برطانیہ، یورپ اور امریکہ کے دیہاتی علاقوں کی رعنائی، تازگی، ترتیب و تنظیم، اور ماحولیاتی پاکیزگی‘ سب اپنی مثال آپ ہیں۔ فرانس کے ایک گائوں میں کئی عشرے پہلے ایک رات اور دن گزارنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس کا نقشہ ذہن میں اب تک تازہ ہے۔ کچھ خاندان رات بسر کرنے اور صبح ناشتے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ سہولت آمدنی میں اضافے کا معقول ذریعہ ہے۔ یہ عمل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اب یہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں تو ایک مخصوص طبقہ ہی قیام کرتا ہے‘ جو لوگ کم بجٹ پر گزارا کرکے دنیا کی سیر کرتے ہیں، وہ دیہات کا رخ کرتے ہیں۔ کشادہ ماحول، سادگی، شہر کے شور شرابے سے دوری کی ایک اپنی کشش ہے۔ جاپان نے اپنی روایات کا خاص خیال رکھا ہے۔ جدت پسندی، صنعتی ترقی اور مشینی دور میں بھی ماحول کو پاکیزہ، صاف اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ دیہات میں بسنے والے کسانوں کو حکومت تمام وسائل فراہم کرتی ہے کہ وہ چاول اور دیگر فصلیں کاشت کرتے رہیں۔ جاپانی عوام اپنا اُگایا ہوا موٹا، کھردرا اور لیس دار چاول کھانا پسند کرتے ہیں۔ اس کی قیمت درآمد شدہ چاول سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مقصد قوم پرستی نہیں، بلکہ اپنے دیہات کو معاشی طور پر زندہ اور روایات کو آنے والی نسلوں کیلئے برقرار رکھنا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے انگلینڈ کے ایجورتھ گائوں میں رہائش پذیر ہوں۔ یہ لوٹن شہرکے مضافات میں، مرکز سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ شہر سے نکلتے ہی وسیع و عریض زرعی فارمز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ نیم پہاری علاقہ، دور دور تک پھیلے ہوئے کھیت، وادیاں، اور کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ کسی گھر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہر کھیت کئی سو ایکڑ پر پھیلا ہوتا ہے۔ ہر جگہ گھوم کر دیکھا، یہاں فصل کی بجائے کھیتوں میں جانور پالے جاتے ہیں۔ گھوڑوں، گائے اور بھیڑوں کے فارمز ہیں۔ ہر فارم پر ایک گھر، اور جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے مختص عمارتیں۔ ان کھیتوں کے درمیان سڑکیں زیادہ تر کچی ہیں، جو شہروں اور دیگر دیہات سے ملنے والی پکی سڑک سے منسلک ہیں۔ کھیتوں میں بنے ہوئے مکانات شہروں کے مکانات سے زیادہ مختلف نہیں۔ طرزِ تعمیر اور عمارتی میٹریل ہر جگہ یکساں ہے۔ وہ فرق جو ہمیں پاکستان کے شہروں اور دیہات میں بنے ہوئے مکانات میں نظر آتا ہے، یہاں نہیں ہے۔ ایجورتھ کی آبادی گزشتہ مردم شماری کے مطابق دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا نقشہ وہ نہیں جو عموماً ہمارے دیہات کا ہوتا ہے۔ مکانات سڑک کے کنارے، اور چھوٹے محلوں کی صورت دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر عمارت کے ساتھ پارکنگ، سرسبز لان اور درخت ہیں۔ اہلِ خانہ اپنے لان کی گھاس ہفتہ وار خود ہی تراشتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے پھول اور پھولدار جھاڑیاں اُگانے کا مقابلہ رہتا ہے۔ ہر گھر کے باہر کی دیواریں پتھر کی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ اکثر مقامات کئی سوسال پرانے ہیں۔ ہر عمارت کی اپنی تاریخ ہے۔
یہ بستی اینگلوسیکسن لوگوں نے ان پہاڑیوں میں تیرہویں صدی کے اوائل میں آباد کی تھی۔ 1872ء میں پارلیمان نے قانون منظور کرکے طے کیا کہ یہ علاقہ صرف کھیتی باڑی کیلئے استعمال ہوگا۔ ذاتی زمین کا کیا استعمال ہوگا، یہ قانون اور مقامی حکومت کے ضابطے متعین کرتے ہیں۔ پرانے مکانوں کی نئی سرے سے تعمیر کی ضرورت پڑے تو باہر کا نقشہ اور باہر استعمال کیے گئے پتھر تبدیل نہیں ہوسکتے۔ انہیں دوبارہ اسی طرح لگانا ہوگا، یا اُس جیسا میٹریل تیار کروانا ہوگا۔ چونکہ بیرونی دیواروں میں پتھر استعمال ہوتا ہے، اس لیے وہی پتھر کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ایجورتھ کے ایک حصے میں کچھ دکانیں، ریستوران اور برطانوی ثقافت کی علامت، مے خانے ہیں۔ خصوصاً ہفتہ وار تعطیلات کی شام مقامی لوگ اُن مے خانوں میں جانا، اور وہاں وقت گزارنا تفریح کا حصہ خیال کرتے ہیں۔ دیہات میں تین ادارے یکساں طور پر پائے جاتے ہیں: عبادت کیلئے چرچ، تعلیم کیلئے سرکاری سکول اور کھیلوں کیلئے میدان۔ اس گائوں میں کرکٹ کا میدان ہے۔ گائوں کی اپنی ایک کرکٹ ٹیم ہے جو علاقائی کرکٹ لیگ کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہے۔
کسی زمانے میں یہاں کپڑے کے چند کارخانے بھی تھے جن کے اب آثار بھی نہیں ملتے۔ اس گائوں کے ایک دولت مند اور مشہور شخص، جیمز باور نے چرچ، کرکٹ گرائونڈ اور ایک کلب تعمیر کرایا تھا۔ یہ مقامات اب بھی انہی کے نام سے مشہور ہیں، اور لوگ اُنہیں اچھے الفاظ میں محبت سے یاد کرتے ہیں۔ یہ گائوں ایک پہاڑی کے اوپری جانب ہے، لیکن یہ اُس قسم کی پہاڑیاں نہیں جو آپ مری یا بلوچستان کے علاقوں میں دیکھتے ہیں۔ یہ پوٹھوہار کے علاقے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یہاں بارشوں کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ اس لیے یہ علاقہ سرسبز و شاداب ہے۔ ہوائیں تیز چلتی ہیں۔ ان کا فائدہ اٹھا کر لوگ ونڈ مل لگا کر بجلی پیدا کرتے ہیں جو اُن کے گھر اور فارمز کیلئے کافی ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کیلئے علاقے میں چار ذخیرے بنائے گئے ہیں۔ پانی کہیں بھی ضائع نہیں ہوتا۔ ہر جگہ سے بہہ کر وادیوں کے نشیبی علاقوں میں بنائے گئے ذخیروں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہی پانی قریبی شہروں کو میسر آتا ہے۔ ایجورتھ اور دیگر دیہات سے ان چھوٹی چھوٹی جھیلوں تک پیدل چلنے کے راستے ہیں۔ جھیلوں کے قریب گھنے جنگلات ہیں۔ کچھ درخت تو سو سال پرانے معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی درخت طوفان سے گر جائے یا اپنی طبعی زندگی مکمل کرنے کے بعد زمین بوس ہو تو بھی وہیں پڑا رہتا ہے۔ کوئی شخص سرکاری جنگلات سے لکڑی کاٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جھیلوں کے اندر جنگلی مرغابیوں کے غول کے غول تیرتے پھرتے ہیں۔ کوئی اُن کا شکار نہیں کرتا۔ مقامی لوگ قدرتی ماحول کی حفاظت کرتے ہیں۔ اسی لیے برطانیہ کے شہری علاقوں کے علاوہ دور دراز کے ممالک سے لوگ گرمی کی چھٹیاں گزارنے ان دیہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں وہ جنگلوں اور کھیتوں کے درمیان کچی سڑکوں اور پہاڑیوں کے اونچے نیچے راستوں پر چلتے ہیں۔ راتیں ان جھیلوں کے پاس یا جنگلوں میں خیمے نصب کرکے گزارتے ہیں۔
برطانیہ ایک چھوٹا ملک ہے، مگر جو کچھ اس کے پاس ہے، اس کی حفاظت فطری ہم آہنگی، تاریخ اور انگریزی روایات کی روشنی میں ایسے کی گئی ہے کہ دل اش اش کر اٹھتا ہے۔ اس ملک میں دو ہفتے سے زیادہ عرصہ ہو چکا، لیکن کہیں گندگی، کچرا یا پلاسٹک کا اُڑتا ہوا لفافہ نظر نہیں آیا۔ یاد رہے، انسانی تہذیب قانون، ضابطوں اور اُن کے حتمی نفاذ سے ہی ترتیب پاتی ہے۔ یہی مغربی تہذیب کے عروج اور سربلندی کا راز ہے۔ یہاں ہر بیکار یا ناقابلِ استعمال چیز کو ٹھکانے لگانے کا ایک طریقہ ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ میرے میزبان نے اپنے لان کی گھاس مشین سے تراشی، اُسے پلاسٹک کے لفافوں میں محفوظ کیا اور اگلے دن لوٹن شہر میں پیکنگ مرکز لے گئے جہاں ہر نوعیت کی فالتو اشیا کیلئے بہت بڑے خانے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ہر چیز کیلئے مخصوص جگہیں ہیں۔ اس تمام مواد کو دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے کارخانوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔
باہر کی منظم اور باضابطہ زندگی دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ہمارے گرد آلود دیہات، بے ترتیب گھر، گندگی کے ڈھیر، سکڑتی ہوئی گلیاں ہماری یادوں کا حصہ ہیں۔ ان سے ہماری زندگی کا ایک حصہ وابستہ ہے۔ ہم جہاں بھی جائیں، چاہے شہر ہوں یا ولایت کا پرانا گائوں، یہ یادیں سایوں کی طرح پیچھا کرتی ہیں۔ ہم اسی مٹی سے بنے ہیں، اسی گرد میں ہمارا بچپن گزرا ہے لیکن اکثر خیال آتا ہے کہ کاش ہمارا ماحول بھی پاکیزہ اور صاف ہوتا۔ ہمارے ہاں بھی کوئی قواعدوضوابط ہوتے۔ بیرونی دنیا نے زندگی کے قانون اور ضابطے طے کررکھے ہیں۔ اُن کی آزادی ان قوانین کے اندر ہے۔ ہمارے ہاں ہر جگہ بے لگام آزادی کی زنجیروں نے زندگی کو جکڑ رکھا ہے۔ خلفشار، افراتفری اور ابتری بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔ کئی دہائیاں قبل دیہات سدھار پروگرام تھے۔ یہاں کی طرح کوڑا کرکٹ باہر جمع رکھنے والوں پر جرمانے ہوتے تھے۔ صفائی کی سالانہ مہم کی بجائے ضابطے تھے۔ یاد ہے کہ جب ہم نے آنکھ کھولی تو ہمارے دیہات بھی سرسبزوشاداب تھے۔ تازگی تھی، صفائی تھی۔ پتہ نہیں کون سے حکمران تھے جنہوں نے ہمارے دیہات کو کوڑے دان میں تبدیل کردیا۔ جاگیں، ان کا محاسبہ کریں، اور پرانی بستیوں کو سنواریں۔