پاکستان میں ہر تبدیلی آئی، نظام بدلے، سیاسی جماعتیں تقسیم ہوئیں، نئی وجود میں آئیں، جمہوری نظام، فوجی حکومتیں، سب تجربے کر لیے۔ یہاں تک کہ پارلیمانی سے صدارتی، اور پھر صدارتی سے پارلیمانی کا نسخہ بھی آزما ڈالا۔ لیکن تبدیلیوں کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما تھی۔ معیشت، ریاستی اداروں، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی پر اپنی دسترس قائم رہے۔ ہر نام نہاد تبدیلی دراصل ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے تھی۔ حکمران اپنی طاقت سے نہ آسانی سے دستبردار ہوتے ہیں اور نہ عام طبقات کی شراکت داری تسلیم کرتے ہیں۔ معیشت سے لے کر سیاسی میدان تک، سب کچھ اُن کی گرفت میں ہے۔ آج سوائے جماعتِ اسلامی کے، ہر جماعت کی مرکزی قیادت بانی خاندان کے پاس ہے۔ جب سیاسی جماعتیں خاندانی جائیداد کی حیثیت رکھتی ہوں تو انتخابات سے کیا تبدیلی آ جائے گی۔ صرف کسی شخصی حکومت پر مہر تسلیم ثبت کرنا ہو گی۔ ایسی صورت میں جمہوریت اور نمائندگی ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ کسی کو پارٹی میں کیا عہدہ ملے گا، اُس کا کردار کیا ہو گا، ٹکٹ ملے گا یا نہیں، یہ سب فیصلے ایک مخصوص زاویے سے کیے جاتے ہیں۔ یہ زاویہ حکمران خاندان کی طاقت کو برقرار رکھنا، اور اس میں اضافہ کرنا ہے۔ بے شمار کارندے ثانوی کردار کے لیے موجود رہتے ہیں۔ مدح سرائی، دفاع، جلسے جلوس کا اہتمام، ہر کوئی اپنی محنت کا صلہ وصول کر لیتا ہے، لیکن اختیار صرف مرکزی خاندان کے پاس رہتا ہے۔
بہت کم سیاسی جماعتیں عوامی حمایت سے بنی ہیں۔ اگر کوئی ہیں تو بھی جلد ہی موروثی سیاست دان اس میں شامل ہو کر قابض ہو گئے۔ کیا دلیل اور فلسفہ ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ووٹ تو برادریوں کا ہے، خاندان کے پاس وسائل ہیں، اپنے حلقے کے لوگوں سے میل جول اور راہ و رسم رکھتا ہے، الیکشن جیت سکتا ہے، صرف پارٹی لیبل لگانا باقی ہے۔ عددی اکثریت کے فارمولے نے موروثی سیاست کی جڑیں گہری کر دی ہیں۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی میں کون سے لوگ چھائے ہوئے ہیں؟ اور کس طرح انہی خاندانوں کے ایک حصے نے تحریکِ انصاف پر رنگ جمانا شروع کر دیا۔ افسوس کہ تحریکِ انصاف اپنی اساس پر بھروسہ نہ کر سکی۔ کپتان اگر کچھ عرصہ مزید انتظار کر لیتے تو پارٹی کی مقبولیت اور کارکردگی کے سہارے اسمبلیوں میں پہنچ سکتے تھے۔ اگر تحریکِ انصاف مقبول نہ ہوتی تو کراچی سے تعلق رکھنے والے اسد عمر اسلام آباد سے کیسے جیت سکتے تھے۔ ایک بار نہیں، دو بار۔ گزشتہ انتخابات میں کراچی کے شہری حلقوں سے تحریکِ انصاف نے اکثریت حاصل کی۔ کراچی کو چھوڑیے جہاں متوسط، پروفیشنل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ آبادی کا تناسب ملک کے دوسرے حصوں سے کہیں زیادہ ہے، حقیقی تبدیلی کا آغاز خیبر پختونخوا سے ہوا۔ عام نوجوانوں نے، جس میں زیادہ تعداد غریب اور محنت کش لوگوں کی تھی، روایتی خانوں کی سیاست میں وسیع دراڑیں ڈال دیں۔ قوم پرستی کا لبادہ ہو‘ مذہبی جذبات ابھار کر سیاست چمکانے کی عادت یا قبائلی عصبیت، تحریکِ انصاف نے سب کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ لیکن خیبر پختونخوا کے تجربے سے مستفید ہونے اور اس سیاسی بیانیے کو پنجاب میں دہرانے کی بجائے تحریکِ انصاف نے روایتی سیاسی خاندانوں کا سہارا تلاش کیا۔ اُن میں سے اکثر میدانِ سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔
عمران خان نے ملک میں اصلاحات کے بنیادی تصور، ان کے طریقہ کار میں اس روایتی سوچ کے زیرِ اثر ردوبدل کیا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ موروثی سیاسی خاندان پاکستان کی ایک ناگزیر حقیقت ہیں۔ انہیں نظر انداز کرکے اکثریت حاصل نہیں کی جا سکتی؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ان کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اصلاحات کی جائیں کہ آخری فیصلہ تو وزیرِ اعظم نے ہی کرنا ہے۔ اگر وزیرِاعظم ایماندار اور مخلص ہیں اور وہ واقعی ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو موروثی سیاسی خاندان اُن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ سربراہِ مملکت مشورہ ضرور کرتے ہیں، لیکن مختلف ذرائع سے سب کچھ سننے کے بعد فیصلہ خود کرتے ہیں۔ حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، کابینہ کی شراکت داری، تفویض کردہ اختیارات اور اُن کی حدود کا احساس، وزیرِاعظم کی ترجیحات واضح ہیں، نیز ان کے پاس ایک سوچ ہے۔ مصلحت کوشی کے خلاف جواب یہ ملتا ہے کہ وزیرِاعظم کی طرف دیکھیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، یا کیا کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ایک اچھے منصوبے، اصلاحات یا ترقیاتی دستاویز کی حیثیت ایک کاغذ کے پرزے سے زیادہ نہیں۔ اصل امتحان تو اُن پر عمل درآمد، وقت پر تکمیل اور عوام تک اُن کے فوائد کی ترسیل ہے۔ اس کے لیے سیاسی اور انتظامی افسران کی تقرری اہمیت رکھتی ہے۔ اگر افسران میں فعالیت یا سنجیدگی کا فقدان ہے، خود غرضی، تساہل پسندی اور مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ سرپرست دھڑوں کی خوشنودی پیشِ نظر ہے تو پھر تمام اچھے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ کابینہ میں کی گئی حالیہ تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کپتان کے فیصلوں پر، بقول اُن کے، عملدرآمد نہیں ہورہا تھا۔ سب لوگ جو تبدیل کیے گئے، کپتان اُن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ تو کیا جس وقت خاں صاحب نے اُنہیں مختلف وزارتوں کے لیے چنا اُن کی پرکھ، اُن کی استعداد اور قابلیت کے اندازے درست نہ تھے؟ ابتدائی ماہ کسی بھی حکومت کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ اگر وہ ضائع کر دیے جائیں تو پہل کاری ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ بکھری ہوئی اور درماندہ اپوزیشن سانسیں بحال کرتے ہوئے تنقید کا محاذ گرم کر سکتی ہے۔ اس کے بعد حکومت تنقید کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے میں وقت ضائع کر دیتی ہے۔ تحریکِ انصاف اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ان تیس سے پچاس اراکینِ اسمبلی، جو کئی حکومتوں میں اپنی باریاں لے چکے ہیں، کے پاس آخر کون سی صلاحیت تھی کہ نہ صرف اُن کے لیے تحریکِ انصاف کے دروازے کھولے گئے بلکہ اُنہیں حکومت میں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں؟ میرے نزدیک عمران خان کا یہ بیانیہ کہ آپ میری طرف دیکھیں، اور میرے وژن کے مطابق اصلاحات کے عمل کا جائزہ لیں اور انہیں پرکھیں، وقت گزرنے کے ساتھ اپنا اثر کھو بیٹھے گا۔
ایک بار پھر خیبر پختونخوا اسمبلی کی مثال دیتا ہوں۔ وہاں پچھلی حکومت میں کارکنوں کو اور نئے اراکینِ اسمبلی کو ذمہ داری دی گئی، اور اُنھوں نے کمال کر دکھایا۔ ایک تاریخ رقم ہوئی۔ دوبارہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک واضح اکثریت سے بنی۔ باقی دنیا کی جمہوریتوں کا تجربہ اور سبق ہمارے سامنے ہے۔ ہمارا اپنا تاریخی سفر بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ جو قیادت مقامی سطح سے بلند ہو کر اپنے دست و بازو کی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے، وہ سیاست کے رموز و اسرار پا ہی لیتی ہے۔ وہ اپنے تجربے سے وہ کچھ سیکھ لیتی ہے جو بہترین جامعات بھی نہیں سکھا سکتیں۔ دنیا کی ہر جمہوریت میں با صلاحیت قیادت صرف مقامی جمہوریت کے عمل سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ امیدوار کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ اس کے لیے اُسے بہت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پارٹی قیادت ٹکٹ دینے کا فیصلہ محض مفروضوں اور وقتی فائدہ کو پیشِ نظر رکھ کر نہیں کرتی۔ نہ ہی خاندان یا سماجی رتبہ کوئی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ حلقے کے لوگ اور پارٹی اراکین کرتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ اس وقت ہمارے معاشرے کے معروضی حالات پرائمری انتخابات کے لیے موزوں نہیں، لیکن یہ تو ممکن ہے کہ متحرک اور باصلاحیت افراد کو آگے لایا جائے۔
تحریکِ انصاف اور دیگر جماعتوں کو تین باتوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ پہلی یہ کہ شہری آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انتخابی حلقوں کی حد بندیاں اسی حساب سے کرنا ہوں گی۔ دوسری یہ کہ متوسط طبقے کی آبادی سب سے زیادہ بڑھ رہی ہے۔ یہ طبقہ وسائل اور اقتدار کی تقسیم سے خوش نہیں۔ اسی طبقے نے تحریکِ انصاف کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ اسد عمرکو نکالے جانے پر یہ لوگ افسردہ ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ کہیں اُن سے غلطی تو نہیں ہو گئی؟ تیسری بات، پرانے چہرے کتنے ہی تجربہ کار کیوں نہ سہی، اُن پر عوامی اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ نہ ان افراد کی فکر میں تازگی ہے نہ منزل کی آگاہی، ہر طرف پیادے اور ہرکارے شہ سوار بنا دیے گئے ہیں۔ قیادت نوجوانوں کا حق ہے۔ انہی میں سے قیادت تلاش کریں۔ یہ لوگ باصلاحیت، پرجوش، مخلص اور محنتی ہیں۔ کپتان صاحب، ان پر اعتماد کرکے دیکھیں، یہی لوگ سیاسی جمود توڑیں گے۔