانوالہ باغ امرتسر ‘ ہندوستان میں ہے ۔ تقسیم ِ ہند ہوچکی‘ دوپنجاب ‘ دوبنگال‘ دو ممالک ایک تاریخی حقیقت ہیں۔ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت۔ لیکن اس خطے کی تاریخ‘ ثقافت‘ زبانیں‘ مذاہب اور تہذیبی دھارے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہزار ہا سال کی تاریخ باہم پیوست ہے۔ ریاستوں کا وجود‘ اور ان کے مفادات میں ٹکرائو کا تعلق ان کی فطری ہیئت سے ہوتا ہے ۔ ہر ریاست اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے ۔ یہ تحفظ ہر ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ کوئی بھی اس سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ پاکستان اور ہندوستان دو الگ مقتدر ریاستیں ہیں۔ علیحدگی کا عمل اتنا خونی اور دردناک تھا کہ مفادات کے ٹکرائو کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی اذیت بھی شامل ہوچکی ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں‘ لاتعداد خاندانوں کی تباہی ‘ بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی‘ جگہ جگہ مذہبی جنونیت اورانتقام کی آگ‘ اور پھر جائیدادیں چھیننے اور ہتھیانے کا شیطانی کھیل۔ اس گردباد میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی معصوم شہریوں کے خون اور خوف سے لتھڑ گئی ۔ 
علیحدگی در علیحدگی ایک خوفناک اور غیر فطری عمل ہے ۔ گزشتہ سات دہائیوں سے خون کی لکیر ماند نہیں پڑی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جلیانوالہ باغ کے سانحے کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ۔ اس میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری شہید ہوئے تھے۔ہندو‘ مسلم ‘ سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ ۔ پتہ نہیں ہماری وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت نے خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟ کیا مصلحت تھی؟وہ کس کا لہو تھا‘ کون شہید ہوا تھا؟ بعض اخبارات نے تو یہ خبر لگائی کہ ہندوستان اور برطانیہ اس سانحہ کی سوسالہ یاد منارہے ہیں۔ اس واقعے سے پنجاب لاتعلق رہ سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ کوئی تقسیم کی لکیر تاریخ کے صفحات کو رد نہیں کرسکتی ۔ریاست کے مفادات‘ جداگانہ حیثیت‘ قومی شناخت‘ سب درست ۔ ان پر نازکیجیے‘ ان کی حفاظت کی قسم کھائیے‘ لیکن ان نئی شناختوں سے پہلے بھی ہماری ایک زندگی تھی۔ تعصب سرحد کے اس پار بھی ہے ‘ لیکن تاریخ سے کسی کوئی انکار نہیں ہے ۔ 
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ سیف الدین کچلوآزادی کے تین رہنمائوں میں سے ایک تھے جنہیں سانحہ جلیانوالہ سے چند روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ کچھ تنظیموں نے سانحے کے سو سال مکمل ہونے پر پاکستان میں بھی شمعیں روشن کی‘ کچھ تقاریر ہوئیں‘ کچھ یا دمنائی گئی‘ لیکن سرکارکیوں خاموش رہی؟ جلیانوالہ باغ قتل ِعام کا تعلق موجودہ جغرافیے سے نہیں۔ یہ ہماری مشترکہ تاریخ کا ابدی حوالہ ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں