اس خطے کی تاریخ کے کچھ ورق پلٹنے کی ضرورت ہے۔ کچھ حقائق نہیں گزشتہ نصف صدی کی سیاسی آندھیوں نے چولستان کے ٹیلوں سے لے کر دامان کے بارانی علاقوں تک بہت کچھ گردوغبار میں چھپا دیا۔ اس گردوغبار کو کھرے سچ کی بارش سے دھونے کی ضرورت ہے۔ الجھائو دھل کر سرائیکی عوام کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ مزید سیاسی فریب کاری اور تقسیم در تقسیم کی حکمتِ عملی کا شکار نہ ہوں۔ سب سیاسی جماعتوں نے ہوسِ اقتدار میں بارہا وعدے کیے، لیکن ایوانِ اقتدار میں پہنچتے ہی سب وعدے قصۂ پارینہ بن گئے۔ روایت ہے کہ سیاسی وعدے صرف اپوزیشن میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد امورِ جہانداری، نظامِ مملکت اور ذاتی اور سیاسی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جہاں، یا جب تک ممکن ہو، عوام کو چکما دیتے رہیں۔ سیاست میں سچائی کا معیار اور اس کی مروجہ اخلاقیات کی بنیاد حصولِ اقتدار کی بے لگام خواہش ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ تو بہت ہی سادہ ہیں۔ اندرونِ سندھ کے بے بس شہریوں کی روح صدیوں سے وڈیروں، پیروں اور سرداروں کی غلام ہے۔ آزادی صرف کہیں اور بس جانے سے نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ لاہور، کراچی اسلام آباد یا کوئی اور شہر۔ یورپ کے جاگیردارانہ معاشرے کی غلامی سے خلاصی کا واحد راستہ بھی یہی تھا کہ شہروں کا رخ کریں۔ جو شہر گیا، وہ پھر واپس نہ آیا۔
لیکن کیا کریں، سرائیکی لوگ اپنی زمین، گائوں اور وسیب سے بہت محبت کرتے ہیں۔ فاقے، غلامی، غریبی اور تنگی قبول، لیکن اپنے قدیمی ماحول کی صبحیں اور شامیں نہیں چھوڑ سکتے۔ یہی حال بلوچستان اور اندرون سندھ کا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک سو پچاسی سال پنجاب کا حصہ رہنے کے باوجود صوبے کے مرکزی اضلاع جیسی ترقی اور خوشحالی حاصل نہ کر سکے۔ ایک سوال میں ذی شعور قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔ ذرا سا غور فرمائیں تو مسئلے کا حل سمجھ میں آجائے گا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بلوچستان، اندرون سندھ اور سرائیکی وسیب میں انسانی اور سماجی ترقی کی رفتار ملک کے دیگر حصوں سے کم ہے؟
مغل سلطنت زوال پذیر ہوئی۔ دستور یہی تھا کہ جب مرکز کمزور ہو گا تو طاقتور جرنیل اور مقامی وڈیرے کچھ علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی شاہی کا اعلان کردیں گے۔ افغانستان کی جانب سے حملوں اور حکمرانی کی سکت میں کمی کے آثار نمایاں تھے۔ لاہور خاص طور پر سکھ دھڑوں کا میدانِ کارزار بناہوا تھا۔ وہ مغلوں اور افغانوں سے آزاد، لیکن ایک دوسرے سے برسرِپیکار تھے۔ اس عالم میں گوجرانوالہ سے ایک سکھ نوجوان، رنجیت سنگھ اٹھا‘ جسے پسپا ہوتے ہوئے افغان سپاہی کچھ توپیں اور اسلحہ مدد کے عوض دے گئے تھے۔ اُس نے 1799ء میں پنجاب سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تین دہائیوں میں کشمیر، پنجاب اور سرحد کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت کو ایسی وسعت اور طاقت دی کہ وہ جب تک زندہ رہا، انگریز دریائے ستلج عبورنہ کرسکا۔
ملتان کی آزاد ریاست‘ جو افغانوں نے قائم کی تھی، پر رنجیت سنگھ نے 1818ء میں قبضہ کرلیا۔ سکھ فوج نے کئی ماہ تک ملتان کو سفاکی سے لوٹا۔ ملتان کے بادشاہ مظفر خان اپنے سات بیٹوں کے ساتھ ملتان کے دفاع کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے، اور جام شہادت نوش کیا۔ نسلیں گزر گئیں، لیکن ملتانی اس لوٹ مار اور قتل وغارت کو آج تک فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ معافی چاہتاہوں، بات ذرا طویل ہوگئی، لیکن دیگر علاقوں میں رہنے والے عام لوگوں کو ان تاریخی واقعات سے آگاہی نہیں۔ جو لوگ میڈیا میں بات کرتے ہیں، اُن کے پیشِ نظر تاریخی نہیں، معاصر سیاسی حرکیات ہوتی ہیں۔ بہاولپور ریاست کے نواب زیادہ بالغ نظر، عملیت پسند اور مفاہمت پذیر حکمران تھے۔ اُنھوں نے لڑائی کی بجائے خراج دینا مناسب سمجھا، اور اپنی ریاست کو مضبوط کرتے رہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ملتان کی تاریخی حیثیت تحلیل ہوکر تختِ لاہور میں ضم ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرائیکی علاقے کے وڈیرے، سردار اور جاگیردار پنجاب کے اقتدار میں برابر کے شریک تھے۔ کوئی آواز بلند نہ ہوئی کہ ملتان کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ بہاولپور ریاست نے پاکستان میں ضم ہونے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ نواب آف بہاولپور نے نئی مملکت کو اقتصادی سہارا بھی فراہم کیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ریاست کا نظام ریاست کے اپنے پاس ہی رہا۔ نواب، وزیرِ اعظم، کابینہ، قانون ساز اسمبلی سب موجود اور فعال تھے۔ مشرقی پاکستان سے سیاسی برابری کے لیے ون یونٹ کی چال چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مغربی پاکستان میں چار صوبے اور ریاستیں اپنا وجود کھو بیٹھے۔ دوسرے فوجی آمر، یحییٰ خان نے ایوب خان کو سبکدوش کرکے جب 1969ء میں ریاست پر قبضہ کیا تو صوبے بحال کردیے، لیکن بہاولپور کی پرانی حیثیت کو بحال نہ کیا گیا۔ وہاں کے عوام نے تحریک چلائی، بہاولپور محاذ بنا، جس نے 1970ء کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی، لوگوںنے لاٹھیاں کھائیں، تحریک میں نوجوان شہید بھی ہوئے اور ہمیشہ کے لیے بہاولپور صوبے کے خواب کا چراغ روشن کرگئے۔
جنوبی پنجاب پسماندہ ہے، یہاں غربت ہے اور احساس ِ محرومی بھی، جس میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں سے وزیر ِاعظم بنے، گورنر بنے، اور پنجاب کی کابینہ میں وزیر بھی۔ مگر کون؟وہی وڈیرے جو جنوبی پنجاب کی سیاست پر غلبہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا پر موجود رہتے ہیں۔ لیکن جب یہاں کے مشاعروں، ثقافتی میلوں، ادبی سنگتوں میں سرائیکی وسیب کا عملی اظہار ہوتا ہے ،اور جب انتہائی نامساعد حالات اور معاشی مشکلات کے باوجود یہاں کے نوجوانوںکی آنکھیں اپنی شناخت کی لو میں گہری ہوجاتی ہیں اور جب فن رہتل کے اسلوب کو مقامی رنگ میں بیان کرتا ہے تو سیاسی رنگ میں رنگا کیمرہ ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مقامی سطح پر جڑیں رکھنے والی تحریکوں کو نہ خاموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز۔
بہاولپور صوبہ محاذ سابق ریاست کی حدود تک بہت معقول تھا۔ نوابوں کے ادوار کی ترقی، خصوصاً تعلیم کا فروغ، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کوعوام کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ فیاضی اس حد تک کہ جب 1930 ء میں نہری نظام مکمل ہونے کو آیا تو پنجاب کے ہر کونے سے کاشت کارخاندانوں کو مفت زمینیں فراہم کیں۔ اس حوالے سے ریاست بہاولپور نہ صرف اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے، بلکہ پاکستان کی سیاست پر بھی اس کی گہری چھاپ ہے ۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ جب بہاولپور صوبہ تحریک زوروں پر تھی تو ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے اوائل میں دوسرائیکی ادبی کانفرنسیں ملتان میں منعقد ہوئیں۔ ان کانفرنسوں کو فنڈز اور قیادت فراہم کی گئی ۔ مقصد یہ تھا کہ سرائیکی ادب، تاریخ ، ثقافت اور شناخت کو کچھ سہار ا دیا جائے ۔ محرکات، مقاصد اور ارادے کچھ ہوں، سرائیکی شناخت تمام خطے کی ایک حقیقت ہے ۔ اب یہ لوگ خود کو ملتانی، ریاستی یا ڈیہروی نہیں، بلکہ سرائیکی کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت سی سیاسی جماعتوں نے پنجاب میں نئے صوبے کی قیام کو اپنے منشور میں لکھا، قراردادیں منظور کیں، اسمبلی میں پیش بھی ہوئیں، میڈیا میں سیاسی ٹاکرے بھی ہوتے رہے ۔ جب ایسا ہے تو دیر کس بات کی؟ یقینا نیا صوبہ بنانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اگر گزشتہ ادوار کی تقاریر اور بیانات سنیں تو اس وقت نئے صوبے کے لیے دوتہائی اکثریت آسانی سے موجود ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر ، لیکن سیاسی بیانات نہ صرف سیاسی ہوتے ہیں، بلکہ ان میں نری سیاست ہی ہوتی ہے ۔ یہ جماعتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ شخصیات کے ساتھ ان میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ مسلم لیگ نے دوصوبوں کی با ت کرکے سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مقصد یہی تھا کہ یا تو پنجاب تقسیم نہ ہو، اور اگر ہو تو اُس وقت جب دوسرے صوبے بھی تقسیم کے لیے تیار ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پلے کچھ ہے نہیں کہ مخالفت کرے یا حمایت۔ اپنے طور پر تحریکِ انصاف صوبہ بنانہیں سکتی۔ لیکن اگر سرائیکی وسیب کے نمائندے اپنی اپنی جماعتی وابستگی سے بلند ہو کر اس ایک مقصد کے لیے ایکا کرلیں تو بھی ایک بات ہے ۔ لیکن وہ اپنے اپنے سیاسی آقائوں کے تابع ہیں۔ تاریخ کا دھارا عوام بدلتے ہیں، دانشور امکانات کی فصل بوتے ہیں۔