"RBC" (space) message & send to 7575

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

سیاست پڑھتا، پڑھاتا اور لکھتا ہوں مگر وطنِ عزیز کے سیاسی ماحول کو دیکھ کر گھن سی آنے لگی ہے۔ دل بھر گیا ہے، لیکن کیا کریں‘ اسی سے معاش وابستہ ہے۔ سیاسیات سے نصف صدی کا رشتہ ہے، اب جان چھڑانا ممکن نہیں۔ 
کتاب اور کلاس میں تو سب کچھ ٹھیک، لیکن عملی طور پر پاکستان کی سیاست کسی جنگی معرکے سے کم نہیں۔ کئی دہائیاں پہلے جس رزم کی ابتدا ایوب مخالف تحریکوں سے ہوئی، اُس کی آنچ کبھی سرد نہیں پڑی۔ ملک میں ایسی کوئی فوجی یا سول حکومت قائم نہیں ہوئی جس کے خلاف سیاسی جماعتیں پوری یکسوئی کے ساتھ، ہمہ وقت برسرِ پیکار نہ رہی ہوں۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت میں اپوزیشن لازمی ہے، اس کے بغیر سیاسی اور جمہوری عمل مکمل نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ ترقی کر سکتی ہے۔ آزادی ہو گی تو سیاسی جماعتیں بنیں گی، رائے کا آزادانہ اظہار کیا جائے گا، دھڑے بندی اور اکھاڑ پچھاڑ ہو گی، لیکن یہ کچھ تہذیب، روایات اور قانون کے دائرے میں ہوتا ہے۔ سیاست برائے سیاست، اور مخالفت برائے مخالفت نہیں۔ 
بدقسمتی سے ہماری سیاست پر جاگیردارانہ اور قبائلی روایات اور ثقافت کی چھاپ بہت گہری ہے۔ ہمارے ہاں مخالف سوچ رکھنے والا دشمن ہوتا ہے، جس کی پوری طاقت سے سرکوبی ضروری ہے۔ اُسے ہر طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی طور پر ختم نہ کیا جائے تو بھی زیر رکھا جائے۔ ہماری موجودہ اور ماضی کی سیاسی جنگوں کو سمجھنے کے لیے جاگیرداری اور قبائلی نظام کی ثقافتی حرکیات کا ادراک ضروری ہے۔ 
سیاسی اختلافِ رائے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق کسی بھی جمہوری ملک میں ذاتی دشمنیاں پیدا نہیں کرتا، بلکہ مقامی سطحوں پر، یا میڈیا میں سب کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جاتا ہے۔ سب بات کرتے ہیں، اپنا اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مجوزہ پالیسیوں کے خلاف دلائل دیے جاتے ہیں تاکہ عوام اُن میں تمیز کر سکیں اور اُنہیں اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملے۔ کسی امریکی چینل کو دیکھیں۔ وہاں صدارتی انتخابات تو نومبر 2020 ء میں ہوں گے، لیکن حزبِ اختلاف، ڈیموکریٹس، سے کئی امیدوار میدان میں آ چکے ہیں۔ سب کو بات کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ لیکن ایک دوسرے کی عزتِ نفس، زبان اور لہجے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ شائستگی سے بات کی جاتی ہے۔ اگر کسی امیدوار نے تلخ جملے بول دیے تو رائے عامہ میں اُس کی پذیرائی کے امکانات ختم۔ ذاتی زندگی، اخلاقیات، حب الوطنی اور عوامی زندگی صرف نعروں سے سند نہیں پاتی، ریکارڈ سے بات کرنا پڑتی ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی رہنمائوں کو پرکھنے کا معیار اور طریقِ کار بہت کڑا ہے۔ خصوصاً صدارتی امیدواروں کے لیے تو نہایت کڑی جانچ ہوتی ہے۔ سب کچھ کیمرے کی آنکھ کے سامنے ہوتا ہے۔ کالج کے جوانی کے زمانے سے لے کر آج تک کا کوئی بھی مسئلہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ذاتی زندگی کا فقط ایک ورق کسی امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ 
ہماری کمزور، بدعنوان جمہوریت کا حال معلوم۔ شائستگی چھو کر نہیں گزری، اخلاقی معیار ڈھونڈے نہیں ملتا۔ سیاست کا مقصد عوامی خدمت، حب الوطنی کے تقاضے اور قومی سدھار نہیں، بلکہ ہر قیمت پر اقتدار کے دسترخوان سے لطف اندوز ہونا ہے۔ سبقت کے اس کھیل میں حریف کو زیر کرنا، اور طاقت کے ذریعے مال بنانا ہی سیاسی کامیابی ہے۔ یہ وہی جاگیردارانہ مزاج ہے جسے مغرب کی دانش گاہوں کی تعلیم، اور مغربی معاشروں میں قیام بھی نہیں بدل سکا۔ اس فرسودہ سماجی اور اقتصادی نظام کی کارگزاری سب پر عیاں ہے۔
جمہوریت کے بارے میں ایک بنیادی سوال کئی سو سال سے زیرِ بحث ہے، اور یہی سوال ملک میں بدعنوانی اور قومی اور ریاستی زوال کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک، یا چند، یا پورا جرائم پیشہ گروہ عوامی تائید، یعنی ووٹ سے منتخب ہو کر اقتدار میں آ جائے تو سماج کے پاس ایسے لوگوںکا تدارک کرنے کے لیے پھر کیا رہ جاتا ہے؟ لوگ اس ٹولے کی کرپشن، جرائم اور ستم سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اصولی طور پر اگر ایسے افراد منتخب ہوکر آجاتے ہیں تو انہیں حکمرانی کا حق مل جاتا ہے، اور جمہوریت اس حق کو تسلیم کرلیتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر مداوا کیا ہوگا؟ جمہوری نظام کی روح ویسے تو کئی اصولوں سے مرتب ہے، مگر دو اصول بہت اہم ہیں۔ ایک عوامی حکمرانی، کہ اقتدار اُن کے پاس ہے، اور وہ ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ یہ نمائندے اُن کی منشا کے مطابق محدود مدت کے لیے عوام کے نام پر اقتدار کو استعمال میں لائیں گے۔ یہ وہ اصول ہے جو پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کے جواز میں پیش کرتا ہے کہ اُنہیں عوام نے منتخب کیا ہے، نیز اُن کی طاقت کی اساس آئین ہے۔ لیکن جو سوال میں نے اٹھایا ہے، کہ اگر جرائم پیشہ افراد کا ایک ٹولہ منتخب ہوکر آجائے تو کیا اُسے حقِ حکمرانی دے دیا جائے؟ اس سوال کا جواب جمہوریت کے دوسرے بنیادی اصول میں موجود ہے۔ وہ قانون کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت دراصل حکمرانی اور حکمرانوں کو قانون کے تابع کرتی ہے۔ مغرب کی پختہ جمہوریت میں کوئی اس طرح کی یاوہ گوئی نہیں کر سکتا کہ ہمارا احتساب تو لوگ ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں، اس لیے ادارے ہمارا احتساب کیوں کریں۔ 
مان لیتے ہیں کہ انتخابات کے وقت اپنا نمائندہ چننے کی طاقت عوام کے پاس لوٹ جاتی ہے اور اصولی طور پر وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کے نمائندے نے گزشتہ پانچ سالوں میں کیا کام کیے۔ اگر وہ مطمئن نہ ہوں تو وہ افراد اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں رائے تبدیل کر لیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے تو اقتدار قانون کے تابع ہے، اور جمہوریت میں اقتدار کی بنیاد آئین ہوتا ہے۔ اگر قانون، عدالتیں اور احتساب کا عمل کمزور ہو یا اقتدار میں آنے والے عوامی نمائندے خود اس عمل کو کمزور کر دیں تاکہ وہ اپنی بدعنوانی کو تحفظ دیتے رہیں، اور کچھ بھی کر لیں، قانون کے شکنجے میں نہ آئیں تو پھر وہی کچھ ہوگا جو پاکستان میں ہوتا چلا آیا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے جس نے بھی کالا دھن بنایا، اُس نے سیاسی جماعتوں کا رخ کیا۔ اُن کے لیے سیاسی جماعتیں ایک ایسا دفاعی حصار ہیں جس میں وہ بطور عوامی نمائندے محفوظ بھی ہیں اور محترم بھی۔
مبینہ طور پر بدعنوان حکمرانوں نے بڑی ڈھٹائی اور تسلسل کے ساتھ اپنے اندرونی حلقوں میں تین باتوں پر زور دیا ہے۔ یہ باتیں سب کو معلوم ہیں، لیکن صرف دلیل کے لیے دہرا رہا ہوں۔ پہلی یہ کہ ہر طریقے سے دولت اکٹھی کی جائے۔ بھاڑ میں جائیں عوام اور ریاست، کہ دولت کے بغیر سیاسی مخالفین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ گزشتہ ادوار میں عہدے بکے، ٹھیکے بکے، پاکستان کا اربوں، بلکہ کھربوں روپوں کا نقصان ہوا، اور یوں سیاست ہوئی۔ دوسری، عدالتوں اور اہم عہدوں پر چن چن کرا پنے حمایتی بھرتی کرو، تاکہ بوقتِ ضرورت ہاتھ تھام لیں۔ اور تیسری یہ کہ احتساب کے عمل کو کمزور کیا جائے۔ ایسے جمہوری نظام میں شور اور ہنگامہ فطری بات ہے، کیونکہ ہم نہ قانون کے تابع ہیں اور نہ اخلاقیات کو مانتے ہیں۔ اور پھر ایک نیا وزیرِ اعظم، نئی سوچ، نئی سیاسی جماعت، احتساب کا نیا عمل، اور ان کا واسطہ ہے بدعنوانی کے پرانے رچے بسے نظام، اس کے سرپرست رہنمائوں اور ان کے کارندوں سے۔ ظاہر ہے کہ ان کے لیے یہ قانونی احتساب قابلِ قبول نہ ہو گا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی خاندانوں کی ناجائز دولت کے چرچے دنیا بھر میں ہیں‘ لیکن یہاں وہ کیسی اکڑ کے ساتھ، قافلوں کی صورت چلتے ہیں؛ چنانچہ ایسی پارلیمنٹ کو کیوں چلنے دیں گے جو اُن کا احتساب کرنے کی جسارت کرے؟ چنانچہ اُن کا مفاد اسی میں ہے کہ ہنگامہ برپا کرکے حکومت کو مفلوج رکھیں۔ خیر یہ پرانی روایت ہے۔ موجودہ وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی نواز حکومت کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ان سیاسی آندھیوں سے نکلنے کی ایک ہی راہ ہے۔ قانون کی حکمرانی۔ اسی سے نظام درست ہوگا۔ کوئی شارٹ کٹ کام نہ دے گا۔ ایک اور بات، عوامی دبائو سیاست دانوں کو مل بیٹھنے اور ملکی مسائل کا حل نکالنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں